"واذکرو ایام اللہ"
( اللہ کے انعام کے دنوں کو یاد رکھو)
اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا
" وذکر ھم بایام اللہ"
( انہیں اللہ کے دن یاد دلادو)۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا اشارہ ان ایام کی طرف ہے جن میں دنیا کے بڑے واقعار رونما ہوئے ہیں۔ یو تو اللہ کے ہا ں ہر دن اور ہر رات کی اہمیت اور فضیلت ہے۔ مگر بعض ایام ایسے ہیں۔جو اپنی نمایاں خصوصیات کی وجہہ سے دوسرے ایام پر فوقیت رکھتے ہیں۔ یوم عاشورہ یعنی دس محرم کا دن بھی ان ہی مخصوص ایام میں سے ایک ہے۔ جن کی فضیلت کا ذکر کتب احادیث اور کتب تاریخ میں اہتمام کے ساتھ ملتا ہے۔اسلام میں چار مہینے حرمت والے قرار دئے گئے ہیں۔ ذوالقعدہ۔ ذوالحجہ۔ محرم ۔ رجب۔ عرب کے لوگ زمانہ جاہلیت میں بھی ان مہینوں کا احترام کرتے تھے اور آپسی جنگ و جدال سے پر ہیز کرتے تھے۔
اسلام کی آمد کے بعد بھی اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ ان مہینوں کی حرمت کا احترام کیا جائے ۔ خاص طور سے محرم الحرام کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ کہ اس ماہ کی دسویں تاریخ جسے "عاشورہ "کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔دنیا کی تاریخ میں اس دن ہونے والے کئی واقعات کے سبب یاد کیا جاتا ہے۔
روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اس دن حضرت آدم اور حوا علیہ السلام پیدا ہوئے۔اسی دن ان کی توبہ کو شرف قبولیت بخشا گیا۔ اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اُٹھائے گئے۔ اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان نوح کے بعد سلامتی کے ساتھ جودی پہاڑ پر رُکی۔ اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مرتبہ خلعت سے سرفراز کیاگیا۔ حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے اسی دن صحیح سلامت باہر نکلے۔ عرش و کرسی،لوح و قلم،آسمان و زمین،چاند ،سورج ،ستارے اور جنت اسی دن بنائے گئے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو اسی دن ان کے مرض سے شفا ملی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اسی دن جن و انس پر حکومت عطا ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے ظم و جبر سے نجات ملی۔ اور فرعون اسی دن اپنے لشکر سمیت دریا میں غرق ہوا۔ اسی دن آسمان سے زمین پر پہلی بار بارش ہوئی۔
پیغمبر آخر الزماں رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفی ﷺ کا عقد مسعود حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے ساتھ اسی دن انجام پایا۔اور بعد کے زمانے میں یوم عاشورہ کو اسلامی تاریخ میں اس لئے بھی اہمیت حاصل ہو گئی کہ اس دن نواسہ رسول ﷺ حضرت امام حسین ؓ کی شہادت عظمیٰ کاو اقعہ بھی پیش آیا جبکہ بروز جمعہ بتاریخ10اکتوبر 16ہجری 56سال5ماہ اور 5دن کی عمر میں حق کی سر بلندی کے لئے کربلا کے میدان میں امام حسین ؓ یزیدی افواج کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ اور ہر سال یوم عاشورہ کے موقع پر جب امام حسین ؓ کی شہاد ت کی یاد منائی جاتی ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ
قتل حسین ؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اس طرح اسلامی تاریخ میں یوم عاشورہ کے دن ہونے والے واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ دن اللہ کے نزدیک بڑی عظمت والا ہے اور کہا جاتا ہے کہ روز قیامت عاشور ہ کا دن اور جمعہ ہوگا۔ اس دن کو شہادت حسین ؓ سے نسبت ہونے کی وجہہ سے یہ دن اہم ہے لیکن اس کے ساتھ ہمیں ارشادات نبوی ﷺ کی روشنی میں بھی عاشورے کی اہمیت سمجھنا ہے اور اس دن کی مناسبت سے تاکید کئے گئے اعمال کرنے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ کے ارشا د کا مفہوم ہے کہ جو شخص عاشورے کے دن کا روزہ رکھے تو اسے چالیس سال کا کفارہ ہوگا۔ اور جس نے عاشورے کی شب عبادت کی تو گویا اس نے ساتوں آسمانوں والوں کے برابر عباد ت کی۔
بیہقی کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص عاشورہ کے دن اپنے گھر والوں پر کھانے پینے کی کشادگی کر ے گا تو سال بھر برابر کشادگی میں رہے گا
(بیہقی شریف)
حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کا ارشاد ہے کہ " جو شخص شب عاشورہ میں رات یعنی 9محرم کے بعد آنے والی رات بھر عبادت کرے اور صبح کو روزہ رکھے تو اس کو اس طرح موت آئے گی کہ اس کو مرنے کا احساس بھی نہ ہوگا۔"
مسلم شریف میں ابو قتادہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا" مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ عاشورہ کا ایک روزہ ایک سال قبل کے گناہ مٹا دیتا ہے۔" .
مسئلہ:
عاشورہ کے ایک روزہ کے ساتھ دوسرا رکھنے کی تاکید ہے یعنی محرم میں نو دس یا دس گیارہ دو دن روزہ رکھنا چاہئے۔ حدیث شریف کے مفہوم میں یہ بات ملتی ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عاشورہ کا روزہ رکھو اور یہودیو ں کی مخالفت کرو (یوں کہ) ایک دن پہلو روزہ رکھو اور ایک دن بعد(مرقات)
ام المومنین حضرت حفصہ ؓ سے مروی ہے کہ چار عمل ایسے ہیں جن کو حضور ﷺ نے کبھی نہیں چھوڑا۔ عاشورہ کا روزہ۔عشرہ ذی الحجہ کا روزہ۔ ہر ماہ کے تین روزے اور فجر سے پہلے دو رکعت سنت موکدہ۔ رمضان المبارک سے پہلے عاشورہ کے روزے فرض تھے لیکن رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں کو یہ چھوٹ دے دی کہ جو چاہے عاشورہ کے روزے رکھے یا نہ رکھے۔
یوم عاشورہ کو ان اعمال کی تاکید آئی ہے:
روزہ رکھنا۔ صدقہ کرنا۔ نوافل پڑھنا۔علماء اور اولیا ء کی زیارت کرنا۔ یتیموں کے سر پر ہاتھ پھیرنا۔ اپنے گھر والوں پر کھانے کی وسعت اور فراخی کرنا۔ سرمہ لگانہ۔ غسل کرنا۔ ناخن تراشنا ۔مریضوں کی عیادت کرنا۔ اس دن اپنے گھر والوں پر کھانے میں فراخی والی جو بات بیا ن کی گئی ہے اس کے بارے میں حضرت سفیان بن عینہ ؓ فرماتے ہیں کہ:
ہم نے پچاس سال اس کاتجربہ کیا اور ہر سال فراخی پائی۔
اسی طرح دیگر اعمال عاشورہ کے فضائل اور نتائج بھی اللہ والوں نے بیان کئے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ یوم عاشور ہ اور اس طرح ملنے والے مواقع کی قدر کریں اور اپنے نیک اعمال کے ذخیرے میں اضافہ کریں۔
ہندوستان کے دیہاتوں اور خاص طور سے قدیم دکن کے علاقوں میں محرم اور پیرلا پنڈو کے نام پر جو کچھ ہور ہا ہے اس کے بارے میں علمائے کرام سے مشہورے کی ضرو رت ہے۔ اور رسم و رواج کو دین سمجھ کر کرنا اور اس پر زور دینا غفلت کی بات ہے۔
***
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
صدر شعبہ اردو گرراج گورنمنٹ کالج نظام آباد
موبائل : 00919247191548
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
صدر شعبہ اردو گرراج گورنمنٹ کالج نظام آباد
موبائل : 00919247191548
ڈاکٹر اسلم فاروقی |
Virtue and importance of Ashura Day. Article by: Dr.Aslam Farooqi (Nizamabad)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں