23/نومبر حیدرآباد یو۔این۔آئی
ملک میں1970ء کے دوران لگ بھگ47ہزارملین یونٹس برقی کی پیداوارعمل میں آئی تھی،جبکہ اسی قوفہ کے دوران آندھراپردیش میں2.246ملین یونٹس برقی استعمال کی گئی۔ملک گیرسطح پر42ہزار ملین یونٹس برقی اورآندھراپردیش میں1981ملین یونٹس برقی سے استفادہ کیاگیا۔یہاں چھٹویں انڈیاپاورایوارڈس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ریاستی چیف منسٹراین کرن کمارریڈی نے بتایاکہ ریاست اورملک دونوں میں1970ء کے دوران اضافی برقی کی پیداوارہوئی،تاہم آج صورت حال اس کے برعکس ہوگئی ہے۔انہوں نے بتایاکہ اس وقت ملک میں سالانہ9لاکھ ملین یونٹس سے زائدبرقی پیداکی جاتی ہے،اگرچہ کہ سالانہ اس کی مانگ10لاکھ ملین سے زائدہے۔انہوں نے بتایاکہ گزشتہ40سالوں کے دوران بھی ہماری ریاست اورملک دونوں کوبرقی پیدوار میں کمی کا سامنارہاہے۔انہوں نے بتایاکہ اس کی متعددوجوہات ہوسکتی ہیں،شخص طورپروہ سمجھتے ہیں کہ ہماری منصوبہ بندی اورپالیسی سازی معیارکے مطابق نہیں رہی ہے۔ہمارے پاس تقریبا3لاکھ ملین ٹن کوئلہ کے ذخائرژوالوجیکل سروے آف انڈیاکے تخمینہ کے مطابق موجودہیں،لیکن بدبختی کی بات ہے کہ ہم نے مناسب منصوبہ بندی بھی نہیں کی ہے اوردرست ٹکنالوجی میں سرمایہ کاری نہ کرتے ہوئے موثراستعمال کے لیے کوئلہ کے ان ذخائرسے بھی استفارنہیں کیاہے۔انہوں نے بتایاکہ ہم بمشکل ہی2013,2012ء کے دوران کوکنگ کوئلہ اورغیرکوکنگ کوئلہ پیداکرتے رہے ہیں۔انہوں نے بتایاکہ نئی کانوں سے پیداوارکے لیے اوسطا15تا20سال لگتے ہیں جس سے اس معاملہ پرتوجہ اوراس کے ارتکازکے فقدان کااظہارہوتاہے۔انہوں نے بتایاکہ گیس کے معاملہ میں بھی ہماری پالیسیاں غلط ہیں۔ریڈی نے بتایاکہ ہم گیس سے چلنے والے کوئلہ کے پلانٹس میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اوران پلانٹس میں بڑے پیمانے پرسرمایہ کاری کے بعد بالآخر ہم یہ کہتے ہوئے اپنی پالیسیوں کومنسوخ کردیتے ہیں کہ گیس سے پیداہونے والی برقی قومی ترجیح نہیں ہے۔انہوں بتایاکہ ہماری ریاست میں تقریبا7000میگاواٹ تنصیبی صلاحیت موجود ہے اورآج بمشکل اس کا1/10حصہ استعمال ہورہاہے۔انہوں نے بتایاکہ برقی منصوبہ بندی اورپیداوار کی حالت بھی بہتر نہیں ہے۔انہوں نے بتایاکہ ماحولیاتی مجبوریوں،بازآباد کاری مسائل اورمختلف ریاستوں کے درمیان ناقابل قابوآبی تنازعات اورمتعددباصلاحیت برقی پیداواری پراجکٹس جن میں برقی توانائی استعمال ہوتی ہے،وہ اس حقیقت کے باوجودٹھپ ہوکررہ گئے ہیں کہ برقی کی پیداوارارزاں ترین ہوتی ہے اورتوانائی پیداکرنے کاانتہائی ماحولیات دوست طریقہ کاربھی ہے۔مرکزی حکومت نے آبی تنازعات کی یکسوئی پر ضروری توجہ نہیں کی ہے اورنہ اس سلسلہ میں مناسب سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ریاستوں کی اپنی تحدیدات موجودہیں اوروہ ان ،مسائل کی یکسوئی نہیں کرسکتے ہیں۔چیف منسٹر نے بتایاکہ،سولار(شمسی) اوربائیو ماس کی صورت میں بھی ہماری پالیسیوں میں کوتاہی موجود ہے اور سرمایہ کاروں کوان کی سرمایہ کاریوں میں حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ہے۔وہ جہاں کہیں سرمایہ کاری کرتے ہیں تب پالیسی مسائل اورتخلیہ جاتی انفراسڑکچر سے ہم وپیش اس بات کو یقینی بنایاجاتاہے کہ انہیں بہت زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوسکے۔ریڈی نے بتایاکہ ان میں سے چندمسائل پرضرورت ہے کہ ریگولیٹرس توجہ دیں اورعملی پالیسیاں وضع کریں تاکہ ماحولیات دوست ان ٹکنالوجیز کے ذریعہ کفایت شعاری کے ساتھ برقی پیداکی جاسکے۔1970میں ملک میں فی کس برقی کی کھپت97.9یونٹس تھی،جبکہ ریاست میں اس کاتناسب49.6یونٹس تھا۔ریاست آندھراپردیش میں2011 ء اور2012ء کے دوران اس کاتناسب1050یونٹس تک بڑھ گیاہے اورملک میں فی کس کھپت879یونٹس تھی۔انہوں نے بتایاکہ گزشتہ40سالوں کے دوران برقی توانائی لاگت میں بھی تیزی سے اضافہ ہواہے۔1970ء میں فی یونٹ لاگت25.7پیسے تھی،جبکہ سال گزشتہ آندھراپردیش میں اس کی فی یونٹ لاگت4.11روپئے تھی۔انہوں نے بتایاکہ اس کا سبب ایند ھن کی قیمت میں اضافہ،ضرورت سے متفرق اخراجات اورترسیلی وتقسیمی نقصانات بھی ہیں۔Chief Minister criticises Central government's power policy
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں