سوشل میڈیا اور غیر مصدقہ اطلاعات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-10-18

سوشل میڈیا اور غیر مصدقہ اطلاعات

social media
"مشہور مزاحیہ فلمی اداکار مسٹر بین مسلمان ہو گئے "
سوشل میڈیا پر گردش ہونے والی اس خبر نے چونکا دیا۔ خبرکے ساتھ ہی مبارک سلامت کے پیغامات کے ساتھ خوشی کا اظہار کیا جا رہاتھا لیکن ساتھ ہی اکا دکا سنجیدہ احباب نے اسے معتبر قرار نہ دیا اور تصدیق کرنے پر واقعی یہ خبر درست نہ نکلی۔
سوشل میڈیاپر اس نوعیت کی دیگر خبروں اور معلومات پر ذہن اس طرف چلا گیا۔ یہ درست ہے کہ سوشل میڈیا کی بدولت لوگوں میں باہمی رابطے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ اور اہم معاملات پر آگاہی رہتی ہے مگر ساتھ ہی بغیر تصدیق کے اہم اور حساس موضوعات پر معلومات شیئر کرنا نہ صرف دوسروں کو غلط معلومات بہم پہنچانے کا ذریعہ ہوتا ہے بلکہ یہ جگ ہنسائی کا باعت بھی بنتا ہے۔
مسٹربین کے اسلام قبول کرنے کی غلط خبر کو بغیر تصدیق کئے پھیلا کر اسلام کی خدمت کی بجائے توہین کی جاری ہے۔ اسی نوعیت کی اکثر خبریں گردش میں ہوتی ہیں جو ذمہ دار ذرائع سے نہیں آتیں ۔
کبھی یہ خبر کہ چاند پر جانے والے امریکی نیل آرم اسٹرانگ نے قاہرہ میں اذان کی آواز سن کر کہا کہ یہ آواز میں نے چاند پر بھی سنی تھی۔جس کے بعد انہوں نے تردید میں کہا کہ وہ کھبی قاہرہ گئے ہی نہیں اور رہا چاند کا معاملہ وہاں تو خلاہے آواز کیسے سنائی دے گی؟

کبھی یہ خبر فلاں کھلاڑی مسلمان ہو گیا ہے۔ فلاں مشہور شخصیت نے اسلام قبول کرلیا ۔ فلاں شاتم رسول اور اسلام دشمن جل کر مر گیا ہے۔ ایسی باتیں پھیلانے والے سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں حالانکہ صور تحال اس کے برعکس ہے۔
کبھی یہ اطلاع آئے گی کہ خانہ کعبہ پر روشنی کا ہالہ موجود تھا۔ فلاں مسجد کا مینار خود بخود زمین سے کھڑا ہو کر اپنی جگہ چلا گیا وغیرہ۔ ایسی اطلاعات کی بھی تصدیق نہیں ہو سکی۔

ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی پوری زندگی میں اس نوعیت کے واقعات کو اپنی سچائی کا ثبوت پیش کرنے کے بجائے قرآن کو پیش کیا اور کہا اس پر غور کرو۔ اگر دل ودماغ گواہی دیں تو اسلام قبول کرلو مگر مافوق الفطرت یا اتفاقی حادثات کو انہوں نے تبلیغ دین کا ذریعہ نہیں بنایا۔

کچھ اسی نوعیت کی اور معلومات بھی گردش میں ہوتی ہیں کہ فلاں وقت یا دن یہ وظیفہ کرو تو فلاں مقصد پورا ہوگا یا خوشخبری ملے گی۔ یہ ذکر کرو تو یہ حاصل ہوگا۔ پوری زندگی کے گناہ ختم ہو جائیں اور ساتھ ہی تاکید ہوتی ہے کہ اسے Like بھی کریں اور شیئر ضرور کریں ۔ اور اگر نہ کریں گے تو نقصان ہوگا۔ جیسا کسی دور میں ہوتا تھا کہ فوٹو اسٹیٹ کروا کے تقسیم کریں۔

ایک ایسا دین جس کی بار بار تعلیم ہے کہ غور کرو۔ فکر کرو ۔ تدبر کرو۔ سوچو اور عمل کرو لیکن ایسے ذکر و اذکار کی طرف اس دین کے حاملین کی توجہ مبذول کرائی جاتی ہے جو قرآن و سنت سے بھی ثابت نہیں اور نہ ہی ضروری ہیں ، بلکہ وہ مسلمانوں کی بے عملی کا باعث بن رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے دنیا میں مسلمان پستی کا شکار ہیں۔ جبکہ دیگر غیر مسلم اقوام علم و حکمت سے ترقی کی راہ پر گامزن ہیں مگر ہم ایسے ذکر میں مبتلا ہیں جسے ابلیس کی زبانی علامہ اقبال نے یو ں کہا ہے :
مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو نظام خانقاہی میں اسے

ثواب کمانے کے ساتھ ساتھ بیماریوں کے علاج کیلئے بھی وظائف ، آیات اور اذکار پیش کئے جاتے ہیں جو اسلام کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہوتے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جو ایسی چیزیں پیش کر رہے ہیں وہ خود جب بیمار ہوتے ہیں تو باقاعدہ میڈیکل علاج کراتے ہیں۔

سب سے زیادہ احتیاط رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور احادیث کو پیش کرتے ہوئے مد نظر ہونی چاہئے۔ جب بھی کسی حدیث کا حوالہ دینا ہو تو حدیث پوری تحریر کرنی چاہئے۔ کس شخص نے روایت کی ہے اور اس روایت میں کون کون سے لوگ شریک ہیں اور پھر حدیث کی قسم بھی بیان کر دینی چاہئے کہ کیا یہ حدیث صحیح ہے۔ حدیث قدسی ہے، مرفوع، موقوف یا کس قسم کی ہے؟ ضعیف احادیث یا موضوع روایات پیش نہ کی جائیں۔
محدثین کرام کی رائے میں ایسی احادیث جن میں کسی قوم یا خاندان کی برائی ، مختلف پیشوں کی برائی، جو شان نبوت، اسوہ حسنہ ، قرآن کی تعلیمات کے منافی، تاریخی حقائق اور عام مشاہدہ کے منافی ہوں انہیں پیش نہ کیا جائے۔
مزید یہ کہ جو حکمت و اخلاق ، قواعد طب، آئندہ پیش آنے والی پیشین گوئیاں جو مہینہ اور سال کے ساتھ واضح ہوں، اگر حدیث تو اتر کے خلاف ہوں، اجماع قطعی کے خلاف ہوں اور خلاف عقل ہو، انہیں بھی دوسروں سے شیئر نہ کریں۔

مختصر مشورہ یہی کہ جو معلومات بھی آگے پھیلائیں وہ مصدقہ ہوں اور آپ کے پاس اس کا حوالہ ہونا چاہئے اور اگر دوسروں کی جانب سے پیشکشی ہو تو آپ خود بھی اس کا حوالہ طلب کیا کریں۔

Social media and disinformation sharing. Article: Arif Mahmood Kasana

2 تبصرے:

  1. جوابات
    1. مضمون گذشتہ اتوار کے روزنامہ منصف حیدرآباد میں شائع ہوا تھا۔ کمپوز کرکے یہاں لگانے کے بعد سرچ کرنے پر علم ہوا کہ یہ تو کچھ دن پہلے ہی روزنامہ جنگ کے یونیکوڈ ایڈیشن میں شائع ہو چکا ہے۔

      حذف کریں