اردو اور روزگار - حال محفوظ نہ مستقبل روشن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-11-02

اردو اور روزگار - حال محفوظ نہ مستقبل روشن

urdu jobs
اردو کو روزگار سے جوڑنے کے مسئلے پر خوب باتیں ہوتی ہیں۔ کانفرنسیں بلائی جاتی ہیں، سمینار ہوتے ہیں، مقالے پڑھے جاتے ہیں، سفارشیںاور قراردادیں منظور کی جاتی ہیں اور پھر چند گھنٹوں کی ہنگامہ آرائی کے بعد اس معاملے کو طاق نسیاں کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ گھوم پھر کر پھر وہیں آجاتا ہے جہاں ان ہنگاموں سے قبل تھا۔ روزگار سے اردو کے تعلق کا گراف اوپر اٹھنے کے بجائے مزید نیچے چلا جاتا ہے۔ جنوبی ہند میں صورت حال پھر بھی کچھ غنیمت ہے لیکن شمالی ہند میں جو کہ کبھی اس کا گھر آنگن ہوا کرتا تھا، حالات دن بدن ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اردو کو روزگار سے جوڑنے کی باتیں حکومتی سطح پر بھی کی جاتی ہیں اور غیر حکومتی سطح پر بھی۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ آئیے سردست دہلی میں اردو اور ورزگار کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں جو اردو کا ایک دبستان رہا ہے، ملک کا دارالحکومت بھی ہے اور جہاں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ بھی حاصل ہے۔
کسی بھی زبان کو سرکاری درجہ حاصل ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب حکومت کے تمام کام اس زبان میں بھی ہوں گے۔ تمام محکموں میں اس زبان کے آفیسر رکھے جائیں گے۔ بقدر ضرورت مترجمین کا تقرر ہوگا۔ اس زبان میں درخواست لینے والا عملہ ہوگا۔ حکومت کے تمام اعلانات و اشتہارات مذکورہ زبان میں بھی جاری کیے جائیں گے۔ اس زبان کی تعلیم کا بند وبست کیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ جب دہلی میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوا تو ضروری ہو گیا کہ یہ تمام کام کیے جائیں۔ لیکن کیا ایسا ہوا او رکیا تمام سرکاری کام واقعی اردو زبان میں بھی ہونے لگے اور اس کے لیے اردو عملہ رکھا گیا۔ جب ہم ا س کا جائزہ لیتے ہیں تو انتہائی مایوسی ہوتی ہے۔ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ دوسری سرکاری زبان کا درجہ ملنے کے بعد اردو کا مزید زوال ہوا ہے۔ اگر کسی محکمہ سے کوئی اردو والا ریٹائر ہوا تو اس کی جگہ پر کسی دوسرے شخص کا تقرر نہیں ہوا۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ اب تو دہلی حکومت کے محکمے اردو زبان میں لکھی ہوئی درخواستیں بھی نہیں لیتے۔ پوچھنے پر کہتے ہیں کہ اردو جاننے والا کوئی نہیں ہے۔ متعلقہ ذمہ داروں سے بات کیجیے تو مجہول سا جواب دیتے ہیں کہ اردو والے ملتے ہی نہیں۔
جبکہ سچائی یہ ہے کہ اردو تعلیم یافتہ ہزاروں نوجوان بے روزگار ہیں۔ حکومت خالی اسامیوں کے لیے اشتہار ہی نہیں نکالتی اور اگر کوئی محکمہ غلطی سے نکالتا بھی ہے تو متعصب افسران جھوٹے سچے اعتراضات کر کے درخواستیں رد کر دیتے ہیں۔ حکومت کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ جب کوئی زبان سرکاری درجہ حاصل کر لے تو سرکاری محکموں میں کسی بھی عہدے پر تقرری کے لیے یہ بات لازمی طو پر دیکھی جائے کہ امیدوار اس زبان کو جانتا ہے یا نہیں۔ گویا سرکاری ملازمتوں میں تقرری کے لیے امیدوار کے لیے مذکورہ زبان کا جاننا ضروری ہو جاتا ہے۔
یعنی دہلی میں اگر کسی شخص کی تقرری کسی سرکاری محکمہ میں ہوتی ہے تو یہ لازمی ہے کہ وہ اردو اور پنجابی یا ان دونوں زبانوں میں سے کوئی ایک زبان جانتا ہو۔ اگر اس پر عمل نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنی آئینی ذمہ داری سے انحراف کر رہی ہے۔ کیا دہلی میں کسی تقرری میں اس ضابطے کی پاسداری کی جاتی ہے؟ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہے۔ اگر اس کی پاسداری کی جائے تو آج ہزاروں اردو والے ملازمت حاصل کر لیں اور اردو کو روزگار سے جوڑنے کا رونا دھونا بند ہو جائے۔ لیکن یہاں کی حکومت اپنی آئینی ذمہ داری کی مسلسل خلاف ورزی کر رہی ہے۔

مثال کے طور سرکاری اسکولوں کا معاملہ لے لیجیے۔ ان میں اردو کی سینکڑوں اسامیاں خالی ہیں۔ لیکن تقرری نہیں کی جاتی۔ نہ تو اردو میڈیم اسکولوں میں اور نہ ہی دیگر اسکولوں میں۔ حکومت نے ایک بے معنی سا بہانہ گھڑ لیا ہے کہ اردو والے ملتے نہیں۔ دوسرا بہانہ یہ ہے کہ اساتذہ کی تقرری کے لیے ریکروٹمنٹ رول ہی نہیں ہے۔ کیوں نہیں ہے۔ اور اگر نہیں ہے تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ دوسری زبانوں کے اساتذہ کی تقرری کیسے ہوتی ہے۔ اگر ان کا آر آر (ریکروٹمنٹ رول) ہے تو اردو کا کیوں نہیں ہے۔ ہزاروں ٹی جی ٹی اور پی جی ٹی اردو والے بے روزگار گھوم رہے ہیں لیکن لولا لنگڑا بہانہ بنا کر معاملے کو ٹال دیا جاتا ہے۔
دہلی سب آرڈینیٹ سروس سلیکشن بورڈ کے تحت دہلی کے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کا تقرر کیا جاتا ہے۔ 2009 میں اسکولوں میں اساتذہ کی خالی اسامیوں کے لیے اشتہار دیا گیا تھا جس میں اردو مضمون کے ٹی جی ٹی، پی جی ٹی اورپرائمری کے اردو میڈیم اساتذہ کی کی اسامیاں بھی شامل تھیں۔ دیگر مضامین کی اساتذہ کی تقرریاں ہو چکی ہیں لیکن اردو کے اساتذہ کی تقرری ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ 12 مئی2012 کو ٹی جی ٹی اردو کے لیے مقابلہ جاتی امتحان منعقد کرایا گیا تھا اور تقریبا دیڑھ سال گزرنے کو ہے لیکن ابھی تک اساتذہ کا تقرر نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ 2010 میں بھی اسکولوں میں اردو اساتذہ کی خالی اسامیوں کے لیے اشتہار دےا گیا تھالےکن ابھی تک مقابلہ جاتی امتحان بھی منعقد نہیں ہوا ہے چہ جائے کہ تقرری عمل میں آئے۔
ایک عرصہ قبل دہلی اردو اکیڈمی کو اردو استاد رکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ حالانکہ یہ غلط تھا۔ اکیڈمی کا کام اساتذہ کا تقرر کرنا نہیں ہے۔ پھر بھی اس نے یہ ذمہ داری ایک عرصے تک نبھائی۔ اب اس کے موجودہ وائس چیئرمین پروفیسر اختر الواسع کا کہنا ہے کہ ہم یہ کام نہیں کریں گے۔ ایک تو یہ ہماری ڈیوٹی نہیں اور دوسرے اکیڈمی کے توسط سے جن کی تقرری ہوتی ہے ان کو دوسرے اساتذہ کے مقابلے میں کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ تو پھر ہم یہ جرم اپنے سر کیوں لیں۔ یہ کام حکومت کا ہے وہی کرے۔ ان کی یہ بات درست ہے۔ لیکن اب اکیڈمی کے توسط سے اردو اساتذہ کی تقرری کا سلسلہ بھی بند ہو گیا ہے۔
یہ تو رہی اجمالی طور پر سرکاری محکموں اور اسکولوں میں تقرری کی بات۔ اب ذرا وسیع تناظر میں دیکھتے ہیں اور دہلی یونیورسٹی سے ملحقہ کالجوں اور یونیورسٹیوں پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ ان کی بھی حالت اسکولوں سے کوئی بہت بہتر نہیں ہے۔ وہاں بھی یہی صورت حال ہے کہ ایک استاد سبکدوش ہو گیا تو اس کی جگہ پر دوسرے کی تقرری نہیں ہوتی۔ جس کی وجہ سے آج دہلی یونیورسٹی سے وابستہ ایسے بہت سے ایسے کالج ہیں جہاں اس متعصبانہ روش کی وجہ سے اردو کے شعبے ہی بند ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر خالصہ کالج، لیڈی شری رام کالج اور مرانڈہ ہاوس کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
خالصہ کالج میں دس بارہ سال قبل شہاب جعفری کے ریٹائرمنٹ کے بعد (اب تو ان کا انتقال بھی ہو گیا) کسی کو نہیں رکھا گیا۔ وہاں اردو پڑھنے والے بہت سے طلبہ آتے ہیں لیکن انتظامیہ کی جانب سے کہہ دیا جاتا ہے کہ یہاں اردو شعبہ نہیں ہے۔
ماتا سندری کالج میں ایک عرصے تک گیسٹ لیکچرر سے کام لیا گیا۔ اب شائد دو سال قبل ایک مستقل استاد کی تقرری ہوئی ہے۔ لیڈی شری رام کالج میں شاہدہ زیدی کی سبکدوشی کے بعد کسی کی تقرری نہیں ہوئی۔ اس میں اور مرانڈہ ہاوس میں ایک ایک استاد عارضی طور پر پڑھا رہے ہیں۔ جبکہ ان دونوں کالجوں میں طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اسی طرح ذاکر حسین کالج، ستیہ وتی کالج، دیال سنگھ کالج اور کروڑی مل کالج وغیرہ میں اردو کے شعبے تو ہیں لیکن اساتذہ کی کمی ہے۔
دیال سنگھ کالج کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے بانی نے اپنی وصیت میں کہا تھا او رجو کالج کے Preambleمیں بھی شامل ہے کہ یہاں پنجابی اور اردو کی تعلیم ناگزیر ہے۔ یہ دونوں شعبے ختم ہی نہیں کیے جا سکتے۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ مارننگ اور ایوننگ میں بس ایک ایک ہی مستقل استاد ڈاکٹر مولی بخش اور ڈاکٹر ساجد حسین پڑھا رہے ہیں۔ ایک استاد ڈاکٹر ابو ظہیر ربانی ایڈہاک پر پڑھا رہے ہیں۔ جبکہ وہاں بھی اردو طلبہ کی تعداد زیادہ ہے اور وہاں ابھی تین اساتذہ کی ضرورت ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یونیورسٹی کے ذمہ داران کہتے ہیں کہ اردو کے طلبہ ہی نہیں ہیں اور اردو اساتذہ اس بات کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طلبہ تو موجود ہیں لیکن انتظامیہ ہی کسی کا تقرر کرنا نہیں چاہتی۔
جمنا پار کا علاقہ اردو کا بہت بڑا علاقہ ہے۔ لیکن وہاں کسی بھی کالج میں اردو کا شعبہ ہی نہیں ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سابق صدر پروفیسر ابن کنول کے مطابق انھوں نے اس بارے میں کافی جد و جہد کی تھی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ وہ امبیڈکر کالج شاہدرہ کی مثال دیتے ہیں او رکہتے ہیں کہ ان کی انتھک کوششوں سے وزیر اعلی شیلا دیکشت اس پر راضی ہو گئیں کہ اس میں شعبہ اردو قائم کیا جائے۔ لیکن جب معاملہ دہلی یونیورسٹی کی انتظامیہ کے پاس پہنچا تو وہاں معلق ہو گیا۔ بقول ان کے انتظامیہ کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ ڈی یو کے کالجو ں میں اردو شعبے کھولے جائیں۔
پروفیسر ابن کنول وقتاً فوقتاً جامعہ ہمدرد میں شعبہ اردو نہ ہونے کا معاملہ بھی اٹھاتے ہیں۔ لیکن اس میں بھی اردو کا شعبہ قائم کرنے میں کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔

دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں غالباً پندرہ سال سے کوئی تقرری نہیں ہوئی ہے۔ وہاں فی الحال 12اساتذہ پڑھا رہے ہیں۔ جبکہ پروفیسر کی تین، ایسو سی ایٹ پروفیسر کی چار اور اسسٹنٹ پروفیسر کی چھ اسامیاں خالی ہیں۔ ان کو پر کرنے کے بجائے ایڈہاک پر کام چلایا جاتا ہے۔ وہاں اس وقت ایڈہاک پر چھ اساتذہ پڑھا رہے ہیں۔ جبکہ دوسرے شعبوں میں ادھر جگہ خالی ہوئی ادھر تقرری ہو گئی۔ لیکن نا انصافی ہے تو اردو کے ساتھ۔ اسامیاں پر کرنے میں انتظامیہ کو کوئی دلچسپی نہیں۔ جے این یو اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو میں تو تقرری ہو جاتی ہے۔ جے این یو کے شعبہ اردو میں کل 9 اسامیاں ہیں۔ جن میں سات پُر ہیں اور دو خالی ہیں۔ ان اسامیوں کو مشتہر کر دیا گیا ہے۔ جامعہ کے شعبہ اردو میں کل 12اساتذہ ہیں۔ جبکہ پروفیسر اور اسسٹنٹ پروفیسر کی ایک ایک اسامیاں خالی ہیں جن کو پر کرنے کے لیے درخواستیں مانگی جاچکی ہیں۔

جے این یو کے شعبہ اردو سے وابستہ ڈاکٹر انور پاشا نے اردو کو روزگار سے جوڑنے کی غرض سے دہلی حکومت کو اس کی آئینی ذمہ داری کا احساس دلایا اور اسے گزشتہ دنوں ایک میمورنڈم دیا۔ جس میں انھوں نے کہا ہے کہ یہ حکومت کا آئینی فریضہ ہے کہ وہ اردو کے دوسری سرکاری زبان بن جانے کے بعد اس کی تعلیم کا انتظام کرے اور اسکولوں اور کالجوں میں اردو کی تعلیم کی کمی کو پورا کرے۔ جن سرکاری محکموں میں اردو جاننے والے نہیں ہیں ان میں اردو داں افراد کی تقرری کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اس آئینی ذمہ داری کا بھی پاس و لحاظ رکھے کہ ملازموں کی تقرری کے وقت یہ بات خاص طور پر دیکھے کہ امیدوار اردو یا پنجابی جانتا ہے یا نہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ آئین کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ ان کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ گجرال کمیٹی کے سہ لسانی فارمولے کے تحت اردو کو قومی سطح پر ہندی او رانگریزی کے بعد تیسری زبان کے طور پر اختیار کیا جائے۔ تاکہ لوگ اردو پڑھ سکیں اور اس کے توسط سے روزگار حاصل کر سکیں۔ بقول ان کے وزیر اعلی کے دفتر نے میمورنڈم تو لے لیا لیکن اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔
اب ان کا منصوبہ یہ ہے کہ دہلی میں اسمبلی الیکشن کے موقع پر تین بڑی پارٹیوں کانگریس، بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کو میمورنڈم دیں گے کہ وہ اپنے انتخابی منشور میں اردو تعلیم او راردو کو روزگار سے جوڑنے کا وعدہ کریں تاکہ الیکشن بعد اس کی بنیاد پر ہم نئی حکومت کے سامنے اپنا مطالبہ رکھ سکیں۔

اردو کو نقصان پہنچانے او ر اسے روزگار سے کاٹنے کا سلسلہ یہیں تک محدود نہیں ہے۔ اب گریجوایشن میں جس چار سالہ ڈگری کورس کا دہلی یونیورسٹی کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے اس سے بھی اردو بری طرح متاثر ہوگی۔ اس کی زک دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو پر بھی پڑے گی۔ اس سلسلے میں دیال سنگھ کالج میں شعبہ اردو کے صدر ڈاکٹر مولوی بخش کافی جد و جہد کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چار سالہ کورس کا نصابی ڈھانچہ تیار کرتے وقت زبانوں کے فروغ کے لیے پچاس برسوں سے رائج رعایت کو ختم کر دیا گیا ہے۔چار سالہ کورس کے داخلے کے دوران صرف اردو پڑھنے والے بچوں کو ہی نہیں بلکہ کسی بھی زبان کے طالب علم کو داخلے میں اب کوئی رعایت نہیں ملے گی۔ بقول ان کے دہلی یونیورسٹی کے Four year under graduate prog [FYUP] کے تحت یہ اصول بنا دیا گیا ہے کہ داخلے صرف Dc-1 یعنی کسی بھی سبجیکٹ کے آنرس میں ہی ہوں گے۔ کیونکہ اب پاس کورس ختم ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چار سالہ کورس کے ضابطے کے مطابق ہر جگہ آنرس کا انتظام کرنا یونیورسٹی کے لیے لازمی ہے۔
اگر اردو کو سامنے رکھیں تو کروڑی مل،ذاکر حسین اور ستیہ وتی کالج میںDc-1 یعنی آنرس پہلے سے موجود تھا، لہٰذا وہاں کوئی نقصان نہیں ہوگا باقی کالجوں میں جہاں آنرس نہیں ہے وہاں ایک مکمل ٹیچر کی بھی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ ان کے مطابق دیال سنگھ کالج میں جب آئندہ سال سے یہ نظام نافذ ہو جائے گا تو جہاں مزید تین استاد کی ضرورت ہے وہاں ان کی اپنی ضرورت بھی نصف رہ جائے گی۔

ابھی گزشتہ دنوں اردو کے سب سے بڑے حکومتی ادارے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام دہلی میں ایک بین الاقوامی اردو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جس میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے معروف ادیب، افسانہ نگار اور ناول نویس ایس ایم اشرف نے کہا کہ " ۔۔۔ در اصل اسکول کے نظام سے اردو کا اخراج ہی اردو کے زوال کا اصل سبب بن گیا۔ جب تک اسکول کے نظام میں اردو کا احیاءنہیں ہوتا قومی زندگی میں اردو کا احیاء ممکن ہی نہیں ہے۔۔۔ "
ان کی یہ بات بالکل درست ہے۔ لیکن حکومت کا کیا رویہ ہے اس کا اندازہ سطور بالا سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کی جانب سے مسلسل یہ یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ ہم اردو کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دیں گے، اس کو اس کا حق دیں گے اور اسے روزگار سے جوڑیں گے ۔ لیکن جب حق دینے کا موقع آتا ہے تو پیشگی تیار شدہ بہانے کام آجاتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمی نظام اور روزگار سے اردو زبان کو ایسے بے دخل کیا جا رہا ہے جیسے کہ کوئی درانداز کسی کے گھر میں گھس جائے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر کر دیا جائے، اگر وہ آسانی سے نہیں نکلتا ہے تو بزور طاقت اسے گھر سے نکال دیا جائے۔ جہاں اردو کو آسانی سے نکالنا ممکن تھا وہاں سے اسے آسانی سے نکال دیا گیا اور جہاں سے وہ آسانی سے نہیں نکل رہی ہے (یعنی لوگوں کے دلوں سے) وہاں سے اسے زبردستی نکالنے کی ترکیبیں لگائی جا رہی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کو جب تک نصاب میں داخل نہیں کیا جائے گا اور اس کو روزگار سے نہیں جوڑا جائے گا اس کا احیا ممکن نہیں ہے۔احیا تو دور کی بات ہے اس کا تحفظ بھی ممکن نہیں ہے۔ اس وقت اردو ایک زوال آمادہ زبان بن کر رہ گئی ہے۔ اس کے زوال کو روکنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
لیکن اردو کے زوال کو مشاعروں اور سمیناروں کے انعقاد اور قوالیوں کی محافل آراستہ کر کے نہیں روکا جا سکتا۔ ارباب اقتدر و اختیار کی جانب سے بار بار یہ کہنا کہ اردو بڑی میٹھی زبان ہے، محبت کی زبان ہے، دلوں کو جوڑنے کی زبان ہے، گنگا جمنی تہذیب کی زبان ہے در اصل اردو والوں کو تھپک تھپک کر سلانے کے مترادف ہے۔
یہ ایسا میٹھا زہر ہے جو اہل اردو کو مدہوش کیے دیتا ہے اور پھر انھیں اس کا ہوش نہیں رہتا کہ ان کی زبان کے ساتھ کیسا سفاکانہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ کیا ارباب حکومت اور اہل اردو اس صورت حال کو بدلنے کے لیے تیار ہیں؟

***
Suhail Anjum
sanjumdelhi[@]gmail.com
سہیل انجم

Urdu and jobs - present and future are not secured. Article: Suhail Anjum

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں