سری ادب اور ابن صفی - مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں دو روزہ سمینار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-10-30

سری ادب اور ابن صفی - مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں دو روزہ سمینار

manuu ibne safi seminar
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اردو زبان و تہذیب کے شہر حیدرآباد میں 1998ء میں قائم کی گئی۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں اردو ذریعے تعلیم سے روایتی اور فنی کورسز میں تعلیم کے مواقع ختم کردینے کے بعد اردو میں حصول تعلیم کی یونیورسٹی کو شدت سے محسوس کیا گیا تھا۔ چنانچہ اردو یونیورسٹی کے قیام کا مقصد اردو زبان کا فروغ ،اردو زبان میں روایتی، فنی اور فاصلاتی تعلیم فراہم کرنا اور تعلیم نسواں پر خصوصی توجہ دینا قرار پایا۔ اس یونیورسٹی کا ایک فعال شعبہ مرکز برائے اردو زبان،ادب وثقافت ہے جس کے ڈائرکٹر پروفیسر خالد سعید ہیں۔اس شعبے کا مقصد اردو زبان و ادب کی جمالیاتی و تہذیبی اقدار کا تحفظ کرنا اور تاریخی شعورو آگہی کی نشوونما کرنا ہے۔اس شعبے کی سرگرمیوں میں اردو زبان اور اس کی تہذیب سے متعلق سمینار ،سمپوزیم، ورک شاپ،،توسیعی لیکچر وادبی سرگرمیوں کا انعقاد ،تصویری گیلری کا اہتمام،کتب خانہ چلانا اور کتابوں کی اشاعت عمل میں لانا شامل ہیں۔شعبے کی سرگرمی کے حصے کے طور پر شعبے کی جانب سے مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں 23اور24اکٹوبر 2013ء کو ایک عظیم الشان سمیناربعنوان "سرّی ادب اور ابن صفی" کا کامیاب انعقاد عمل میں لایاگیا۔ اس سمینار کی دو ماہ قبل سے تشہیرجاری تھی اور ملک اور بیرون ملک ابن صفی کے چاہنے والوں اور ان کے فن کے ماہرین کو مدعوکیا گیا تھا۔
آج سے دو تین دہائی قبل اردو کے بیشتر قاری ابن صفی کے ناولوں کو بڑے ذوق سے پڑھتے تھے۔ اور کئی لوگ ابن صفی کے ناول پڑھتے پڑھتے اردو داں بن گئے تھے۔ ان ناولوں کی چاشنی اور دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ پرانی کتابوں کی دکانوں پر یہ ناول یومیہ کرایہ پر دئے جاتے تھے اور لوگ ہر ماہ ابن صفی کے نئے ناول کا انتظار کرتے تھے۔ اردو کے کئی ڈائجسٹ تھے جو ہر ماہ پابندی سے ابن صفی کے ناول شائع کیا کرتے تھے۔ اور ابن صفی کی تحریر کے ساتھ ان کے تخلیق کردہ لافانی کردار کرنل فریدی ،سارجنٹ حمید اور عمران وغیرہ لوگوں کے دلوں میں رچ بس گئے تھے۔ لیکن امتداد زمانہ، ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کی ترقی فلموں اور سیرئیلوں کا فروغ اور وقت کی کمی اور اردو سے عمومی دوری نے آج یہ عالم کردیا کہ ہماری نئی نسل ابن صفی کے نام اور ان کے کارناموں سے واقف نہیں ہے۔ اسی طرح ادبی حلقوں میں بھی اکثر یہ موضوع زیر بحث رہا کہ جاسوسی ادب جسے سری ادب کہا جاتا ہے ہمارے اردو ادب کا حصہ ہے یا نہیں۔ ابن صفی کی بازیافت ،ان کے مقام کا تعین اور سری ادب کی ادبی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے اردو یونیورسٹی میں اس سمینار کا اہتمام کیا گیا۔ اور ابن صفی کے شریک کار پروفیسر مجاور حسین رضوی کو بطور مہمان سمینار میں مدعو کیا گیا۔
23اکٹوبر بروز چہارشنبہ 10.30بجے صبح مولانا آزاد یونیورسٹی حیدرآباد کے آڈیٹوریم نظامت فاصلاتی تعلیم میں سمینارکا افتتاحی اجلاس کا آغازبلال احمد ڈار کی تلاوت قران و ترجمانی سے ہوا۔پرگرام کی نظامت پروفیسر محمودصدیقی نے انجام دی اور مہمانوں کے استقبال کیلئے جامعہ کے طلبہ کو گلدستہ پیش کرنے کی دعوت دی ۔اس کے بعد انہوں نے استقبالیہ کلمات کیلئے پروفیسر ایس ایم ۔رحمت اللہ رجسٹرار نے اپنے تعارفی خطاب میں کہا کہ کسی بھی زبان کی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سائنسی تعلیم اس میں فراہم نہ ہو۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآبادمیں اردو زبان میں سائنسی تعلیم کے حصول کا موقع تھا ۔اور اب آزادی کی نصف صدی گذر جانے کے بعد مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی شکل میں یہ سہولت پھر شروع ہوئی ہے۔ اور یونیورسٹی کے بڑھتے شعبے اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ یونیورسٹی روایتی اور فنی تعلیم اردو میں دینے کی اہل ہے۔ پر وفیسرمحمد میاں وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے عثمانیہ یونیورسٹی سے متعلق جوبات" تھی" اسے" ہے "میں تبدیل کرتے ہوئے ٹکنیکل کورسس کی تعلیم کو اردو زبان میں شروع کیاہے۔ ابن صفی پر یہ سمینار خوش آئیند بات ہے۔سرّی ادب کے ذریعہ ابن صفی نے لوگوں کی دلچسپی کو اردو زبان و ادب سے جوڑدیا اور ان میں ادبی ذوق پیدا کیاجس کی وجہہ سے انکے ناولوں کو آج بھی بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔اردو ادب کے فروغ میں ابن صفی کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔رجسٹرار صاحب کی تقریر کے بعد پروفیسر نسیم الدین فریس صدر شعبہ اردو نے مہمانوں کاانفرادی طور پر تفصیلی تعارف پیش کیا۔ اور کہا کہ ابن صفی کی ناولوں نے ہر فرد کو متاثر کیا ہے ہمارے شیخ الجامعہ ریاضی کے ماہر ہیں لیکن وہ بھی ابن صفی کے چاہنے والوں میں شامل ہیں۔ سمینار کے روح رواں پروفیسر خالد سعید نے کہاکہ سمینار انعقاد کے مقصدکے طور پر" ابن صفٖی کے ادبی مرتبے کے تعین "کی کوشش کی جائیگی فن داستان گوئی کے تناظرمیں جاسوسی ادب بھی خصوصاًابن صفی کے ناولوں کی شعریا ت مرتب کی جاسکتی ہیں۔سمینار کے انعقاد کیلئے شیخ الجامعہ نے منظوری دی اور اپنے تاثرات کو بھی بیان کیا۔اس سے قبل بھی ابن صفی پر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور دہلی اردو اکیڈمی کی جانب سے پاپولر ادب پر سمینارمنعقد ہوچکے ہیں۔ارود بک ریویو،اردو اکیڈمی آندھرا پردیش نے بھی ابن صفی کے فکر وفن پر خصوصی گوشے شائع کئے ہیں.اس سمینار کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان سے راشد اشراف صاحب اور اٹلانٹا سے امین صدر الدین بھیانی صاحب کا response ای میل کے ذریعہ موصول ہوا۔راشد اشراف ایک ویب سائٹ ابن صفی سے متعلق چلا رہے ہیں۔ہم نے اس سمینار کے ذریعہ ریسرچ اسکالرس ،ادب دوست اوراساتذہ کو ایسا پلیٹ فار م فراہم کیا ہے جس کے ذریعہ انہیں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع ملے۔جملہ 73مقالے موصول ہوئے جن میں سے اردو کے 52 اور انگریزی کے 5 مقالوں کو منتخب کیا گیا۔
اس موقع پر سمینار کے سونیر کا رسم اجراء پروفیسر ایس۔اے۔ شکور ڈائرکٹر اردو اکیڈمی آندھراپردیش کے ہاتھوں انجام دیا گیا۔ساتھ ہی تصنیف "خواتین کی تحریریں، خواتین سے متعلق تحریریں"جو کہ گزشتہ سمینار کے مقالوں پر مشتمل کتاب ہے کا رسم اجراء پروفیسر مجاور حسین(ابن سعید) کے ہاتھوں انجام دیا گیا۔
پروفیسر ایس۔اے۔شکور ڈائرکٹر اردو اکیڈمی آندھراپردیش نے اپنے خطاب میں کہا کہ ریاستی جامعات میں سمینار کاعدم انعقاد مالی مشکلات کی اہم وجہہ ہے لیکن مرکزی جامعات میں سمینار کے انعقاد کیلئے فنڈس کی کمی نہیں ہوتی جسکی وجہہ سے وقفہ وقفہ سے مختلف موضوعات پر سمینار منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ابن صفی کی فکر وفن پر قومی سمینار کا انعقاد بہت ہی اچھا اقدام ہے جس کی میں ستائش کرتا ہوں اور ابن صفی کے موضوع پر منعقد ہونے والے سمینار کیلئے اردو اکیڈمی آندھراپردیش کی جانب سے تعاون کیا جائیگا۔دور حاضر سائنٹفک دورہے یہ دنیا اب گلوبل ویلیج میں تبدیل ہوچکی ہے لوگوں کے پاس ادب کو پڑھنے کیلئے وقت نہیں ہے جسکی وجہہ سے افسانہ کو اب مختصرافسانہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے تدریس کے شعبہ میں بھی اب کم وقت میں زیادہ معلومات فراہم کی جارہی ہیں۔ابن صفی نے تقریباً 300ناول لکھے لیکن پھر بھی ادب میں انکو مستحقہ مقام نہیں دیا گیا۔ابن صفی اپنے وقت سے بہت آگے کی سونچتے تھے انکے ناولوں میں فولادی آدمی کا ذکر ملتا ہے جسے ہم آج روبوٹ کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ان کی ادبی خدمات کے سلسلے میں ایک بین الاقوامی سمینار کے انعقاد کی شدیدضرورت ہے تاکہ انھیں انکا مستحق مقام مل پائے۔
سمینار کاکلیدی خطبہ پروفیسر احمداللہ خان سابق ڈین شعبہ قانون عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد نے پیش کیا اور اپنی گفتگو سے جاسوسی ادب ۔یہ ادب ہے یا غیر ادب اس کو ادب میں شامل کیا جائے یا نہیں جیسے مسائل اٹھائے۔اور کہا کہ ادب کی تعریف یہ ہے کہ" ادب کسی خیال کا بہترین اظہار ہے جو کہ ضبط تحریر میں لایا جائے۔ مختلف دور میں اسکی تعریف میں مختلف تبدیلیاں کی گئیں انہوں نے ادب کی تاریخ پر تفصیلی روشنی ڈالی اور ادب کو اصلاح معاشرہ کیلئے ضروری قرار دیا ۔ساتھ ہی انہوں نے ناول نگاری کا آغاز اور اس کے ارتقاء کوبیان کیا جاسوسی ادب کی ابتداء کی وجوہات کو بھی پیش کیا جو کہ فرانسیسی اور امریکی صنعتی انقلاب کی وجہہ سے رونما ہوا تھا۔جاسوسی ادب کے عناصر تجسس،تذبذب اور کہانی کا اطمینان بخش اختتام ہے انہوں نے مزیدکہا کہ ابن صفی کے ناولوں میںیہ عناصر اچھی طرح پائے جاتے ہیں ۔
پروفیسر مجاور حسین رضوی (ابن سعید )سابق صدرشعبہ اردوحیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی و رفیق خاص(ابن صفی) نے اپنے خطاب میں اپنے شخصی تجربات بیان کئے اور انکے ساتھ گزرے لمحات کی یادیں تازہ کیں ۔ڈسمبر1951ء کے ایک واقعہ کو بیان کیاجو کہ دلیپ کمار کی فلم" ندیا کے اس پار" کی فلم بینی سے متعلق تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ رسالہ نکہت میں اسرار احمد (ابن صفی)مدیر اعزازی کی حییثت سے کام کرتے تھے ۔انہوں نے مجاور حسین رضوی(ابن سعید) کے کہنے پر ایک انگریزی جاسوسی ناول کا ترجمہ" دلیر مجرم" کے نام سے صرف ایک ہفتہ میں انجام دیا۔جو انکا پہلا ناول تھا۔انہوں بتایا کہ اگسٹ 1947ء تا اگسٹ 1952یعنی 5سال تک دونوں کا گہرا تعلق رہا روزانہ 15تا 16 گھنٹے وہ ایک ساتھ گزارتے تھے۔انکے نام سے ابن صفی کے 150خطوط محفوظ ہیں جو شائع ہونے والے ہیں۔ابن صفی کو انہوں نے ایک اچھا اور مترنم شاعرقرار دیا۔وہ معین احسن جذبی کے کلام کو پسند فرماتے تھے۔ابن صفی اکثر ان سے کہتے رہتے " کشمکش حیات میں کبھی دل شکستہ نہ ہونا" ابن صفی نے ایک مشن و مقدس فریضے کے طور پر مقبول عام ادب لکھا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ ابن سعید اور ابن صفی اردوزبان سے متعلق جو خواب دیکھا کرتے تھے انکی تعبیر آج پروفیسر محمد میاں مولا ناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے تحت اردو کے فروغ کاکام انجام دئے رہے ہیں۔یہ تربیت گاہ ہمارے سکون کا باعث ہے۔ وائس چانسلر اردو یونیورسٹی پروفیسر محمد میاں نے اپنے صدارتی خطاب میں ابن صفی کے ناولوں کے مطالعہ کو دراصل ذہنی ورزش کا اچھا ذریعہ قراردیا اور کہا کہ بچپن سے ہی ہم ابن صفی کے ناولوں کا دلچسپی کے ساتھ مطالعہ کرتے تھے ۔ابن صفی کے ناول عام افراد میں اردو کے فروغ کا ذریعہ تھے انہوں نے کہا کہ ہم اگر اردو کے فروغ کیلئے متحدہ کوشش جاری رکھیں تو کوئی بھی ہماری زبان کو ختم نہیں کرسکتا اس کے لیئے ہمیں عام افراد کے اندر اردو سے دلچسپی پیدا کرنی ہو گی ۔ انہوں نے اردو کے الفاظ اور جملوں پر غور و فکر کی دعوت دی۔اس تقریب میں پروفیسر خواجہ شاہد نائب شیخ الجامعہ بھی شریک تھے۔ ڈاکٹر ارشاد احمد کے شکریہ پر افتتاحی سیشن کا اختتام عمل میں آیا۔
افتتاحی سیشن کے بعد شرکاء سمینار ومہمانان خصوصی کیلئے چائے بسکٹ سے ضیافت کی گئی اس کے بعد یونیورسٹی کے گیسٹ ہاوس میں دوپہر کے لنچ کا انتظام کیاگیا ۔ جس میں روایتی حیدرآبادی بریانی اور میٹھے سے تواضع کی گئی دوپہر کے طعام کے بعد سمینار کے پہلے سیشن کا آغاز عمل میں آیاجس میں اس سیشن کو سمپوزیاکا نام دیا گیا اور سب سے پہلے مقالہ نگار کے طور پر ڈاکٹر رضوان الحق نے" مقبول عام ادب کی شعریات "کے عنوان پر اپنا مقالہ پیش کیا اس مقالہ کی خصوصیت یہ رہی کہ انہوں نے مقبول عام ادب اور ادب عالیہ کے درمیان فرق کو واضح کیااور کہا کہ مقبول عام ادب اعلی ادب دونوں کی موجودگی لازمی ہے کو ئی زبان اپنی تہذیب اور ہمہ جہت رنگا رنگی کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہے ورنہ زبان کا دائرہ سکڑ جائے گا"۔
دوسرے مقالہ نگار کے طور پر پروفیسر یو سف سرمست نے "ابن صفی کا اردو ناول نگاری میں مقام" کے عنوان سے اپنا مقالہ پڑھا۔ ان کے مقالہ سے تجربات کی جھلک محسوس ہو رہی تھی انہوں نے کہاکہ"اردو میں مقبول عام ناول نگاروں کا جو سلسلہ ملتا ہے اس کی سب سے روشن اور درخشاں کڑی ابن صفی تھے" ابن صفی کے مرتبے کے متعلق انہوں نے کہا کہ"کسی مصنف کی مقبولیت ادب میں اس کے مقام کو بلند ترین درجہ عطا نہیں کرسکتی اسی لیے ابن صفی کا مقام بھی باوجود ان کی بے حد مقبولیت کے سنجیدہ ناول نگاروں کے مقابلے میں کم تر رہیگا۔"۔ یہ اردو ناول کے ایک اہم نقاد کا ابن صفی کے ادبی مقام کے بارے میں واضح اشارہ ہے جس پر ادبی دنیا کے رجحانات واضح ہیں کہ ابن صفی کی مقبولیت کے باجود سنجیدہ ادب کے نقاد انہیں ادب میں ان کا مستحقہ مقام دینے سے پس و پیش کرتے رہے ہیں۔
اس سیشن کے تیسرے مقالہ نگار پروفیسر حبیب نثار شعبہ اردو HCU تھے جنہوں نے " ابن صفی کے ناولوں کا بین المتون مطالعہ" کے عنوان پر اپنامقالہ POWER POINTکی مدد سے پیش کیا۔انہوں نے ابن صفی کے حالات زندگی کو پیش کیا۔ بین المتون مطالعہ سے متعلق کہا کہ" ابن صفی کے ناولوں کے متن کا مطالعہ طلسم ہوش ربا کے کرداروں کے مطالعہ کی جانب متوجہ کرتا ہے جو عیاری وساحری سے ہوتا ہوا داستان کے اسلوب (ظرافت)اور زبان کے نفیس استعمال کے ذریعہ تخلیق کے فلسفیانہ نقطہ نظر کی یکسانیت تک رہنمائی کرتا ہے"۔ انہوں نے ابن صفی کی تحریروں کا دیگر تحریروں سے تقابلی مطالعہ پیش کیا۔
اجلاس کے بعد موضوع سے متعلق مباحث ہوئے جس میں حصہ لیتے ہوئے پروفیسربیگ احساس نے ایک سوال کے جواب میں اپنی بات پیش کی اور کہا کہ"اعلی ادب میں پابندیاں نہیں ہوتیں مقبول عام ادب میں پبلشر کی جانب سے حدود متعین ہوتے ہیں پاپولر ادب میں حقیقت سے زیادہ التباسات پر زور دیا جاتا ہے تاکہ قاری کی دلچسپی ٹوٹنے نہ پائے جاسوسی ادب بیرونی تقاضوں کے تحت لکھا جاتا ہے ابن صفی کے ناولوں کواونچا مرتبہ دیا جا سکتا ہے۔"
دوسرے ڈبیٹر کے طور پرپروفیسر خالد قادری نے سوالوں کے جواب دیتے ہو کہا" ماضی کے ادب سے جدید ادب لاتعلق نہیں رہے سکتا۔پاپولر ادب ایک بڑے طبقہ کو ذہن میں رکھ کر لکھا جاتا ہے ابن صفی پاپولر ادب کا سرتاج بادشاہ تھے"۔
تیسرے ڈبیٹر معصوم مرادآبادی نے کہا کہ"جسطرح سے مشہور مزاح نگار مشتاق یوسفی کو آج تک ادب میں کوئی مقام نہیں دیا گیا اسی طرح ابن صفی کو بھی اونچا مرتبہ نہیں دیا گیا جبکہ سنجیدہ ادب پڑھنے والے بہت کم افراد ہوتے ہیں اور پاپولر ادب کو پڑھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہیں انہوں نے اخبار کے ذریعہ اس کی مثال پیش کی۔پروفیسر خالد سعید نے موڈریٹر کو طور پر مختلف سوالات کو اٹھایا ڈبیٹر حضرات نے سوالات کے جوابات پیش کیے۔اس سمپوزیا کے بعد مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے طلباء نے ابن صفی پر ایک تمثیلی ڈرامہ "دلیرآدمی" کے عنوان پر پیش کیا۔
اس سیشن کے بعد چائے کا وقفہ دیا گیا ۔ وقفہ کے بعد پہلے دن کے آخری سیشن کا آغازشام5.45 کوہوا۔اس سیشن میںآمنہ سحر نے اپنا مقالہ " ابن صفی کے ناول اور صنف نازک کے اسرا رورموز عنوان پر پڑھا۔اور کہا کہ" ابن صفی کا کوئی بھی ناول عورت سے مبرا نہیں ہیں ا ن کے ہر ناول میں عورت شروع سے آخر تک موجود ہے ۔ابن صفی نے اپنے ناولوں میں عورت کا ہر روپ پیش کیا ۔اس سیشن میں معصوم مراد آبادی نے" ابن صفی کا ادبی مقام و مرتبہ" کے عنوان پر اپنامقالہ پیش کیااور کہا کہ اردو ناول نگاری میں ابن صفی کا مرتبہ اور مقام بہت اعلی ہے وہ مقبول عام ادب کے روح رواں ہیں ۔ اس سیشن میں تیسرا مقالہ ڈاکٹر سید شجاعت علی نے "ابن صفی کے منتخب نسوانی زندہ جاوید کردار"کے عنوان پرپڑھا "انہوں نے کہاکہ نقادوں کا خیال ہے کہ جاسوسی ناول لطف سے عاری ہوتے ہیں اس لیے ادب کے دائرہ سے خارج ہیں انہوں نے ابن صفی کے ناولوں کے لازوال نسوانی کردار کو اجاگر کیا۔ چوتھا مقالہ ڈاکٹر مسرت فردوس نے"اردو کے سرّی ادیبوں میں ابن صفی کا مقام و مرتبہ" پر اپنا مقالہ پڑھااور کہا کہ اکرم الہ آبادی، عباس حسین اور دیگر اہم ناول نگاروں میں ابن صفی کا نام بھی بہت زیادہ ابھرا"۔
24 اکٹوبر بروز جمعرت صبح 10.30 آڈیٹوریم سنٹرل لائبریری مولاناآزادنیشنل اردو یونیورسٹی میں سمینار کے دوسرے دن کی کاروائی کا آغاز عمل میں آیا۔ ڈاکٹر ارشاد احمد نے نظامت کی ذمہ داری سنبھالی اور پہلے مقالہ نگار کے طور پر پروفیسر سید سجاد حسین( میسور) کو دعوت دی انہوں نے اپنامقالہ "ابن صفی اردو کے عہد آفرین ناول نگار" کے موضوع پر سنایا اور کہا کہ "ابن صفی اردو دنیا کا وہ قد آوار فنکار ہے جس نے اردو اد ب کو فحش گوئی غیر اخلاقی عناصر سے پاک کرنے کا بیڑا ٹھایا اور ادب میں ایسی صنف کی بنیاد ڈالی"۔محمد سراج احمدانصاری ریسرچ اسکالر HCU نے دوسرے مقالہ نگار کے طور پر "ابن صفی عوام وخواص کی نظر میں ایک جائزہ" کے عنوان پر مقالہ پڑھا اور کہا" ابن صفی پر گفتگو کرنے سے قبل ہمیں اپنا ذہن ایک معصوم بچے کی طرح صاف کرلینا چاہیے کیوں کہ جب تک ہم صاف دل و دماغ میں کسی کی تائید یا مخالفت پیوست رہیگی ہم انصاف نہیں کرسکتے۔ سیلمان خان نے اپنامقالہ "ابن صفی کا ادبی مقام انکی کثیرالجہت فنکارانہ شخصیت کی روشنی میں"کے عنوان پر پاور پوائنٹ کے ذریعہ مقالہ پڑھا اور کہا کہ"افسوس کہ اردو کا عظیم محسن ،جس نے بلامبالغہ لاکھوں لوگوں کو اردو پڑھنے کا عادی بنایا ہزاروں کو صحیح اور بامحاورہ اردو بولناسکھایا آج ا س کے ادبی مقام کے تعین پر بحثیں ہوتی ہیں " ایک اور مقالہ نگار ابو متین نے"ابن صفی اور سرّی ادب "پر اپنا مقالہ پڑھا ۔اور کہا کہ"ابن صفی کے ناولوں میں اقوام عالم کے حالات اور عصر حاضر کی معلومات سائنس اور ٹکنالوجی کی بہت سی معلومات ملتی ہیں"
مظہر محمود نے ان مقالوں پر تبصرہ کرتے ہو ئے کہا کہ ابن صفی نے اپنے اوپر کی جانے والی تنقیدوں کا خود جواب اپنی تحریروں میں دیا ہے اور ان کے پیش رس میں اس کا اظہار ہوتا ہے۔ اس اجلاس کی صدا ر ت پروفیسر شبنم حمیدنے انجام دی اور کہاکہ اس دو روزہ سمینار میں یہ بات کی جارہی ہے کہ وہ ادبی تھے یا نہیں انکا لکھاادب اعلی ہے یا بازاری جب کہ انکے لکھے ادب کو ہم سرّی ادب کہے رہے ہیں کیا انکا یہ ادبی مقام ہے کہ نہیں"۔
پہلے اجلاس کے بعد چائے کا وقفہ دیا گیا ا س کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز عمل میں آیا ۔آمنہ تحسین نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔سب سے پہلے مقالہ نگار کے طور پر ڈاکٹر رؤوف خوشتر نے اپنا مضمون" ابن صفی کا ایک زندہ جاوید کردار عمران"پر مقالہ پڑھا اور کہا کہ "اس جدت پسند قلمکار کے اسلوب شگفتہ تحریر طنز ومزاح کے تیر ونشتر بہتریں کردار نگاری نے اردو سرّی ادب میں یقیناً بیش بہا اور گراں قدر اضافہ کیا ہے انہوں نے عمران کے 4 روپ بھی بیان کیے ہیں"۔ دوسرے مقالہ نگار مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے روح رواں ڈاکٹر شجاعت علی راشد نے "ابن صفی کے زندہ جاوید کردار" پرمقالہ پیش کیا اور کہا کہ ابن صفی نے اپنے ناولوں میں دو طرح کے کردار وں کے سہارے قاری کو متوجہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے انہوں نے مثبت کرداروں کو ترجیح دی۔تیسرے مقالہ نگار ڈاکٹر عزیز احمد عرسی نے "ابن صفی کی تحریروں میں طنز ومزاح"کے عنوان پر مقالہ پڑھا۔ان کامقالہ بہت جاندار اور منفرد رہا جسکی تعریف خود ابن سعید صاحب نے کی۔"ابن صفی اپنے ناولوں کے ذریعہ تھکے ہوئے ذہنوں کو صحت مند تفریح مہیا کرتے ہیں ان کی جاسوسی ناولوں میں ہمیں ظرافت کی جھلکیاں اور مزاح کی شوخیاں جابجا دکھائی دیتی ہیں۔"ایک اور مقالہ نگار عرفان عاکف خان نے’ابن صفی کے زندہ جاوید کردار" پر مقالہ پیش کیا۔انسانی اور زندہ کرداروں کی تخلیق و پیش کش میں عظیم مصنف اور باوقار تحریروں کے مالک ابن صفی کا جواب نہیں تھا"۔
اس سیشن میں انگریزی کے بھی تین مقالہ پڑھے گئے پہلا مقالہ ڈاکٹر شگفتہ شاہین بعنوان"Flights Of Fantasy-Ibne Safi s
, Panacea For a Traumatized Nationدوسرا مقالہ انگریزی میں کے۔تیجسوانی نے بعنوان" Humour in Selct Novels Of Ibn-e-Safi اور تیسرا مقالہ انگریزی میں محمد سالم کے نے " ابن صفی کے ناولوں کے کردار "کے عنوان پر پیش کیا۔
اس اجلاس کی پہلی صدر پروفیسر آمنہ کشور نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مقالہ نگاروں نے عمران اور فریدی کے کردار پر بھرپور روشنی ڈالی ہے اورکہاکہ کرداروں کے ذریعہ تخلیق کار کے اخلاقیات کو پیش کیا گیا ہے جرم وسزا کا تذکرہ کے باوجود ایک الگ کہانی ابھر کر سامنے آتی ہیں انہوں نے مقالہ نگاروں کو اچھے مقالہ پڑھنے پر مبارکباد پیش کی۔ دوسری صدر پروفیسر حلیمہ فردوس نے کہا کہ یہ سیشن بہت اچھا رہا جس میں بہت اچھے مقالہ پڑھے گئے اور خاص طور پر اردووانگریزی کے دونوں مقالہ پیش کیے گئے اردو کے اسکالرس انگریزی ادب سے استفادہ کریں۔ہر تخلیق کار میں تخلیق کی چنگاری کا ہونا ضروری ہے۔دوسرے دن کا تیسرا ورآخری اجلاس دوپہر تین بجے شروع ہوا جسکی نظامت پروفیسر بی بی رضا خاتون نے انجام دی انہوں نے سب سے پہلے مقالہ پڑھنے کی دعوت ملنسار اطہر احمد کو دی انہوں نے اپنامقالہ"اقوال ابن صفی" کے عنوان سے پڑھاجس میں انہوں نے ابن صفی کے ایسے اقوال ڈھونڈ نکالے ہیں جس سے انکی فکر اور دانشورانہ شخصیت کی عکاسی ہوتی ہیں اقوال۔حرام خوری آدمی کو سنگ دل بنادیتی ہے۔شہنشاہیت میں ایک نالائق کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور جمہوریت میں نالائقوں کی ایک پوری ٹیم ہوتی ہیں۔آدمی کتنا ہی بدل جائے مگر نسلی قصائل کبھی نہیں بدلتے۔" دوسرے مقالہ نگارڈاکٹر نکہت جہاں نے "اسلوب ابن صفی ایک جائزہ"کے عنوان پر اپنامقالہ پڑھا اور کہا کہ"ابن صفی الفاظ کے بازیگر تھے ابن صفی فکری بے ساختگی کو انہوں نے بیان کیا اس ضمن میں جملوں کی بے ساختگی کی مثالیں بھی پیش کی ۔الفاظ کا انتخاب،محاوروں کا استعمال ان کے یہاں دو چیزیں بیک وقت ملتی ہیں ایک بیانیہ تو دوسرا ڈرامہ"۔ اس سیشن کے آخری مقالہ نگار ہلال احمد شاہ نے اپنا مقالہ" ابن صفی کے جاسوسی ناول پیش گوئی کا شکار میں بیانیہ تکنیک کا استعمال" کے عنوان پر مقالہ پیش کیا۔انہوں نے بیانیہ کیا ہے اسکا استعمال افسانوی نثر میں کیوں کیاجاتا ہے کو بیان کیا اور کہاکہ" بیانیہ تکنیک کو ابن صفی نے اپنے ناولوں کا ناگزیر حصہ بنایا ہے"۔
اس اجلاس کی صدارت پروفیسر وہاب قیصر نے کی اور کہاکہ تمام مقالے میعاری اور اچھے انداز میں پیش کیے گئے ابن صفی کی شخصیت و کردار پر اس دوروزہ سمینار میں ریسرچ اسکالرس و دیگر احباب نے بہت ہی باریک بینی سے روشنی ڈالی ہے ادب میں ابن صفی کے مقام کو متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس اجلاس کے آخر میں ایک ڈاکیومنٹری فلم " کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا" پیش کی گئی"
دوسرے دن شام 4.30 بجے آڈیٹوریم سنٹرل لائبریری MANUUمیں اختتامی پروگرام کا انعقاد عمل میں لایا گیا جسکی نظامت پروفیسر بی بی رضا خاتون نے انجام دی اور شہ نشین پر مہمانوں کو مدعو کیا۔سب سے پہلے انہوں نے دعوت استقبالہ کیلئے رجسٹرار اس ایم۔ رحمت اللہ کو دعوت دی انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ" ابن صفی کی خدمات اور مقام و مرتبہ متعین کرنے میں اس دو روزہ سمینار کے ذریعہ پیش رفت ہوئی ہیں اور ابن صفی کے مقام ومرتبہ اور مقبول عام اور اعلی ادب پر خوب روشنی ڈالی گئی ہے امید کے ابن صفی کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا جائیگا اور انکے فن کی قدربھی کی جائیگی۔انہوں نے خالد سعید کی مہمان نوازی کی ستائش کی اور سب کا استقبال کیا۔فیروز عالم نے مہمان خصوصی پدم شری مجتبی حسین کا مکمل تعارف پیش کیا۔ feed backکے طور پر ڈاکٹر ناظم علی نے شرکاء کی جانب سے اظہار خیال فرمایا اور کہا کہ اس سمینار میں دو دنوں میں بہت اچھے تحقیقی مقالے پڑھے گئے اورادب میں ابن صفی کی فن اور مقام سے متعلق بھر پور روشنی ڈالی گئی۔عام افراد میں انکی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ابن صفی سے متعلق اس کامیاب سمینار کاانعقاد اردو تہذیب و ثقافت کے تحفظ میں یونیورسٹی کے رول کی ایک اہم کڑی ہے۔ رضوان سلیم نے بھی اپنی خیالات سے نوازا اور ابن صفی کے تحقیق کے نئے گوشوں کی نشاندہی کی۔اور سمینار سے متعلق کہا کہ اس میں ایک طرفہ طورپر صرف مثبت بات ہی پیش ہوئی جبکہ منفی پہلووں کا احاطہ ہو نا چاہیے تھا۔خالد سعید نے اپنے خطاب میں کہا کہ ان کی رائے قابل قبول ہے۔ہم نے سمینار کیلئے طرحی مصرعوں کی طرح عنوانات پر مقالے لکھوئے ہیں اور منتخبہ مقالوں کو پیش کرنے کا موقعہ فراہم کیا ہے۔اور انہوں نے تمام مقالہ نگاروں کو مبارکباد پیش کی انہوں نے کہاکہ مقالہ نگاری ایک فن آرٹ ہے اسی طرح مختصر نویسی بھی بہت بڑا فن ہے۔ مقالہ لکھتے وقت عمومیت کے پہلو سے گریز کریں او ر غور و فکر کے ذریعہ مقالہ لکھا جائے۔
پروفیسر مجتبی حسین نے اپن خطاب میں کہا کہ میرے تعارف کے طور پر اتنی لمبی تعریف کی گئی ہے کہ" ایسا محسوس ہوتا ہے داڑھی سے مونچھیں بڑی ہوتی نظر آرہی ہیں"۔انہوں نے سمینار میں مجاور حسین(ابن سعید) کی آمد کو ابن صفی کی آمد کے طو ر پر محسوس کیا ہے۔ دراصل ادب میں ابن صفی کا آغاز طنزومزاح سے ہوتا ہے انہوں نے ابتداء میں طنزیہ تحریریں لکھی تھیں انہوں نے مزید کہا کہ میرا ادب میں رحجان ابتداء میں سنجیدادب کی طرف رہا۔ بہت بعد میں میں نے ابن صفی کو پڑھا ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ شمس الرحمن فاروقی نے ابن صفی کی ناولوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے جو کہ لائق تحسین کارنامہ ہے انہوں نے کہا کہ دور حاضر میں ابن صفی کے ناولوں کا احیاء ہورہا ہے فرید بک ڈپو نے ابن صفی کے 45ناولوں کو دوبارہ شائع کیا ہے۔ابن صفی کے کارناموں کو اجاگر کرنے میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی بھی اپنا قیمتی رول ادا کررہی ہے۔
نائب شیخ الجامعہ پروفیسر خواجہ محمد شاہد نے اجلاس کی صدارت کرتے ہو کہا کہ ابن صفی کی ادبی خدمات پر پیش کیے گئے مقالات کی میں تائید کرتا ہوں کیوں کہ اردو ادب میں ابن صفی کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا انکی تحریروں کا ہر خاص وعام فر د نے مطالعہ کیا ہے کسی سے بھی پوچھا جائے کہ آپ نے ابن صفی کو پڑھا ہے سب کا جواب ہاں میں مل رہا ہے انہوں نے مزید کہاکہ ادب میں ابن صفی کو مقام دیا جائے یا نا دیا جاے ہم انکی خدمات کے معترف ہیں اردو کے فروغ میں حکومت کے تعاون سے زیادہ عوام کی سرپرستی کی ضرورت ہے۔پروگرام کا اختتام ڈاکٹر ارشاد احمد کے شکریہ پر ہوا۔
سمینار میں ایک طرف تو میعاری مقالے پڑھے گئے دوسری طرف پروفیسر خالد سعید کی مہمان نوازی کو سہرایا گیا۔ سمینار میں ملک کی مختلف ریاستوں شہر و اضلاع سے مختلف ریسرچ اسکالر س ،اساتذہ اردو ، مداحان ابن صفی اور باذوق افراد کی اچھی تعدادنے شرکت کی اور سمینار کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ۔ مجاور حسین رضوی کے قدیم شاگرد بھی ان سے ملنے چلے آئے اور دودن تک اردو کی جامعہ میں اردو تہذیب کا اچھا اجتماع رہا۔ سمینار میں پاکستان سے ابن صفی فکر و فن کے ماہر راشد اشرف کا آنا طے تھا لیکن وہ ویزا کی دشواری کے سبب شرکت نہیں کر سکے تاہم سمینار کے منتظمین ویڈیو کانفرنس یا ویب ٹیلی کاسٹ کی مدد سے براہ راست راشد اشرف کو بھی سمینار میں پیش کر سکتے تھے۔ سمینار کے اختتام سے قبل قرارد کے ذریعہ ابن صفی کے ادب میں مقام سے متعلق متفقہ رائے قائم کی جاتی تو بہت اچھاتھا۔امید ہے آئیندہ اس جانب توجہ دی جائے گی۔ امید ہے کہ اس سمینار کے نتائج ابن صفی کے ناولوں کے نئے قاری پیدا کریں گے اور اردو کے ادبی حلقے بھی ان کی جانب توجہ کریں گے۔اور دیگر اہم موضوعات پر بھی اس قسم کے معلوماتی سمینار منعقد کرتے ہوئے یونیورسٹی اپنے مقاصد کی تکمیل کی جانب آگے بڑھے گی۔

***
محمد عبدالعزیز سہیل۔ Ph.D ریسرچ اسکالر(عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد)
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزل، لطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeez.sohel[@]gmail.com
موبائل : 9299655396
ایم اے عزیز سہیل

2-days Seminar on Ibne-Safi in MANUU. Reportaz: M.A.A.Sohail

4 تبصرے:

  1. محمد عبدالعزیز سہیل صاحب نے مولانا آزاد یونیورسٹی، حیدرآباد، ہندوستان کے زیرِ اھتمام دو روزہ ابنِ صفی قومی سیمنیار کی رپورٹ بڑی بھرپور تفصیلات کے ساتھ پیش کی ہے۔ جس کے لیے وہ بلاشبہ مبارکباد کے مستحق ہیں
    امین صدرالدین بھایانی
    اٹلانٹا، امریکہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت عمدہ بھائی
    ابن صفی ہمارے بھی پسندیدہ مصنف ہیں اور ان کے فن پر ایسی تقریب کا منعقد ہونا خؤش آئیند ہے

    جواب دیںحذف کریں