اب ایجاد ضرورت کی ماں ہے اور انسان آزادی کا اسیر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-11-21

اب ایجاد ضرورت کی ماں ہے اور انسان آزادی کا اسیر

Invention-is-the-mother-of-Necessity
سنتے آئے تھے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے لیکن صارفیت اور مادیت پرستی کے اس دور میں اب ایجاد ضرورت کی ماں بن گئی۔ ایجادات کے پیٹ سے نت نئی ضرورتیں پیدا ہونے لگی۔ پچھلی چند دہایوں میں معیشت اس مقام پر پہنچ گئی جہاں انسانوں کی بنیادی ضرورتیں تو پوری ہونے سے رہی اور انسان نے بے شمار ایسی اشیا ایجاد کر لی جس کی کوئی خاص حاجت نہیں تھی ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ انسان کی تن آسانی ان اشیا کو ضرورت سمجھنے لگی۔ اس غیر متوازن طرز فکر سے عام انسان کی زندگی اجیرن ہو گئی اور ضروریات زندگی کا حصول دن بدن مشکل ہونے لگا۔ اس سے پہلے کہ عام انسان کی کسی نئی ایجاد تک رسائی ہو دوسری نئی ایجاد وجود میں آنے لگی ۔ امیر طبقہ میں خوب سے خوب تر کی تلاش ہونے لگی اور متوسط طبقہ سوچنے لگا تو نہیں اور سہی۔۔۔۔۔۔۔، اور نئی نئی ایجادات دیکھکر غریب عوام کا ہر خواہش پہ دم نکلنے لگا۔ تاجر اور صنعتکار کا مقصد ضرورتوں کے تحت پیداوار کرنا نہیں رہا بلکہ مادیت پرستی اور صارفیت کی تبلیغ اور اپنا نا ختم ہونے والا مفاد ٹہرا ۔ معیشت کے اصول زیر و زبر ہونے لگے، بے قابو سرمایہ داری، اجارا داری اور تجارتی قمار بازی نے ایسا جال بنا کہ آسودگان شہر بھی احتجاجا راستوں پر نکل آئے۔ ماہر ین بھی عالمی معاشی مسائل دیکھکر ہونقوں کی طرح ایکدوسرے کا منہ تکنے لگے۔ سب کے سب اپنی ہی پیدا کردہ قانونی پیچیدگیوں میں الجھ کر رہ گئے، پھر چاہے وہ مغربی ماہر معاشیات ہوں یا متغربین، یا پھر کہنہ مشق سرمایہ دار ہوں یا شاطر سیاسات داں۔ یہ وہی انسانی قوانین ہیں جن کی بنیاد در حقیقت حقوق و فرائض اور مراعات پر رکھی گئی تھی لیکن رفتہ رفتہ ایک ایسی عمارت تعمیر ہوتی چلی گئی جو بھول بھلیاں بنکر رہ گئی۔ ان میں غریب انسان کا گزر ناممکن ہوا اور خاص الخاص لوگ ان بھول بھلیوں میں پوشیدہ مراعات کا فائدہ اٹھانے لگے۔ ان بھول بھلیوں میں بھٹکنے سے بچنے کے لئے مختلف متخصص متعین کیے گئے ، جو ان خاص الخاص لوگوں کے مسیحا ٹہرے۔ ان متخصص حضرات کی تعلیم و تربیت اور ذہن سازی کچھ اس طرح کی گئی کہ یہ اپنے موکل کے فرائض کو حقوق ثابت کرنے میں اور انکو مراعات مہیا کرانے میں لگ گئے، یہ مراعات یقینا قانون کے دائرے میں یا یوں کہیے بھول بھلیوں میں رہ کر ہی مہیا کی جانے لگی۔ یونانی اور رومن فلسفہ کی اندھی تقلید میں مہذب انسان نے بطور علامت ایک میزان بدست عورت نما مجسمہ بھی تراش لیا، اور اسکی آنکھوں پر پٹی بھی باندھ دی۔ اس طرح قانون کو غیر جانبدار ثابت کردیا گیا اور مجسم انصاف بھی۔ آزادی نسواں کی علمبردار خواتین کو مغربی ذہنیت کا اندازہ نہ ہو سکا اور نہ ہی وہ ان علامتی پیغام کو کبھی سمجھ پائیں۔ آخر کار اس علامت کو وہ مقام حاصل ہوا کہ شیطان نے اسے اپنی کامیابی جان کر سکون کی سانس لی، بقول علامہ "جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست۔۔۔۔۔۔۔۔باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک" ۔

اہل مغرب نے انسانیت کی بھلائی کے لیے ہزاروں ایجادات کیں ہیں اور ان میں سے چند ایسی ہیں جن سے انسانیت کو فائدہ بھی ہوا، لیکن زیادہ تر ایجادات ایسی ہیں جس نے انسانیت کو تباہی کے علاوہ کچھ نہ دیا۔ ایجادات کا خبط اہل مغرب کو ایسا چڑھا کہ انکو یہ خیال ہی نہیں آیا کہ جانا تھا کدھر پہنچے ہیں کہاں۔۔۔۔ ایک لفظ" آزادی" سے یہ خبط شرو ع ہوا تھا، پھر مغرب کبھی اس اسیری سے آزاد نہ ہو سکا۔ دوسروں کو شدت پسند اور "فناٹکس" کہنے والے خود بھول گئے کہ وہ اس میں کہاں اور کیسے برے پھنس گئے ۔ فرد کی آزادی سے جو شروعات ھوئی تھی وہ آزادی افکار سے ہوتے ہوۓ آزادی قلم و بیان اور اظہار رائے تک جا پہنچی۔ انھیں پتہ ہی نہ چلا کب تفکرات کے چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ پھر یہ خبط مذہب، قانون اور معاشرہ کی آزادی سے آگے بڑھ کر شرم و حیا سے آزادی تک جا پہنچا۔ پھر جنسی آزادی اور اکل و طعام کی آزادی تک، اور رشتوں سے آزاد ہوتے ہوتے اب یہ احساسات سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے یہ دنیا کے تمام انسانوں کو ان سب آزادیوں میں اپنی طرح مقید دیکھنا چاہتے ہیں۔

آزادی کے جنون میں اہل مغرب عجیب و غریب ایجادات کر تے رہے۔ پھر چاہے سائینسی ایجاد ہو یا معاشرتی، علمی ہو یا ادبی، تجارتی ہو یا سیاسی، بلا ضرورت ایجادات کا انبار لگاتے چلے گئے ۔ ہر ایجاد کے ساتھ" اسٹراٹیجک" کا ایسا دم چھلا لگا دیا جو افہام و تفہیم میں الجھتا گیا اور جس نے مغرب کی آزادی افکار کی قلعی کھول دی۔ زمینی جنگوں سے خلائی جنگوں کی طرف گامزن ہوگئے اور ایسے ایسے جنگی اسلحے ایجاد کرلیے جسکا استعمال کجا حفاظت کر نا ہی مصیبت کا باعث بن گیا۔ عوام کی ملکیت ضائع اور معیشت تباہ ہونے لگی۔ پھر ان اسلحوں کو فروخت کر اپنی معیشت میں توازن تو نہ لا سکے لیکن دوسروں کی معیشت تباہ کر بیٹھے۔ ایسے تعلیمی موضوعات جنکی کہیں کوئی ضرورت نہ تھی انھیں ایجاد کر کے اب ضرورت تلاش کر رہے ہیں۔ جنسی بے راہ روی میں کمال بھی حاصل کرلیا اور جنسی تفریحات کے بے شمار سامان ایجاد بھی کرلیے۔ پھر بھی تسکین حاصل نہ کر سکے ۔ جنسی تعلیم کو اسکولوں میں کچھ اس طرح عام کر دیا کے من و تو کا فرق ہی نہ رہا۔ جو جنسی تعلیم ماں کی تربیت کا خاصہ تھی اسکو ٹیچرز کے سر منڈھ دیا اور اسکا جواز یہ دے دیا کہ مائیں تو "ورکنگ ویمن" ہیں اور انکے پاس وقت کہاں۔ وہ ٹیچرز جو بے راہ روی کے خود شکار تھے شکاری بن گئے اور اسکولوں میں ہی شکار کھیلا جانے لگا۔ جو نو جوان نسل کبھی دنیائے روزگار میں شکار بنائی جاتی تھی وہ کم عمری میں ہی شکار ہونے لگی اور مختلف سائینسی ایجادات کا استعمال کر اپنی "فطری صلاحیتیں" گنوا بیٹھی۔ آزادی نسواں کے نام پر ورکنگ وومن کی ایجاد بھی بلا ضرورت ہی کی گئی تھی، بلکہ انکی اس ایک خرافاتی ایجاد نے ہزاروں لاکھوں ناجائز ضرورتیں پیدا کر لی تھیں۔ پھر ایک اور حماقت کر بیٹھے کہ افزائش نسل کی روک تھام کے سامان ایجاد کرلیے لیکن نسل تو رکنے سے رہی، اور وہ کچھ اس طرح دنیا میں آنے لگی کے نیو یارک، پیرس اور لندن کے ریلوے اسٹیشنوں پر اترنے والے لاکھوں نوعمر لڑکے لڑکیوں کو یہ پتہ نہ تھا کے انکے والد محترم کون ہیں، بلکہ اکثر کو تو والدہ محترمہ تک کا علم نہیں۔ ان میں سے چند "فطری صلاحیتو ں" سے محروم نو جوان نسل نے ایک "تیسری صنف" ایجاد کر لی اور ہم جنس پرستی کے حقوق کا مطالبہ لے بیٹھی۔ مطالبات بھی ایسے کہ جسے سن کر قوم لوط بھی دامن بدنداں ہوجائے ۔ اہل اقتدار کا بس چلتا تو وہ ایسی تمام نسلوں کو "ایلین" یا باہر کی مخلوق کہہ دیتے اور "ایلین" جیسی غیر ضروری ایجاد کو ان سے وابستہ کر دیتے ۔ شاید بھول گئے ہوں۔ آخر کار مذکورہ تمام نسلوں کی پرورش کے لئے نئے نئے قوانین ایجاد کر لیے گئے اور ان کو سماجی خدمات کا نام دے دیا گیا۔ جن میں سے ایک "فوسٹرنگ پیرنٹس" کی اختراع ہے جسے معاشرہ کی اعلی اقدار قرار دے دیا۔

جنسی بے راہ روی سے نت نئے "پوشیدہ امراض" وجود میں آگئے جنھیں افریقہ اور مشرقی ممالک کےسر تھوپ دیا گیا۔ بعد میں انھیں پتہ چلا انکی اپنی نسلیں ختم ہورہی ہیں اور ان کی قوم کی اکثر "ورکنگ وومن" اب ماں بننے کی "فطری صلاحیت" سے محروم ہو گئی ہیں تو اسکا علاج "سروگیٹ مدر" اور " ٹیسٹ ٹیوب بے بی" میں ڈھونڈ لیا۔ ایجادات کا خبط انتہا کو پہنچا تو نطفوں کے بینک ایجاد کرلیے اور ضرورتوں کی تلاش شروع کر دی۔ فی الحال ایک ضرورت تو ان کے ہاتھ لگ بھی گئی ہے جو انکی "فطری صلاحیتوں" سے محروم نسل میں مضمر ہے۔ نوکری پیشہ والدین کو تربیت کی ذمہ داری سے یہ کہکر آزاد کر دیا کہ یہ ذمہ داری "ویلفیر اسٹیٹ " میں مفت تعلیم و تربیت کے ذریعہ پوری ہوگی، اور خبر دار! سب بچے حکومت کے بچے ہیں انھیں کوئی تربیت کے نام پر ہاتھ تک نہ لگائے، اور یہ بھی کہ اب کوئی بچہ "حرامی" نہ قرار پائے، سب کے سب حکومت نے حلال کر لئے ہیں اور اب یہ سب حب الوطنی کی بھینٹ چڑھائے جائینگے ۔

مذہب سے یوں آزاد ہوۓ کے صرف انکی "کرنسی" پر ہی انکے ایمان کی شہادت نظر آنے لگی۔ زبان و بیان کی آزادی میں یوں پھنسے کہ اپنا کہا اب خود انکے حلق سے نہیں اترتا۔ معتدل طرز زندگی کو تیز رفتار کر دیا اور ہر ایک ایجاد "فاسٹ" اور "سپر فاسٹ" کی بنیاد پر ہونے لگی۔ یہاں تک کہ یہ ہر لمحہ اپنی زندگی کی گا ڑی کے پیچھے بھاگنے میں مشغول رہے۔ پہلے صرف پینے کھانے پر اکتفا کیا کرتے تھے اور انھیں کھانے پینے کے لیے فرصت ہی نہیں ملتی تھی، پھر اس کا حل "فاسٹ فوڈ" میں ڈھونڈ لیا اور ایسی ایسی غیر ضروری اشیائے خورد و نوش ایجاد کر لی کہ انھیں حفظان صحت کے اصول بھی یاد نہیں رہے۔ کہیں حلق میں ناسور پیدا کرنے والے "کوکا" اور "مشروب" بنا لیے تو کہیں ڈبہ بند کھانے۔ پھر ان ایجادات سے حاصل شدہ نقصانات کی تلافی کرنے کے لیے لاکھوں ادویات کی تحقیق کرلی، بلکہ انکی ضرورت سے زائد پیداوار بھی کر لی اور دنیا کو فروخت بھی کر دیا، اس دنیا کو جہاں ابھی مغربی خبط ظہور میں آنا شروع ہی ہوا تھا۔

رہی بات شرم و حیا اور رشتوں کے احترام سے آزادی کی تو جنسی ہیجان میں مبتلا کرنے والی تفریحات میں یوں گم ہوۓ کہ لباس "میڈی" سے "منی" اور پھر "مائیکرو" ہونے لگا۔ پھر بھی دل نہ بھرا تو اب چیتھڑے زیب تن کرنے لگے۔ رشتوں کا احترام خود بخود مٹنے لگا اور اسی کے ساتھ ساتھ احساس گناہ بھی۔ رشتوں سے کچھ یوں آزاد ہوۓ کہ انکے ماں باپ کو انکی برہنگی پر ناز ہونے لگا۔ گناہ کے بوجھ سے کبھی ضمیر نے کچوکے لگائے تو اس کے لیے نئی نئی نشہ آور اشیا ایجاد کر لی۔ جناب نور نے کیا خوب فرمایا کہ۔۔۔۔ضمیر کانپ تو جاتا ہے آپ کچھ بھی کہیں۔۔۔۔۔یا ہو گناہ سے پہلے یا ہو گناہ کے بعد۔۔۔۔۔ قبل از گناہ کے لیے موسیقی کا شور و غل اور جسمانی کثرت ایجاد کر لی اور ضمیر کی آہ و بکا کو اس شور و غل میں دبا دیا گیا اور بعد از گناہ کے بوجھ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے نشہ آور اشیا کا استعمال شروع کر دیا۔ اس طرح بار دیگر آزادی اور ایجادات میں ہی علاج ڈھونڈ لیا۔ تعجب ہے کہ اسکا تذکرہ مغربی میڈیا اور مغربی ادب میں اکثر فخریہ کیا جاتا ہے اور ایسے تذکروں کو یہ اپنی حق گوئی سے منسوب بھی کرتے ہیں۔ ویسے بھی "کنفیشن" یا اعتراف گناہ انکے خود ساختہ عقیدہ کا اہم حصہ رہا ہے ۔ اب ان تمام ایجادات اور آزادیوں میں اہل مشرق بھی مقید ہونا چاہتے ہیں۔ ان ایجادات کا بھر پور فائدہ اٹھانے کی شدید خواہش ان میں پروان چڑھنے لگی ہے، خاص کر اہل بر صغیرمیں کچھ زیادہ ہی ایسی خواہشیں انگڑائیاں لینے لگی ہیں، بلکہ معاشرے میں مغربیت اب اچھی خاصی مقدار میں سرایت بھی کر گئی ہے ۔ اور یہی اہل مغرب چاھتے بھی تھے۔ پرانی طرز پر حکومت کرتے تو بلا ضرورت پیدا کردہ ایجادات کا کیا کرتے، اور دنیا کو کیا دیتے۔ اس لیے جہانبانی کی نئی طرز ایجاد کرلی۔ دنیا پر حکومت کرنے کے لیے یہ طے کیا کہ بس انسان کے دماغ پر حکومت کرنی چاہئیے نہ کہ ملکوں پر۔ شیطان کا نصف کام خود انجام دے دیا، یعنی انسانوں کو خواہشوں کا غلام بناتے چلے گئے ۔ انسانوں کو فطری اصولوں سے چھڑاتے چلے گئے۔ جناب ظفر اقبال کا کیا خوب شعر ہے ۔
مجھ سے چھڑوائے میرے سارے اصول اس نے ظفر
کتنا چالاک تھا، مارا مجھے تنہا کر کے
نئی نئی ایجادات کے پیٹ سے ضرورتوں کے لاکھوں بچے پیدا ہورہے ہیں اور ان میں سب سے لائق و فائق بچے قوانین کی شکل میں پیدا ہورہے ہیں۔ یہ انسان کی نہ ختم ہونے والی ضرورتوں میں سب سے اہم مانی جاتی رہی ہے۔ پھر ہر قانون کے لئے ایک نئی ضرورت اور ہر ضرورت کے لئے ایک نیا قانون تلاش کیا جائیگا۔ مغربی سیاست ایسے قوانین ایجاد کرنے کی "فیکٹری" بن جائیگی اور مال کی کھپت کے لئے پھر نئی دنیا تلاش کی جائے گی۔ فی الحال تو اہل مغرب اپنی آزادی کے اسیر ہیں اور اب انکے پاس ایجاد کرنے زیادہ کچھ بچا بھی نہیں ۔ عام انسان تو ویسے بھی موجودہ ایجادات سے بدحال ہو چکا ہے ۔ کروڑوں ایجادات اور لا متناہی ضرورتیں اور اس پر طرا یہ کہ ذرائع اور وسائل سب کساد بازاری، بے قابو سرمایہ داری اور تجارتی قمار بازی کے "ڈائناسورس" کی خوراک بنتے جا رہے ہیں۔ اب مغربی کوچے بھی بے روزگاروں کے علاوہ آسودگان شہر کے احتجاج سے دہلنے لگیں ہیں ۔ انکو آسودگی کی ابتدا اور انتہا کا اب تک علم نہیں ہوا ہے۔ سفینہ مغرب کے ناخداؤں کی ہرایجاد اور ہر تدبیر اپنی قوم کو آسودگی کا مفہوم سمجھانے سے اب قاصر ہے۔ انکے سارے عقلی اور منطقی دلائل ، تمام معاشی و سیاسی حربے اور منصوبے اب کچھ کام نہیں آرہے ھیں۔ مالک حقیقی ان سب پر رحم فرمائے اور دیگر ممالک اور انسانوں کو عبرت حا صل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور سب کو دین فطرت کی طرف رجوع کرنے کی راہ دکھائے ۔
آمین ۔۔۔۔۔

***
Zubair H Shaikh
zubair.ezeesoft[@]gmail.com

Invention is the mother of Necessity. Article: Zubair H Shaikh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں