گوگل کا تازہ ترین ویڈیو اشتہار - مگر ہند پاک ویزا کا حصول مشکل ترین مرحلہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-11-16

گوگل کا تازہ ترین ویڈیو اشتہار - مگر ہند پاک ویزا کا حصول مشکل ترین مرحلہ

Google Reunion ad
گوگل کے تازہ ترین اشتہار میں دو بزرگوں کو دکھایا گیا ہے جو تقسیم کے بعد پہلی بار مل رہے ہیں اور یہ پوری کہانی چار منٹ سے بھی کم وقت میں مکمل ہو جاتی ہے۔
مگر حقیقت میں یہ اتنا آسان مرحلہ نہیں ہے۔ سرحد کے دونوں طرف رہنے والے لوگوں کے لیے ملک کے نقشہ پر کھنچی لکیریں کسی پہاڑ سے کم نہیں ہیں جسے پار کرنا گویا کوئی سہانا خواب دیکھنے کے مترادف ہے اور اس کے پس پشت ویزا کے سخت ضابطے اور قاعدے ہیں جو دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے شہریوں پر لاد رکھے ہیں۔
کہنے کو تو دونوں ممالک نرم ویزا قانون بنا کر اور بزرگوں کے لیے "پہنچنے پر ویزا" جیسی تجویز پاس کر کے اس سمت میں کئی قدم اٹھا چکے ہیں۔ مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ عام لوگوں کے لیے ویزا کا حصول اب بھی ایک ٹیڑھی کھیر کے برابر ہے۔

مثال کے طور پر 98 سالہ سردار محمد حبیب خان کا معاملہ لیجیے۔ خان پاکستانی حکومت کے ایک سینئر افسر رہ چکے ہیں۔ پاک مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے خان جنگلات کے افسر کی حیثیت سے 1940 کی دہائی میں جموں و کشمیر کے سری نگر اور بارہمولہ علاقے میں کام کر چکے ہیں۔ وہ ان شہروں کے دورہ کے لیے تین مرتبہ درخواست دے چکے ہیں مگر ویزا کے حصول میں کامیاب نہ ہو سکے۔ حسرت بھری نگاہوں سے آسمان کو تکتے ہوئے مسٹر خان کہتے ہیں : "دہرہ دون کی یادیں ذہن میں بسی ہیں کیوں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں میں نے فوریسٹ آفیسر کی شکل میں ٹریننگ حاصل کی تھی۔"
خان کے فرزند کہتے ہیں کہ : "98 سال کی اس عمر میں اب ابو کے لیے سفر کرنا تقریباً ناممکن ہے۔"

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے ۔۔۔۔
اور یہ خواہش محض سرحد کے اس پار کی ہی نہیں بلکہ ایسے بیشمار ہندوستانی ہیں جن کے دلوں میں اب بھی کہیں نہ کہیں یہ حسرت دبی ہوئی ہے کہ کاش ایک موقع ملے اور وہ اس شہر کو دیکھ سکیں جہاں وہ پیدا ہوئے اور جہاں انہوں نے اپنے بچپن کے چند سال گزارے ہیں۔
وشاردا دھول [Visharda Dhawal] ایسے ہی ایک شخص ہیں۔ وہ کہتے ہیں : "مجھے یہ بات ایک المیہ ہی لگتی ہے کہ میں پوری دنیا کا سفر کر سکتا ہوں لیکن تب تک لاہور نہیں جا سکتا جب تک کہ وہاں سے کوئی میرا ضمانت نہ لے"۔
تقسیم کے وقت ہندوستان چلے آئے دھول کے لہجے سے مایوسی اور تلخی جھلکتی ہے : "میں پاکستان میں کسی کو نہیں جانتا لیکن میں وہاں کا سفر کرنا چاہتا ہوں۔"

دہلی کی ایک نوجوان دوشیزہ امرتا سودھی [Amrita Sodhi] کہتی ہیں : "میں نانکانہ صاحب کا دورہ کرنا چاہتی ہوں اور وہ مقامات بھی دیکھنے کی خواہش ہے جہاں میرے خاندان نے تقسیم سے قبل قیام کیا تھا۔ میری تمنا ہے کہ یہ گوگل ایڈ انڈیا پاکستان کے ذمہ دار عہدیداروں کی نظروں سے بھی گزرے اور انہیں احساس ہو کہ یہ جذباتی رشتہ تقسیم کے اتنے سالوں بعد بھی ختم نہیں ہوا ہے۔"

پاکستان کے سابق ہائی کمشنر اشرف قاضی نے آسان ویزا ضابطوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

ہر حساس دل کو اشک بار کر دینے والا گوگل ویڈیو اشتہار ان دنوں سوشل میڈیا پر جذباتی لہر بن کر چھایا ہوا ہے۔

Google's viral 'Reunion' ad reignites hope for easier Indo-Pak visas

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں