اردو یونیورسٹی میں جدیدیت مابعد جدیدیت پر توسیعی لکچر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-11-26

اردو یونیورسٹی میں جدیدیت مابعد جدیدیت پر توسیعی لکچر

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، شعبۂ اردو میں توسیعی لکچر کا انعقاد عمل میں آیا۔شعبۂ اردو، حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے پروفیسر بیگ احساس نے جدیدیت اور مابعد جدیدیت پر تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ جدیدیت ایک جامع اور مبہم اصطلاح ہے۔ یہ ایک تحریک ہے جس کو بیسویں صدی میں فروغ حاصل ہوا۔جب انسان کے بجائے مشینیں کام کرنے لگیں تو ترقی پسند تحریک وجود میں آئی۔اس سلسلے میں انہوں نے قرۃ العین حیدر کے قول کو دوہرایا۔ جب کام کرنے کی طاقت ہوتی ہے تو تجربہ نہیں ہوتا ،اور جب تجربہ ہوتا ہے تو کام کرنے کی قوت نہیں ہوتی۔تقریباً 20 سال کے بعد کوئی نہ کوئی تبدیلی ضرور آتی ہے۔اور یہ بھی کہا کہ کوئی تحریک اور کوئی بھی رجحان ختم نہیں ہوتا، بلکہ کچھ لوگ باقی رہتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلی لاتے رہتے ہیں۔جدیدیت کا غالب رجحان روایت کو توڑنا رہا ہے ۔ اس میں پہلے انہدام کا عمل ہوتا ہے پھر تعمیر کا۔ ترقی پسند تحریک کے رد عمل میں جدیدیت کا رجحان معرض وجود میں آیا ۔اسی لیے جدیدیت میں پچھلی روایت کا تسلسل نہیں ملتا۔انھوں نے کہا کہ جدیدیت کی تحریک میں چھوٹی چھوٹی تحریکیں شامل تھیں۔مثلاً شعور کی رو،نئی تاریخیت،تانیثیت وغیرہ۔اردو میں جدیدیت کی شروعات 1955-60 کے درمیان ہوئی۔جب ترقی پسند تحریک دم توڑ رہی تھی۔شاعروں پر اعتراضات ہونا شروع ہو گئے تھے۔اس دوران آل احمد سرور ؔ نے علی گڑھ میں سمینار منعقد کیا، جس میں شمس الرحمن فاروقی،گوپی چند نارنگ کے علاوہ خلیل الرحمن اعظمی کا بھی بڑا ہاتھ رہا ۔انھوں نے جدیدیت کی شاعری کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعہ سے نئی تنقید وجود میں آئی ۔جدیدیت میں متن اورہیئت پرزور دیا جاتا تھا۔انھوں نے کہا کہ مصنف اہم نہیں ہوتا بلکہ متن اہم ہوتا ہے۔انھوں نے کہا کہ مابعد جدیدیت میں کسی بھی فن پارے کی تنقید میں تہذیب و ثقافت کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔مابعد جدیدیت کے حوالے سے کہا کہ مابعد جدیدیت میں رد تشکیل پر زور دیتی ہے ۔ اس کی کو ئی خاص تاریخ نہیں ہے اس کا کوئی خاص مینوفیسٹو نہیں تھا۔ہر ایک کو لکھنے کی آزادی تھی۔ ہر ایک گروہ اپنی الگ شناخت قائم کرنے لگا۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ جو مرکز میں تھے وہ حاشیے پر آگئے اور جو حاشیے پر تھے وہ مرکز میں آگئے۔انھوں نے کہا کہ مابعد جدیدیت میں مرکزیت کے بجائے تکثیریت ہے۔ادبی اعتبار سے متن خود مختار نہیں ہے،یہ متن کی قرات کو اہم قرار دیتے ہیں۔مابعد جدیدیت میں ذہن انسانی معنی خلق نہیں کرتا بلکہ یہ نظام کی وجہ سے ہے۔آخر میں ڈاکٹر ابوالکلام صدر شعبۂ اردونے ان کا اور حاضرین جلسہ کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر شعبۂ اردو کے اساتذہ ،پروفیسر فیروز احمد ،ڈاکٹر نسیم الدین فریس،ڈاکٹر شمس الہدیٰ ،ڈاکٹر بی بی رضا خاتون،ریسرچ اسکالرس اورشعبہ کے تمام طلباء اور طالبات موجود تھے ۔

حیدرآباد،26؍نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی جانب سے بیدر ،کرناٹک میں منعقدہ تر بیتی پروگرام کے دوران شرکا کو مخاطب کر تے ہوئے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر پی سی جعفر نے کہا کہ اساتذہ کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہو جائے تو نئی نسل کا مستقبل سنور سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ تر بیتی پروگرام کے بعد بھی ہر معلم کو اپنا محاسبہ کر تے رہنا چاہیے کیو نکہ امتحان کے اچھے نتائج کے لئے اچھی تدریس نا گزیر ہے۔اس موقع پر اجول کمار گھوش ،چیف ایگزیکیوٹیو آفیسر ،ضلع پنچایت ،بیدر نے کہا کہ اردو ایک شیریں زبان ہے اور اردو تہذیب لا ثانی ہے۔اساتذہ کے تر بیتی پروگرام کو اچھی پیش قدمی قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اردو یونیورسٹی کی یہ کوشش یقیناًکارگر ثابت ہو گی۔ شاہین ادارہ جات کے سر براہ عبدالقدیر نے کہا کہ بیدر کے اساتذہ میں علم کی کمی نہیں ہے البتہ موثر تدریس کے لئے ان کو تر غیب دینے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر اردو میڈیم اساتذہ کو اس بات کا احساس دلانا ہو گا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کر کے بڑا کار نامہ انجام دے سکتے ہیں۔ اس موقع پر مصبا ح الانظر، اسسٹنٹ پروفیسر ،مانُو نے بتا یا کہ اساتذہ کی پیشہ ورانہ تر قی کے لئے تر بیتی پروگرام منعقد کئے جا تے ہیں تاکہ انہیں تعلیمی مسائل پر غور و فکر کر نے کے لئے آمادہ کیا جا سکے اور تدریس کو موثر بنا نے کا گر سکھا یا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اردو یونیورسٹی کا مرکز پیشہ ورانہ فروغ برائے اساتذۂ اردو ذریعۂ تعلیم نہ صرف معلمین کو اپنا محاسبہ کر نے کے لئے راغب کر تا ہے بلکہ انہیں تدریسی مسئلوں کا حل نکالنے کے لائق بھی بنا تا ہے۔قبل ازیں پروفیسر دوست محمد خان ،اورنگ آباد اور عبد المعز ،رکن اسٹیٹ ریسورس گروپ ،آندھرا پردیش نے بحیثیت ماہرین اساتذہ کو مخاطب کیا۔

(ڈاکٹر محمد فریاد)

Extension lecture in MANUU

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں