8/اکتوبر نئی دہلی آئی۔اے۔این۔ایس
مختلف تنظیموں اور سماجی کارکنوں نے یو پی اے حکومت سے پر زور مطالبہ کیا کہ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں انسداد فراقہ وارانہ فساد بل کو منظور کرائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے والوں کا انصاف کے کٹہرے تک پہنچانے کے لیے اس قانون کی منظور بے حد ضروری ہے۔ سماجی کارکنوں نے اپنے اس مطالبہ پر مبنی یاد داشتیں، وزیر اعظم منموہن سنگھ ، صدر کانگریس سونیا گاندھی ، مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے او ر وزیر قانون کپ سبل کو روانہ کی ہیں۔ ان یاد داشتوں میں انسداد فرقہ وارنہ فساد بل میں گیارہ نکات شامل کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ نئی دہلی میں میدیا سے بات چیت کرتے ہوئے ایڈوکیٹ رند گروور نے کہا کہ یو پی اے اول نے اپنے اقل ترین مشترکہ پروگرام میں اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لیے ایک جامع قانون بنا یا جائے گا۔ دس سال کا وعدہ کیا تھا کہ فرقہ وارنہ فسادات کو روکنے کے لیے ایک جامع قانون بنا یا جائے گا۔ دس سال کا عرصہ گذر گیا ، لیکن ابھی تک وعدہ پورا نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی پیشرفت کی گئی ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات میں بے قصور عوام کو تشدد کا نشانہ بنا یا جاتا ہے، لہذا بے قصور شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اس طرح کے قانون کی شدید ضرورت ہے۔ فسادات کے لیے ذمہ داری خاطیوں اور سرکاری عہدیداروں کو جواب دہ بنا یا جانا چاہئے۔ ان کا محاسبہ کیا جانا چاہئے۔ فسادات کی سازش کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچا یا جانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ فساد متاثرین کے ساتھ انصاف کرنے کے لیے انہیں ہر قسم کی مدد فراہم کی جانی چاہئے۔ رندہ گروور نے مزید بتا یا کہ قومی یکجہتی کونسل نے اقلیتوں کو فسادات سے تحفظ فراہم کرنے کا مسودۂ قانون بنا یا تھا، لیکن اس قانون میں تمام شہریوں کو جو فسادات سے متاثر ہوتے ہیں ، قانونی ضمانت دی جانی چاہئے۔ ملک کے مختلف مقامات بشمول گجرات، ممبئی، مظفر نگر میں پیش آئے فرقہ وارانہ فسادات میں عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ انتظامیہ سطح پر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر غفلت برتی جاتی ہے۔ بعض مرتبہ سرکاری مشنری کا استعمال فساد بھڑکانے کے لیے بھی ہوتا ہے۔ اگر ریاستی حکومتیں دیانت داری سے فرائض انجام دیتی ہیں تو اس قسیم کے سانحات ہرگز پیش نہیں آسکتے ۔یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ فسادات میں خود حکومتوں کا اہم رول ہوتا ہے۔ رندہ گروور کے مطابق 2005میں سب سے پہلے انسداد فسادات بل کا مسودہ راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا تھا۔2009میں اس بل میں 59ترمیمات پیش کی گئیں۔ اس کے باوجود ہنوز اس بل میں کئی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ گروور کے علاوہ سماجی کارکن شبنم ہاشمی ، نوید احمد، مولانا نیاز فاروقی، جمعیتہ علماء ہند کے سکریٹری مولانا محمود مدنی اور دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق سر براہ کمال فاروقی نے بھی میڈیا سے خطاب کیا۔ شبنم ہاشمی نے کہا کہ اگر اس طرح کے قانون کو پہلے ہی منظوری دی جاتی تو مظفر نگر جیسے فسادات پیش نہیں آتے۔ انہوں نے بتا یا کہ پارلیمنت کے مانسوں اجلاس میں اس بل کو منظوری دلوانے کے لیے امن پسند سیکولر عوام کو بھر پور کوشش کرنی چاہئے اور حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہئے، بلکہ اس سلسلہ میں مہم چلائی جانی چاہئے۔ کیوں کہ اگر اب غفلت برتی گئی تو پھر عرصۂ دراز تک عوام کو اس کی سزا بھگتنی پڑے گی ۔ ان یاد داشتوں پر مختلف تنظیموں کے عہدیداروں کے بشمول 92ممتاز شہریوں اور سماجی کارکنوں نے دستخط کیے ہیں۔ واضح رہے کہ بی جے پی نے سابق میں اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون کے ذریعہ اقلیتوں اور اکثریت میں امتیاز برتا جارہا ہے۔ Pass bill on communal violence in winter session: Activists
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں