The demise of Hakeem Fayyaz Alam Islahi
ممبئی کے مشہور و معروف حکیم فیاض عالم اصلاحی کا آج شام عصر کے وقت یہاں کرلا واقع رہائش گاہ پر انتقال ہوگیا( انا للہ وانا الیہ راجعون) انہیں فشار خون کی شکایت ہوگئی تھی اور لمحہ بہ لمحہ کم و بیش ہو رہا تھا۔ بالآخر انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا، حالانکہ ان کے صاحبزادے طبعیت زیادہ خراب ہونے پر انہیں اسپتال لے گئے لیکن وہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ وہ جہان فانی سے کوچ کرچکے ہیں۔ ان کی عمر تقریباً پچاسی (85)برس تھی۔ پسماندگان میں بیوہ اور پانچ بیٹے با لترتیب حکیم محمد سعید اصلاحی ، حکیم عبد الحمید اصلاحی ، حکیم محمد علی اصلاحی، حکیم احمد اصلاحی اور حکیم محمد اصلاحی ، ایک بیٹی اور پوتے پوتیوں نواسے نواسیوں سے بھرا پرا خاندان ہے ان کے چھوٹے صاحبزادے حکیم محمد اصلاحی نے بتا یا کہ وہ در اصل اپنے چھو ٹے بھائی محمود الرحمن کے انتقال سے کافی صدمے میں تھے جن کا ممبئی میں اسی سال اگست میں انتقال ہوگیا تھا، وہ تب سے صدمے میں تھے۔ مرحوم کا جنازہ 19نومبر منگل کو ( آج) سہ پہر تین بجے ان کی رہائش گاہ واقع کرلا بیل بازار سے روانہ ہوگا اور جری مری قبرستان تدفین عمل میں آئے گی۔ حکیم فیاص اصلاحی نبا ضی میں کمال رکھتے تھے اور اس شعبے میں انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ ان سے علاج کرانے والوں میں مشہور شخصیات شامل رہی ہیں۔ حکیم محمد اصلاحی کے مطابق انہوں نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کا بھی علاج کیا۔ اس طرح برطانیہ کے ایک ممبر آف پارلیمنٹ بھی ان کے زیر علاج رہے۔انہوں نے اپنے تمام بچوں کو حکمت سکھائی اور یہ حکمت آئندہ نسل تک پہونچائی۔ ان کے چھوٹے بھائی حکیم محمد طارق اصلاحی فی الوقت اصلاحی سنبھال رہے ہیں۔ مرحوم حکیم فیاض اصلاحی کو صدر جمہوریہ ہند کے ہاتھوں سے نشان حکمت کا اعزاز حاصل ہوا۔ ممبئی میں آیورویدک تنظیم نے انہیں دھن ونتری ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا۔ وہ حکومت کے ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن کے آٹھ سال تک 1986سے 1992تک پروجیکٹ افسر رہے مالیگاؤں محمد یہ طبیہ کالج کے 1979سے1986تک فاؤنڈر پرنسپل رہے۔ حکیم فیاض اصلاحی ، اصلاحی دواخانہ اور دواخانہ اصلاحی شفا محل کے روح رواں تھے۔ حکیم فیاض اصلاحی سی پی آئی ایم کے مستقبل رکن رہے اور پندرہ سال تک فعال رہے۔ ان کے انتقال سے حکمت کے شعبہ میں یقیناًایک خلا ء پید ا ہوگیا جو پر ہونا مشکل نظر آتا ہے۔
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔۔۔۔موت تو سبھی کو آتی ہے اصل موت و٥ ہے جس پر زمانہ افسوس کرے۔حکیم صاحب کی خدمات ناقابل فراموش تھیں ۔مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے مدرسۃ الاصلاح میں کتنی تعلیم حاصل کی یا اپنے والد ماجد کی نسبت سے اصلاحی لکھا کرتے تھے لیکن ان کی وجہ سے بہر حال مادر علمی کا نام روشن ہوا ۔بہت کم لوگوں کو ان کی حیات میں پذیرائی ملتی ہے یا ان کی علمیت کا اعتراف کیا جاتا ہے اور حکیم صاحب کو وہ پذیرائی ملی اور سہی بات تو یہ ہے کہ انھوں نے خود بھی ایک لائق و فائق باپ کے لائق و فائق بیٹے ہونے کا ثبوت پیش کیا ۔حکومت کی جانب سے بھی بہت سارے اعزازات سے نوازے گئے ۔جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس کے حقیقی مستحق بھی تھے ۔مدرسۃ الاصلاح میں انھوں نے اپنے والد محترم کے نام سے جو عالی شان پالی ٹیکنیک بنوایا تھا وہ ان کے علمی و سائنسی ذوق کا نادر نمونہ ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اصلاح کے منتظمین و ذمہ داران نے اس کی قدر نہیں کی اور ان کا جو مقصد تھا پورا نہیں کیا ۔تاہم اس کے باوجود انھوں نے کبھی شکوہ نہیں کی ۔ممبئی میں آزادی کے بعد اصلاحی شفاخانہ کو جس طرح سے نیست و نابود کیا گیا تھا اور اس کے وجود تک کو مٹانے کی کوشش کی گئی تھی ۔اور بقول شرف الدین اصلاحی کروڑو بلکہ اربوں روپئے کی ملکیت کو تباہ و برباد کر دیا گیا تھا ان تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا رہا تھا کہ اب اس کا اپنے پاوں پر کھڑا ہونا نا ممکن ہے اصلاحی صاحب نہ نہ صرف اس کو قائم کر اپنے والد کے میراث کو زندہ کرنے کی کوشش کی بلکہ اسے وہ معیار اور بلندی عطا کی کہ تادیر اسے یاد رکھا جائے گا ۔انھوں نے یونانی کے ساتھ ساتھ جدید طب پر بھی کام کیا ۔ان کی علمی و ادبی خدمات بھی مسلم ہیں ۔انھوں نے ممبئی میں شراب چھڑوانے کے لئے جو اصلاحی ڈرگ ہاوس کے نام سے مہم چلائی تھی اسے بھی ہر خاص و عام میں پذیرائی ملی تھی ۔ہم اصلاحی صاحب کے انتقال پر اپنی اور پوری اصلاحی برادری کی جانب سے انتہائی رنج و الم کا اظہار کرتے ہیں اور خدا وند قدوس سے دعاگو ہیں کہ اللہ انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے ۔اور متعلقین کو صبر کی توفیق۔
جواب دیںحذف کریںآپ نے کافی اہم معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ بہت شکریہ۔
حذف کریںکبھی فرصت ملے تو مدرسۃ الاصلاح پر کوئی مضمون ضرور قلمبند کییجیے گا۔
مدرسۃ الاصلاح پر ایک مضمون لکھا تھا پچلے سال غالبا ۔۔۔۔آپ میرے بلاگ پر پڑھ سکتے ہیں بھیا ۔۔۔۔یہ رہا لنک
جواب دیںحذف کریںhttp://alamullah.blogspot.in/2012/12/1908-1910-1911-1910-1913-1914-1919.html