دنیانے حق اورباطل کے بے شمارمعرکے دیکھے ہیں،اگردیکھاجائے تواس روئے زمین پرحق وباطل کے درمیان ہونے والی سب سے پہلی لڑائی ہابیل اورقابیل کے درمیان ہوئی اوراس لڑائی میں باطل کوہی فتح نصیب ہوئی تھی،یہ سلسلہ ہابیل وقابیل سے شروع ہواتو آج تک جاری ہے،اسلام سے قبل بھی اس طرح کے مقابلوں کاسامنا تقریباہرنبی اور مصلح کواپنی قوم کے یزیدوں سے کرناپڑا،کبھی غالب رہے اورکبھی مغلوب،اورفتح وشکست کایہ ماجراتاریخ نے اپنے صفحات میں سمیٹ لیا،مثالیں بہت ہیں،تاریخ میں اس طرح کی شخصیات ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہیں،حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دورکانمرودہویاپھرحضرت موسیٰ کلیم اللہ کے وقت کافرعون،جس نے بھی سرابھارابحکم خداوندی اس کی سرکوبی کی گئی اوراسے اس کی قرارواقعی سزاملی۔ ابتدائے اسلام میں جتنی بھی جنگیں ہوئیں،جتنی بھی شہادتیں ہوئیں،وہ اسلام اورباطل طاقتوں کے درمیان ہوئیں جس میں سے اکثرجنگوں میں حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس شریک رہے،بڑے بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہنستے ہنستے اسلام پراپنی جانیں نثارکردیں،اسلام میں سب پہلی شہادت کادرجہ پانے والی خوش نصیب صحابیہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہاہیں، اسلامی تاریخ میں جتنے غزوات ہوئے ہیں سب کامقصد اسلام کی سربلندی اوراللہ کے کلمہ کو غالب کرناتھا،لیکن اسلام کی تاریخ میں ایک ایسادوربھی آیا جب ایک مسلمان اوروہ بھی جگرگوشۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کومسلمان کے ہی ہاتھوں شہیدہوناپڑا،اسلامی تاریخ کے لیے یہ بڑا نازک وقت تھاکہ ایک ایسے شخص کواس کے اہل وعیال کے ساتھ آمادۂ جنگ کیاجارہاتھاجوکہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کالاڈلاتھا،جگرگوشۂ رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکالخت جگرتھا،اولین مسلمان رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے حضرت علی رضی اللہ عنہ کانورنظرتھا،جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے یہ فرمایاکہ ’’یہ دونوں حسن اورحسین رضی اللہ عنہم جنت کے نوجوانوں کے سردارہیں‘‘اس سردارجنت کے خون ناحق سے اپناہاتھ رنگنے کے لیے چندنامرادمیدان کارزارمیں ڈٹے ہوئے تھے،اسلامی تاریخ کے لیے یہ وقت انتہائی نازک اوربڑاہی صبرآزماتھا،بڑاہی تاریک دورتھاکہ ابھی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کودنیاسے روپوش ہوئے زیادہ عرصہ بھی نہیں گذراتھاکہ کچھ لوگ اپنے ذاتی مفاداورتخت وتاج کے لالچ میں اہل بیت کی بے حرمتی کے درپے ہوگئے تھے،حیف صدحیف اورافسوس صدافسوس ایسے بدبخت اوربدنصیب انسانوں پرجوخوداپنے ہاتھوں اپنی عاقبت خراب کرنے پرتلے تھے۔ اوربالآخر۱۰؍محرم الحرام ۶۱ھجری کوکربلاکے میدان کارزارمیں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوشہید کردیا گیا۔
جگرگوشۂ رسو ل کے لخت جگرحضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کاالمناک واقعہ کیوں پیش آیا؟ کیاان کی یہ شہادت اپنے مفادات کے لیے تھی؟کیاانہوں نے اپنے لیے منصب خلافت چاہاتھا؟کیاانہوں نے امام عادل اورخلیفۂ صالح کے خلاف بغاوت کی تھی؟نہیں ہرگزنہیں!تاریخ گواہ ہے کہ نہ تواس جنگ میں ان کے اپنے ذاتی اغراض ومفادات وابستہ تھے،نہ ہی انہیں خلافت وامارت یاحکومت کی لالچ تھی اورنہ ہی انہوں نے کسی امام عادل اورخلیفۂ صالح کے خلاف اعلان بغاوت کی تھی،بلکہ ان کی یہ لڑائی اسلام میں رونما ہونے والی ایک نئی بدعت تھی جس نے اس وقت کے تمام صحابہ اورارباب حل وعقدکوہلاکررکھ دیاتھااوریہ سوچنے پرمجبورکردیاتھاکہ اگریہ نئی رسم رسم نامزدگی چل پڑی توپھر اہل اسلام کے درمیان خلفشارکاپیداہونایقینی ہے جس سے اسلام کوزبردست نقصان کاسامناکرناپڑے گا۔ یعنی خلافت کاجونبوی اورصدیقی نظام رائج تھااس کی سراسرمخالفت کرتے ہوئے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بعداپنے بیٹے یزیدکوحکومت کاجانشیں بنادیاتھاجوکہ اسلامی نظام خلافت کے سراسرمخالف تھا،اسی باطل نظام کواسلام میں رائج ہونے سے بچانے کے لیے انہوں نے ایک پہل شروع کی تھی،یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوئی بغاوت نہیں کی تھی،بلکہ انہوں نے باطل کی مخالفت کرتے ہوئے یزیدکی بیعت سے انکارکرتے ہوئے مکہ چلے گئے تھے،اورایساکرنے میں وہ تنہانہیں تھے بلکہ اس وقت کے اکابرصحابہ حضرت عبداللہ بن زبیر،حضرت عبدالرحمن بن حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہم ودیگرصحابہ بھی تھے،اتناہی نہیں مدینہ میں بھی عامۃ الناس نے یزیدکی بیعت سے انکارکردیاتھاکیوں کہ یزیدکافسق اوربے راہ ہوناسب کومعلوم تھا۔ یہ وہ ظاہری سبب تھاجوبنیادبناحضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا۔ علماء نے اس کی تفصیل میں لکھاہے کہ دراصل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے جواسباب تھے وہ یہ تھے: کتاب وسنت کے قانون کوصحیح طورپررواج دینا۔ اسلام کے نظام عدل کوازسرنوقائم کرنا۔ اسلام میں خلافت نبوت کے بجائے ملوکیت وآمریت کی بدعت کے مقابلہ میں مسلسل جہاد اورحق کے مقابلہ میں باطل کی نمائشوں سے مرعوب نہ ہونا۔ حق کے لیے اپنی جان ومال،اولادسب قربان کردینا۔ خوف وہراس اورمصیبت ومشقت میں نہ گھبرانااورہمہ وقت اللہ کی یاداوراسی پرتوکل وشکرکرنا۔
غورکرنے کامقام ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسہ کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی بے حرمتی ہو،شریعت سے کھیلواڑکیاجائے اورنواسۂ رسول اورجگرگوشۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے؟ایساممکن ہی نہیں تھا،یہی وہ اسباب وعوامل تھے جوحضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کاسبب بنا،اورپھراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی بھی تھی کہ میرایہ بیٹااہل عراق کے ہاتھوں قتل کیاجائے گا،تواس پیشین گوئی کوبھی صادق ہوناتھا،اورپھرجس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے مکہ سے کوفہ کے لیے رخت سفر باندھاہے،اس وقت بڑے بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تشریف لائے اوردرخواست کی کہ کوفہ والے وفاکے پکے نہیں ہیں انہوں نے اس سے پہلے بھی آپ کے والد محترم کے ساتھ غداری کی ہے آپ کوآپ کے نانامحترم صلی اللہ علیہ وسلم کاواسطہ ،آپ ہرگزہرگزوہاں تشریف نہ لے جائیں،اس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کہاتھاکہ نہیں اب توجاناہی ہوگاکیوں کہ میں نے خواب میں نانامحترم کی زیارت کی ہے ،آپ نے اس خواب کے واقعہ کوتوبیان نہیں کیاالبتہ اس خواب کاحوالہ دے کراپنے ارادے کواورپختہ کرلیا،جس سے یہی بات سمجھ آتی ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی یہ شہادت مقدرتھی جسے ہوناہی تھا،لیکن اس شہادت نے قیامت تک کے مسلم قائدین کوجوپیغام دیاہے وہ بڑا واضح ہے،کہ باطل کی مخالفت ہمیشہ ہرجگہ اورہرحال میں کی جائے گی،خواہ اس کے لیے اپنی جان ہی کیوں نہ گنوانی پڑے،حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہمیں درس دیتی ہے کہ حسینی سرکٹاسکتاہے لیکن باطل قوتوں کے آگے اپناسرنہیں جھکاسکتا۔ آج ہرانسان کواپنے ماحول میں کسی نہ کسی یزیدی طاقت کاسامناہے،بالخصوص ہروہ شخص جومسلم امہ کی قیادت کاحق دارہے اس کے سامنے بھی یزیدی عنصرکاغلبہ ہے،اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اسوۂ حسینی رضی اللہ عنہ کوسامنے رکھتے ہوئے یزیدی طاقتوں کی علی الاعلان مخالفت کرے،اورحق کی حفاظت کے لیے اگراسے اپنی جان بھی دینے کی نوبت آئے تو اس سے پیچھے نہ ہٹے،بلکہ تختۂ دارپربھی زبان کو حق کے اعلان سے بازنہ رکھے۔ غوروفکرکامقام ہے کہ یہ مہینہ اوریہ دن ہرسال ہماری زندگی میںآتاہے،ہرسال ہم شہادت حسین رضی اللہ عنہ کی یادتازہ کرتے ہیں لیکن کبھی ہم نے اس پرغورکرنے کی کوشش کی کہ آخریہ المناک واقعہ کیوں پیش آیا؟ہمیں اس واقعہ کے پس منظرکوذہن میں رکھتے ہوئے ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندراسوۂ حسینی پیداکریں،بالخصوص مسلم قائدین وزعمائے ملت کواس واقعہ کے پس منظرکوسامنے رکھتے ہوئے اپنامحاسبہ کرناچاہیے کہ آیاوہ واقعتااسوۂ حسینی پرعمل پیرا ہیں یا نہیں؟یاپھرکہیں نہ کہیں اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے باطل کے خلاف آواز بلند نہیں کرپاتے ہیں جیساکہ اس وقت ہندوستان کے موجودہ صورت حال میں ہمیں دیکھنے کومل رہاہے۔
اللہ سے دعاء ہے کہ ہمارے قائدین کواسوۂ حسینی پرعمل پیراہوکرملت اسلامیہ ہندیہ کی قیادت کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
***
gsqasmi99[@]gmail.com
موبائل : 00966532883253
چیف ایڈیٹر : بصیرت آن لائن ڈاٹ کام ، ریاض ، سعودی عرب
gsqasmi99[@]gmail.com
موبائل : 00966532883253
چیف ایڈیٹر : بصیرت آن لائن ڈاٹ کام ، ریاض ، سعودی عرب
غفران ساجد |
Clear message in Uswa-e-Hussaini for community leaders. Article: Ghufran Sajid Qasmi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں