کس قدر قطرۂ تیزاب چاہیے ؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-11-07

کس قدر قطرۂ تیزاب چاہیے ؟

movies-music-culture
آج صبح صبح شیفتہ کا برقی پیام آیا کہ ۔۔۔۔۔۔" شام چمن میں یاد سے ملیے گا"۔۔۔۔۔۔ ابھی ہم اخبار سے دو چار ہوہی رہے تھے کے شیفتہ کا یہ پیام آفت جاں! کچھ راحت بھی ہو ئی کہ چلیے، دیوالی کی چھٹی ہے اور زندگی کو زیر و زبر کرتی، بکی ہوئی اور بکی ہوئی ٹی وی کی خبروں سے بہتر ہے شیفتہ کی خبریں- اخبار کی خبروں کا کم از کم ایک فائدہ ضرور ہے کہ ادب سے لگاؤ قائم رہتا ہے- گرچہ یہ خبریں بھی خون رلاتی ہیں- ان میں کوئی انہونی بات تو ہوتی نہیں، بلکہ اب تو کوئی بات نہیں ہوتی- ایک عادت سی ہو گئی ہے تیرے اعتبار کی۔۔۔۔۔ کے مصداق لوگ اب پڑھ رہے ہیں- اردو اخبارات کا حال بھی کہاں کچھ اچھا ہے ۔۔۔ جس صفحہ پر دین و ادب کو جگہہ دی جاتی ہے اسی کی پشت پرایسی برہنہ تصویروں کو سوار کردیا جاتا ہے کہ ورق پلٹتے ہی ابکا ئی آنے لگے - لیکن کیا کیا جائے۔۔۔۔ اخبارات بند ہی نہ ہوجائیں جو صفحات کو مکمل طور سے "آزاد" نہ رکھیں – اور ٹی وی ذرائع ابلاغ کی مثال تو دودھ دینے والی بھینس کی طرح ہوگئی ہے، جس کا ٧٥ فیصد حصہ بڑے صنعتکار اور تاجر گھرانوں میں جاتاہے، کیوں نہ ہو، ونہیں سے بھینس کا چارا بھی تو آتا ہے ، ١٠ فیصد خود بھینس پی لیتی ہے اور ١٥ فیصد حکومت کے حصہ میں، اور اس طرح "ماتا جمہوریت" کا یہ چوتھا شرانگیز شیر خوار صحت مند و توانا رہتا ہے- بلکہ اپنے حقوق کا خوب استعمال کرنا جانتا ہے - کچھ کچھ سچا ئیوں اور زیادہ تر جھوٹ اور سنسنی پر مبنی تاجرانہ ذہنیت کا حامل یہ شریر شیر خوار جمہوریت کو کھوکلا کرنے کا موجب بن گیا ہے، ٹی وی صحافت میں بہت کم تعداد ہے جو اپنے پیشہ سے دیانت دارہیں - یعنی اب تو جس کی یہ بھینس ہوگی اسی کی لاٹھی ہوگی - جب ٹی وی صحافت کا یہ عالم ہوگا تو عوام جس کی محنت سے یہ کارخانہ حیات چل رہا ہے، اس کے حصہ میں بھینس کے فضلے کے سوا اور کیا آئے گا- شریف الطبع انسان تو نظریں پھیرلے گا اور جو نا آسودہ تمناؤں کا شکارہوگا، اسے اپنی بھوک سے ہی پیار ہوگا -

اہل فکرو قلم کا کیا ہے، ہردن کی ابتدا یہی گنگناتے ہوتی ہے کہ -

سوچ کا اک ننھا سا پرندہ، اڑنے کو پر تول رہا ہے
طاقت پرواز ہے کتنی، من ہی من ٹٹول رہا ہے

لفظوں کا چارہ ہے تھوڑا، سوچ کی ہے بھوک بڑی
ابھی سلجھا دوں یہ گتھی، قلم ہمارا بول رہا ہے

نظریں ہیں اخبار پہ لیکن، کان لگے دروازے پر
ہونی ہے کچھ انہونی، ٹی وی میں کوئی بول رہا ہے

اور روز کو ئی نہ کو ئی انہونی بات ٹی وی بولتا رہتا ہے، خاصکر بر صغیر کے اکثر و بیشتر چینلز، جن کا ریموٹ مغرب کے ہاتھ میں ہے، یہی سوچتے ہیں کہ "بادشا وقت ہے، اپنا دیوانہ آج"- مغرب میں جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ تو ہونی ہی ہوتی ہے۔۔۔دکھنے اور دکھانے کا یہی فرق ہے – اب مالک حقیقی کیا کچھ دکھانے والا ہے اس کاپتہ نہیں ہے انہیں ، اور نہ ہی ان کے نا بینا مقلدوں کو۔۔۔۔۔ لوگ نہیں جانتے بقول مرزا کہ ۔۔۔

۔۔اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیوں تیوں شام ہوئی اور فراغت ہو ئی ، جو اکثر چھٹی کے دن مشکل سے ہوتی ہے، اور ہم شیفتہ کے پاس چمن میں جا پہنچے- شیفتہ، بقراط اور بر صغیری سب مع اہل و عیال موجود تھے - شیفتہ نے ہمیں دیکھتے ہی بر صغیری کی تازہ کارستانیوں کا پلندہ کھول دیا- فرمایا۔۔اماں، دیوالی کی چھٹی تھی، ہم بر صغیری کے گھر مدعو تھے- ہم بیگم کو لئے ان کے گھر پہنچ گئے- بیگم کو دیکھتے ہی وہ کہنے لگے ۔۔۔۔ اوئی الله ۔۔۔۔ بیگم شیفتہ کتنا نیا موبایل خریدا ہے آپ نے ۔۔۔۔۔ اس میں صرف مائیکروفون ہے اور کچھ نہیں۔۔۔۔ لیجیے اب آپ غور فرمائیے کہ اگر کوئی لچکیلا من چلا بھیڑ کے چھتے میں ہات ڈال بیٹھے تو پھر کیا ہوگا - دراصل وہ مو بائیل نہیں تھا بلکہ گھر سے نکلنے سے پہلے بیگم نے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی، پٹاخوں کا موسم ٹہرا، اور ضعیفوں کے لئے وقت ماتم- آپ کی اطلاع کے لئے عرض کردیں کہ اب تو پٹاخے بھی چین سے بنکر آتے ہیں- چین میں اتنی غیرت تو ہے کہ کبھی فاین آرٹ کے نام پر پٹاخائیں بر آمد نہیں کرتا ہے - ہم نے کہا بجا فرمایا، دشمن جب بے انتہا طاقت ور ہوجاتا ہے تو پھر یہ دنیا خوشیاں بھی اسی سے خریدتی ہے اور دکھ درد بھی- فرمایا۔۔۔۔ بیگم نے بر صغیری سے آخر میں کہا ۔۔۔ ارے صغیرو۔۔۔۔۔تجھے کس نے کاٹ کھایا ہے جو ہر وقت اوئی کرتا رہتا ہے۔۔۔اب تیری عمر ہو رہی ہے۔۔۔ اب تو تیری شخصیت میں کچھ وقار نکھا ر آنا چاہیے۔۔۔حضور ، اب آپ ہی بر صغیری کی طبع ناتواں پر کچھ روشنی ڈالیے-

ہم نے کہا وہ تو آپ ڈال چکے ہیں- لیکن ۔۔۔ سنا ہے مغرب کے اکثر شہروں میں اور خاصکر اكثر امریکي شہروں میں ایک ایسی بستی ہے جہاں قدامت پسند جرمن نسل جو "آمش" کہلاتی ہے آج بھی قدرتی ذرائع و وسائل پر زندگی گزارتی ہے اور تہذیب جدیدہ سے دور بھاگتی ہے- لیکن بنیادی ضروریات زندگی میں کئی اشیا ہیں جو وہ چین کی بنی ہوئی استعمال کرتی ہے - ویسے بھی اب امریکہ میں سوائے خطرناک ترین اسلحہ اور جنگی آلات کے تمام صنعتیں رفتہ رفتہ ختم ہو رہی ہیں- یہ کبھی چین کی طرح ضروریات زندگی کے سامان سے لے کر سامان مسرت، سامان چارہ گری و عیش و عشرت اور سامان ایذا و مرگ و جاں گسل سب کچھ بناتا اور بیچتا تھا، اور جو مشرقی ممالک کی، خاصکر چین کی اقتصادی پالیسیوں پر نکتہ چیں ہوا کرتا تھا ، اب خود اپنے ہی پیدا کردہ سیلاب میں بہنے لگا ہے- دیکھیے کس کے گھر جائیگا یہ سیلاب بلا اس کے بعد، مادیت کی طغیا نی سے سرشار اور روحانیت سے مبرا ترقی کا یہ سیلاب یورپ سے نکلا تھا، پھر امریکہ اور جاپان ہوتا ہوا اب چین پہنچا ہے - فرمایا، جناب امریکہ کی موجودہ حالت زار پر سعید راہی کا قطعہ ثابت آتا ہے کہ – کٹی رات ساری میری میکدہ میں۔۔۔۔خدا یاد آیا سویرے سویرے۔۔۔۔۔جو کہتا تھا کل شب سنبھلنا سنبھلنا۔۔۔۔وہی لڑکھڑایا سویرے سویرے ۔۔۔ ہم نے کہا بجا فرمایا۔۔۔ جب مغرب خواب خرگوش میں سو سال تک سوتا رہا تب مشرق بعید کچھوے کی چال چل گیا- فرمایا ۔۔۔۔۔ حضور، لیکن اہل عرب اور اہل بر صغیر نہ جانے کس خواب میں مبتلا ہیں کہ نیند ہی نہیں کھلتی ۔۔۔۔ اب کوئی ان سے کیا کہے ۔۔۔ بقول میر ۔۔۔وہی سمجھا نہ، ورنہ ہم نے تو۔۔۔۔۔داغ چھا تی کے سب دکھائے تھے ۔۔۔۔۔۔

ابھی شیفتہ کی میربیانی جاری تھی کہ اچانک چمن میں کچھ باجوں تاشوں کی آوازیں آنے لگی ۔۔۔۔۔ شیفتہ آواز کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے – اور ہم سب ان کے تعا قب میں - قریب جانے پر شیفتہ کو سنا، فرما رہے تھے - جناب ۔۔۔۔۔ ایں چہ شور است کہ در دور قمر می بینم۔۔۔۔ہما آفاق پر از فتنہ و شر می بینم۔۔۔۔۔۔۔ آپ کا طائفه سردار کہاں ہے؟- ایک صاحب جو طبلہ بانہوں میں سمیٹے کھڑے تھے انہوں نے دوسرے صاحب کو جواب دینے کا اشارہ کیا جو سارنگی سر پر اٹھا رکھے ہوئے تھے، وہ ہونقوں کی طرح تکنے لگے – اس سے پہلے کہ سارنگی نواز کچھ اور سمجھتے، ہم نے تصفیہ کیا کہ شیفتہ کی مراد تمھارے "مائیسٹرو" سے ہے - یہ سنتے ہی ایک منحنی سی شخصیت کے مالک ، مغربی رنگ برنگی پوشش دریدہ میں ظاہر ہوئے - انہیں آگے آتا دیکھ کر طبلچی کچھ یوں چوڑے ہوئے کہ بانہوں سے طبلچہ چھوٹ کر نیچے آرہا - سارنگی بھی اسکی تقلید میں نیچے آ گئی – ان دونوں کی دیکھا دیکھی ایک اور شخص کچھ اس طرح سے آگے آیا کہ ہمیں یقین ہوگیا یہ ضرور تالی پیٹنے میں ماہر ہوگا- شیفتہ نے پہلے تو اخلاقا انہیں آداب و سلام کیا اور پھر ان کا حال پوچھا اور ابھی وہ اپنا مدعا پیش کرنا ہی چاہتے تھے کہ "مائیسٹرو" نے انگلیاں لہرا کر کہا۔۔۔۔ ہم یہاں ریاض کرنے آئے ہیں رقص کرنے نہیں۔۔۔۔ ہمارا جمہوری حق ہے یہ - آپکو اس سے کیا تکلیف ہے ؟ ہم نے سوچا یہ کمبخت بغیر رقص کے ہی رقصاں ہے، پتہ نہیں رقص کرے گا تو کیا ہوگا، شیفتہ اب بھی پورے تحمل سے انہیں سن رہے تھے - پھر گو یا ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔ جناب آپ ضرور ریاض کریں مگر کہیں اور، اس چمن میں جو فطری نغمگی ہے اس میں مخل نہ ہوں۔۔۔۔۔۔بلکہ آپ بھی اسے سنیں اور محسوس کریں۔۔۔۔ بلبل و مینا کی حمد و ثنا، کلیوں کا چٹخنا، پھولوں کا لہلہانا، بچوں کا کھلکھلانا، پودوں کا انداز نیازمندانہ، ٹہنیوں کا انداز عابدانہ اور درختوں کا انداز ساجدانہ– ان سب سے آپ نغمگی سیکھیے۔۔۔ یہ سنتے ہی وہ سب یہ جا اور وہ جا ۔۔۔۔۔

ہم نے شیفتہ سے پوچھا حضور وہ فارسی مصرع اور آپ کا سازندوں کو نظر انداز کر سردار سے بات کرنا کچھ سمجھ میں نہیں آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرمایا، فارسی مصرع تو امیر خسرو کا ہے، طبلہ کی تھاپ کے پس پشت جو حکمت عملی اورنیک مقصد تھا اس میں تو کامیابی مل گئی تھی، اور ہزاروں بلکہ شا ید لاکھوں قشقہ پونچھ کرحرم کے ہو رہے تھے - لیکن حضور۔۔۔۔ چونکہ طریقہ کار نیا تھا اور سنت پر مبنی نہیں تھا اس لئے بدعت کے چور دروازے کھل گئے، اورپھر وہی کامیابی تہذیب جدیدہ کے رنگ میں رنگ کر برہنگی اور آوارگی کا شکار ہوتی چلی گئی- انہیں کیا پتہ تھا کہ ان کا مذکورہ مصرع جس کے معنی کچھ یوں ہیں کہ ۔۔۔۔۔یہ کیسا شور ہے ، میں زمانہ بھر میں دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔ساری دنیا کو فتنہ میں تر بتر دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔ سینکڑوں سال تک سچ ثابت ہوتا رہے گا – اور حضور۔۔۔۔ سازندوں اور تالی پیٹنے والوں کا کیا ہے۔۔۔۔۔ طائفہ کبھی بھی بدل دیں، بلکہ ضرورت پڑنے پر ساز بھی – لیکن سارا کھیل تو طائفہ سردار کا ہے، اگر اسکی انگلیا ں تسبیح کرنے لگے تو سازندے بھی کرنے لگتے ہیں –

ابھی یہ گفتگو جار ی تھی کہ بر صغیری جو اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ موجود تھے بول پڑے - حضور فنون لطیفہ کا ایک پروگرام ہے اور آپ سب ناچ دیکھنے چلیے ہمارے ساتھ - یہ سنتے ہی بیگم شیفتہ بول پڑی۔۔۔ اے ہے نا مراد۔۔۔۔۔ہماری بہو بیگم لطیفہ کب سے ناچ گانے لگی – سب ان کی طرف متوجہ ہوگئے - شیفتہ نے معذرت کرتے ہویے بیگم بر صغیری کی طرف دیکھا اور پھر اپنی بیگم کے کان میں سے رو ئی نکالی اور قریب جا کر فرمایا ۔۔۔ بیگم یہ فنون لطیفہ کا ذکر کر رہے ہیں - بیگم برصغیری جن کا نام لطیفہ ہوگا وہ بھی بول پڑیں ۔۔۔۔ اماں جان ہماری توبہ ۔۔۔۔ہم شرفا کے خاندان سے ہیں اور ناچنا کجا اسے دیکھنا آج بھی ہمارے یہاں غیر مہذبانہ بلکہ مجرمانہ فعل مانا جاتا ہے- بیگم شیفتہ نے پوچھا ۔۔۔ اے ہے۔۔۔ پھر یہ نگوڑی عادت صغیرو میں کہاں سے آگئی- کہا۔۔۔ یہ ولایت گئے تھے، اکثر جاگیر داروں اور نوابوں کی اولاد تو ویسے بھی ناچ گانوں کی شوقین رہی، بلکہ ایسے اعمال کو شان و شوکت میں شمار کیا جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور پھر انہیں اعمال کی وجہ سے ان کی نسلیں اپنے زوال کو پہنچی اور برباد ہو گئی - ان میں سے اکثر تو آج تانگہ چلاتے ہیں - ہمارا گھرانہ دین و ادب سے ہمیشہ منسلک رہا، اس لئے ہمارے خاوند سے ایسی عادتیں چھڑا دی گئی- ویسے بھی ہماری تہذیب میں اسے کبھی کھلے عام انجام دینے کی جرات کسی نے نہیں کی – کم از کم وضعداری کا پاس رکھا جاتا تھا ، اور بروں کے ساتھ برتاؤ میں وہ وارفتگیاں نہیں رکھی جاتی تھی کہ برا ئی میں مبتلا لوگ ماں بہنوں یا زوجہ کی ہمت افزائی کے پہلووں سے لگے رہتے ۔۔۔ انہیں اکثر دھتکار بھی دیا جاتا تھا - لیکن کیا کریں، مغربی تہذیب نے ہر ایک برا ئی کو اچھا ئی میں کچھ یوں تبدیل کردیا کہ اب کو ئی بلا نوش نہیں رہا۔۔۔۔ سارے شرابی بے حد مہذب ہو گئے، بے حد نفاست اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر شراب پی جاتی ہے، مجال ہے جو قدم ڈگمگا جائیں، اب گلی کے کتے شرابیوں کے پیچھے بھونکنے نہیں نکلتے، اب طوائفوں کے کوٹھوں پر جانا بھی ختم کردیا گیا ہے ، تمام برائیوں کو خوش نما غلاف میں لپیٹ کر نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا جاتا ہے، ایسا اسلوب کہ جس سے ادب میں بھی چار چاند لگ جائیں- برائیاں اسقدر خوشنما کہ ایک باپ آرام سے اپنی اور غیروں کی بیٹیوں کو برہنہ مقابلہ حسن میں، فلموں میں، ٹی وی میں اور ڈراموں میں دیکھ کر داد دینے سے نہیں شرماتا- فنون لطیفہ نے لطیف احساسات اور جذبات کو اور حساس رشتوں کو بھی بے حیا اور برہنہ کر دیا ہے - ۔۔۔۔۔۔ بر صغیری کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا، شاید کچھ غیرت و حمیت ابھی باقی تھی، ضمیر مکمل طور سے مرا نہیں تھا ۔۔۔۔ فورا کہا، بیگم اب ہم سے تو آپ اسقدر برائی کی توقع نہ رکھیے گا ۔۔۔۔۔بیگم نے پوچھا ۔۔۔۔چلیے بتا دیجیے کسقدر رکھیں۔۔۔۔۔ کسقدر قطرہ تیزاب ڈالا جائے دودھ میں۔۔۔۔۔ بتائیے نا ، جو دودھ کو خراب نہ کرسکے، اور جسے آپ خود بھی پی سکیں اور اپنے بچوں کو بھی پلا سکیں ؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔

***
Zubair H Shaikh
zubair.ezeesoft[@]gmail.com

The Acid culture of music and movies

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں