الیکشن کمیشن انتخابات لڑنے والے امیدواروں کے انتخابی اخراجات کی حد مقرر کرتا ہے اور عام طور پر کبھی سختی سے اور کبھی نرمی سے ان پر نظر رکھتا ہے لیکن انتخابی اخراجات کا حساب کتاب انتخابات کے اعلان کے بعد امیدوار کے پرچہ نامزدگی کی منظوری کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اگر انتخابات کے اعلان یا ضابطہ اخلاق کے نفاذ سے انتخابات میں حصہ لینے والا امیدوار اپنی تشہیر اور پروپگنڈے کے لئے جو خرچ کرتا ہے اس پر سوال نہیں اٹھتا ہے۔ کئی ریاستیں حکومتیں اپنی حکومت کے کاموں کی تشہیر کے نام سے دراصل اپنی پارٹی اور وزیر اعلیٰ اور وزیروں کی پبلسٹی کرتی ہیں۔ آج کل اس معاملہ میں راجستھان اور مدھیہ پردیش کی حکومتیں سب سے آگے ہیں اور آج کل نریندر مودی نے بھی اپنی پبلسٹی سردار پٹیل کے مجسمہ کے بہانے کررہے ہیں۔ نریندر مودی نے تو اپنی پبلسٹی اور پروپگنڈہ اپنے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نامزد کئے جانے سے قبل سے ہی شروع کردیا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے تمام ذرائع ٹی وی، اخبارات اور ویڈیو، انٹرنیٹ اور ایف ایم ریڈیو اسٹیشنوں کے دھڑلے سے استعمال ہورہا ہے۔ جیسا کہ ان ہی کاموں میں ہم لکھ چکے ہیں امریکہ کی مشہور یہودی پبلسٹی فرم (APCO World Wide) (اے پی سی او ورلڈ وائڈ)نے نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانے کے لئے نہ صرف ان کی تشہیر اور پروپگنڈے کا بلکہ ان کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کا بھی ٹھیکہ لے رکھا ہے جس کے لئے اس امریکی فرم کو کروڑوں ڈالر ادا کئے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ بیش بہا اخراجات آخر کس کھاتے میں جائیں گے؟ کیا ان کو مودی کے انتخابی اخراجات میں شامل نہیں کیا جائے گا؟ اگر آج کل تو مودی نے خبروں کو ہی نہیں بلکہ کئی ٹی وی چینلز کے بیشتر پروگرام ہی مودی کے اشتہار نظر آتے ہیں۔ صدر جمہوریہ یا وزیر اعظم کی سرکاری یا غیر سرکاری تقاریب کا راست ٹیلی کاسٹ ہویا نہ ہو مودی کی تقریر راست Live دکھانے کے لئے ٹی وی چینلز اپنے پروگرام روک دیتے ہیں۔ گزشتہ دو پارلیمانی انتخابات میں اٹل بہاری واجپائی، سونیا گاندھی، اڈوانی اور منموہن سنگھ میں سے کسی کو بھی بہ حیثیت امیدوار برائے عہدہ وزیر اعظم، کسی ایک ٹی وی چینل پر بھی اتنی اہمیت، اتنا وقت Coverage ملتے نہیں دیکھا گیا ہوگا جتنا وقت تمام چینلز آج کل نریندر مودی کو دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ تقریباً تمام ٹی وی چینلز تجارتی ہیں ان میں سے بیشتر بھلے ہی سنگھ پریوار کے زیر اثر ہیں لیکن سنگھ پریوار کی خاطر مودی کی اتنی زبردست پبلسٹی مفت میں نہیں کی جاسکتی ہے۔ کیا اس قدر ناقابل قیاس اخراجات کی اجازت دے کر الیکشن کمیشن نا انصافی، قواعد کی خلاف ورزی، مودی سے جانبداری اور ناجائز رعایتیں دینے کا مرتکب نہیں ہورہا ہے؟ سارے نظام کا از سر نو جائزہ لینا ضروری ہے۔
مودی جیسی متنازع شخصیت کی حفاظت یا سلامتی (سیکوریٹی) پر حکومتوں کو زبردست انتظامات کرنے پڑرہے ہیں۔ جس کی وجہ سے عوامی خزانے پر بہت زیادہ بار پڑ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ طوفانی انتخابی دورے، سفر، جلسے، ریالیز اور بھاگ دوڑ کیا یہ نریندر مودی عوام کی کسی ضرورت، عوامی مفادات یا سرکاری خدمات اور ضرورت کے لئے کررہے ہیں؟ اس سوال کا جواب بے شک نفی مین ہے۔ ہاں انتخابات کا اعلان ہوچکا ہوتاتب بے شک تمام امیدواروں کے لئے اس قسم کے انتظامات سرکاری خزانے سے کئے جاسکتے ہیں لیکن انتخابات کے باضابطہ اعلان سے قبل اگر کوئی متوقع امیدوار یا پارٹی اپنی مہم شروع کردے تو امیدوار نہ اپنے سرکاری عہدے کا فائدہ اٹھانے کا مستحق ہے اور نہ ہی مرکزی یا ریاستی حکومتوں پر ان اخراجات کی ذمہ داری ہے جو آج کل مودی پر کئے جارہے ہیں۔ حکومتوں وزیروں بلکہ وزیر اعظم کوتک بے ایمان، چور، بددیانت اور’’ کرپٹیڈCorupted یا بھر شٹ‘‘کہنے والے خود مودی اور بی جے پی اس طرح کونسی ایمانداری کررہے ہیں؟ اپنی انتخابی مہم پر بہ حیثیت وزیر اعلیٰ گجرات مودی گجراتی حکومت کے خزانے پر ناجائز ، ناروا بوجھ ڈال کر بے ایمانی کررہے ہیں اور دوسری ریاستوں پر بھی ناجائز بوجھ ڈال رہے ہیں۔ اپنے سفر کے لئے طیاروں، ہیلی کاپٹروں کے اخراجات کے ساتھ گجرات پولیس کے ایک ہزار افراد کو گجرات سے بہار لے جانے کا ان کو کیا حق ہے؟ اس کا خرچ کیا مودی یا بی جے پی دے رہی ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ مودی کا اپنی انتخابی مہم کیلئے اس قدر زبردست اخرابات سرکاری خزانے سے کروانا صریحاً بے ایمانی ہے یعنی وزیر اعظم کے عہدہ کا امیدوار بن کر جو شخص اس قدر بددیانتی ، بے ایمانی اور لوٹ مار کرے کیا وہ اس عہدہ جلیلہ کا مستحق ہے؟
نریندر مودی کی تقاریر کے نفس مضمون سے گریز کرتے ہوئے اس تحریر پر ہم ان کی انتخابی مہم اور تقاریر کے انداز تک ہی محدود رکھتے ہوئے یہ سوال بھی آپ کے سامنے رکھیں گے کہ جس زور شور سے مودی نے اپنی مہم شروع کردی ہے کیا یہ قبل از وقت نہیں ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ مودی اب گجرات کے وزیر اعلیٰ نہیں رہے ہیں بلکہ صرف بی جے پی کے ایک قائد ہیں ورنہ بھلا ایک ایسی ریاست کے وزیر اعلیٰ (جس کو ترقی کے لحاظ مودی اور بی جے پی رول ماڈل قرار دیتے ہیں ہیں) کو بھلا اتنی فرصت کیسے اور کیوں کر مل سکتی ہے؟ کیا یہ فرائض سے کوتاہی نہیں ہے؟
نریندر مودی نے یو پی سے اپنی مہم شروع کی تھی لیکن مسلمانوں پر توجہ دیتے اور خود کو سیکولر اور مسلمانوں کا اصل ہمدرد ہونے کے دعوے کرنے والے مودی نے مظفر نگر اور اطراف کے دیہاتوں میں بھیانک مسلم کش فسادات کے متاثرین سے ملنے ہلاک شدگان کے اقارب کو پرسہ دینے زخمیوں کی عیادت اور بے گھر اور تباہ و تاراج ہونے والوں کو تسلی دینے کی زحمت نہ کرکے ثابت کردیا کہ مسلمانوں سے ان کی ہمدردی محض زبانی جمع خرچ ہے۔ حیرت ہے کہ بہار میں بم کے دھماکوں سے متاثرین کے لئے انہوں نے بطور خاص بہار کا سفر کیا اور ثابت کردیا کہ وہ مسلمانوں سے رسم راہ نبھانے کے بھی روادار وہ اب بھی نہیں ہیں اور سیاسی مقاصڈ کے لئے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ بہار میں ان کی جس ریلی میں بموں کے دھماکے ہوئے اس میں دھماکوں اور ہلاکتوں کے باوجود مودی کی تقریر جاری رہی۔ اگر ایک دھماکہ ہوتا پھر دوسرا نہ ہوتا تو اس کو نظر انداز کرکے پروگرام جاری رہتا تو یہ بات بھی قابل اعتراض ہوتی لیکن اتنی زیادہ نہیں لیکن وہاں دھماکہ نہیں بلکہ یکے بعد دیگرے کئی دھماکے ہوئے لیکن مودی نے اپنی تقریر جاری رکھی حالانکہ جلسہ کو فوراً برخواست کرکے مودی کو حالات کا جائزہ لینے، جلسہ گا سے لوگوں کی سلامتی کے ساتھ واپسی اور زخمیوں کی عیاست کے ساتھ علاج و معالجہ کے انتظامات کا جائزہ لینا چاہئے تھا لیکن مودی نے ایسا کوئی تکلف نہیں کیا اور جو کام ان کو اسی وقت کرنا تھا وہ انہوں نے ضروری نہ سمجھ کر اپنا جلسہ اپنی تقریر اور اپنا پروگرام پورا کرنا ضروری سمجھا اورتعزیت عیادت کا الگ پروگرام سیاسی مقاصد کے لئے الگ سے بنایا گیا۔ ملک کے وزیر اعظم کے عہدہ کا طلب گار اگر اس مزاج کا ہوتو یہ امر نہ صرف افسوس ناک بلکہ عہدہ کی امیدواری کی توہین ہے۔
مودی کی تقاریر کے لب و لہجہ، انداز بیان وغیرہ اس بات کا پتہ نہیں چلتا ہے کہ موصوف وزیر اعظم بننے کے اہل ہیں۔ تاریخ اور جغرافیہ سے مودی واقف نہیں ہیں۔ اپنے ہی بیانات ان کو یاد نہیں رہتے ہیں۔ راہول گاندھی اور سونیا گاندھی کے لئے ان کا توہین امیز رویہ اور طرز مخاطبت عامیانہ پن کااظہار ہے ۔ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے میاں مشرف تو گوارہ ہے لیکن اپنے متوقع حریف امیدوار کے لئے ان کا انداز نہ صرف عامیانہ بلکہ غیرمہذب ہے۔ تالی بجانے والے عوام سے وہ بے حد داد بٹور لیتے ہیں لیکن اصحاب فکر و نظر کے لئے ان کی سنجیدگی ، شائستگی سے عاری تقاریر مایوس کن ہیں۔ گجرات میں نتیش کمار کی میزبانی کرنے اور خاطر ومدارات کرنے کا احسان جتانا ہی کم ظرفی ہے اور جبکہ دعوت دینے والا میزبان کوئی اور تھا تو مودی کا میزبان نہ ہوتے ہوئے بھی میزبانی کا دعویٰ تو شرافت سے بعید ہے پھر ایسی باتیں برسر عام کہنا تو کم ظرفی اور کذب بیانی کا شاہکار مانی جائیں گی۔
سردار پٹیل کی آخری رسومات میں پنڈت نہرو کی عدم شرکت کی چھوٹی بات چند رگپت موریا، نالندہ اور دیگر کئی باتوں نے ان کے کمزور معلومات اور ان کی غلط بیانی اور قابلیت کا پول کھول دیا ہے۔
مختصر یہ کہ مودی کا رویہ، ان کی عامیانہ تقاریر ان میں قابلیت اور اعلیٰ ظرفی کا فقدان ان کی شبیہ بگاڑنے کے علاوہ عہدہ وزارت عظمیٰ کی امیدواری پر سوال اٹھانے کے لئے کافی ہیں۔
***
rasheedmansari[@]ymail.com
موبائل : 9949466582
Flat No. 207, "Jahandar Towers" Rati Bowli, Mehdipatnam, Hyderabad-500028
rasheedmansari[@]ymail.com
موبائل : 9949466582
Flat No. 207, "Jahandar Towers" Rati Bowli, Mehdipatnam, Hyderabad-500028
Modi's candidature for the post of Prime Minister? Article: Rasheed Ansari
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں