مرٹھواڑہ میں اردو غزل کے چراغ - سراج اورنگ آبادی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-10-07

مرٹھواڑہ میں اردو غزل کے چراغ - سراج اورنگ آبادی

Siraj Aurangabadi
سراج اور نگ آبادی - شخصیت و کلام کے آئینے میں

مراٹھواڑہ(مہاراشٹر ) کی ادبی زمین ہمیشہ سے ہی شعر و سخن کے لئے بڑی زرخیز رہی ہے۔اس کے لئے ہم ماضی میں ولی ، سراج ، سکندر علی وجد اور احسن یوسف زئی کی مثال دیکھیں یا پھر حال میں بشر نواز، شمس جالنوی اور عرفان پربھنوی کی مثال لے سکتے ہیں۔ولی اورنگ آبادی کی اگر بات کی جائے تو اردو شاعری میں اولیت کا تاج ولی کے ہی سر جاتاہے۔ولی سے قبل اردو غزل صرف ناز وادا ،حسن وجمال اور خارجی پہلوؤں تک محدود تھی۔اس میں کوئی گہرے تجربے یااحساس نہیں ہوا کرتے تھے۔ولی نے اس میں زندگی کے تجربات ،تنوع اور داخلیت کو سمو کر غزل کے دائرے میں جیسے پوری کائنات کو سمیٹ لیا ہے۔
ہم اس مضمون میں مراٹھواڑہ کے ہی اک ایسے شاعر کی شخصیت اور فن کا جائزہ لیں گے۔جنہوں نے مراٹھواڑہ کے اردو ادب کی تاریخ میں اپنانام طلائی روشنائی سے لکھوایا ہے۔اور انہیں ہم سب سراج اورنگ آباد ی کے نام سے جانتے ہیں۔راقم الحروف کو سراج اورنگ آبادی کی شاعری میں تب سے ہی دلچسپی ہوئی جب وہ دسویں جماعت کا طالب علم ہوا کرتا تھااور دسویں جماعت کی درسی کتاب میں سراج اورنگ آبادی کی غزل شامل نصاب تھی۔یہی وجہ رہی کہ میں جب اور نگ آباد میں پڑھائی کے لئے تھا تب خاص طور پر 'کالا دروازہ 'سے متصل قبرستان میں موجود سراج اورنگ آباد ی کی قبر کی بڑی اہتمام سے زیارت کی۔جن کی شاعری نصابی کتاب میں پڑھی ،اس عظیم شاعر کی قبر پر درود پڑھ کر دل کو بڑی تسکین ہوئی۔
دکنی شعراء میں ولی کے بعد اردو کے سب سے بڑے شاعر سراج اورنگ آبادی ہیں۔ڈاکٹر فخر الاسلام اعظمی اور ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی اپنی کتاب 'شعور و فن'میں لکھتے ہیں کہ سراج کا مزاج بچپن سے ہی حسن پرستی کی طرف مائل تھا۔عنفوان شباب ہی میں ان پر ایک طرح کی مجنونانہ کیفیت طاری ہوگئی تھی۔مجذوبیت کے عالم میں انہوں نے فارسی زبان میں بہت سے اشعار کہے۔جذب کی کیفیت ختم ہونے پر وہ شاعری ترک کرکے صوفی اور فقراء کے ساتھ رہنے لگے۔
سراج کے کلیات میں غزلیں، قصیدے،رباعیات اور مثنوی شامل ہیں۔یوں تو ان کا سارا کلام ہی شعریت سے بھرپور ہے، لیکن وہ اپنی مثنوی'بوستانِ خیال'اور اپنی غزلوں کی وجہ سے مشہور ہوئے۔بوستانِ خیال میں تقریباً 1160؍اشعار ہیں۔یہ مثنوی ایک طرح سے سراج کی آپ بیتی ہے ،جسے انہوں نے سیدھے سادے انداز میں پیش کیا ہے۔سراج عیسوی سنہ 1734ء میں بیس سال کی عمر میں حضرت شاہ عبدالرحمن چشتیؒ سے بیعت ہوئے۔اسی زمانے میں انہوں نے اردو میں شعر گوئی کا آغاز کیا۔اور عیسوی سنہ 1740ء کے بعد انہوں نے اپنے مرشد کے حکم پر شاعری ترک کردی۔سراج کا شعری سرمایہ ان پانچ چھ سال ہی کا نتیجۂ فکر ہے۔
معروف محقق جمیل جالبی کے مطابق 'بوستان خیال' یہ مثنوی اپنے روانی ، سادگی اور شدید عشقیہ کیفیات کے بے باکانہ اظہارکی وجہ سے پُراثر ہے۔اورریختہ کی مثنویوں کی ابتدائی روایات میں ایک اہم کڑی کا درجہ رکھتی ہے۔
سراج کی شاعری میں روحانی کیفیات اپنے پورے حسن و جمال کے ساتھ نمایاں ہیں۔ ان کے کلام میں تصوف کا فلسفہ بھی ہے ، اخلاق وحکمت کی باتیں بھی اور دنیا کی ناپائیداری کا ذکر بھی۔مثلاً
شرابِ معرفت پی کر جو کوئی مجذو ب ہوتا ہے
در و دیوار اس کوں مظہرِ محبوب ہوتا ہے

سراج کے کلام کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے محبوب کے لئے پری ، من ہرن، گل بدن،جانِ سراج اور من موہن جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ذیل کے اشعار میں ہم مذکورہ تشبیہات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں:
اس گلبدن نشترِ مژگاں کوں دیکھ کر
آیا ہے جوش خوں سے رگِ کوں پیچ و تاب

میں کہا رحم پتنگوں پہ کراے جانِ سراج
تب کہا شمعِ شب تار ہوں کن کا ان کا

کہاں ہے گلبدن موہن پیارا
کہ جوں بلبل ہے نالاں دل ہمارا

سراج کی شاعری سے داخلیت صاف طورپر جھانکتی ہے۔ذیل کے اشعار سے یہ بات محسوس کی جاسکتی ہے:
تجھے کہتا ہوں اے دل عشق کا اظہار مت کیجو
خموشی کے مکاں بات اور گفتار مت کیجو
پُتلی ہماری نین کے جھروکے میں بیٹھ کر
بیکل ہو جھانکتی ہے پیاراکب آئے گا

سراج کی شاعری کا ایک اہم موضوع تصوف ہے۔ ملاحظہ ہو :
ہمیشہ دورِ الم مختلف ہے
کہ گردش میں ہیں ہر دم نیلگوں
ہم فقیروں پہ ستم جیتے رہو
خوب کرتے ہو بجا کرتے ہو

روشن ہے اے سراج کہ فانی ہے سب جہاں
مظرب ہے جام غلط انجمن غلط

***
سراج آرزو۔ ایم اے (اردو) ، بی ایڈ ، ڈی ایس ایم۔ ،بیڑ ، مہاراشٹرا
taazatahreer[@]gmail.com
موبائل : 9970531776
سراج آرزو

The light of Marathwada Urdu Ghazal - Siraj Aurangabad. Article: Siraj Aarzu

4 تبصرے:

  1. آج اتفاق سے اس ویب سائیٹ پر نزول ہوا، دل خوش ہوا اور طبیعت کھل اٹھی کہ قافلہ اردو بڑی شان سے رواں دواں ہے، اللہ آپ سب کو مزید ہمت اور حوصلہ عطا کرے!

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. Abbas صاحب
      آپ کی اس قدر حوصلہ افزائی نے ہماری ٹیم کا دل خوش کر دیا ہے۔ جزاک اللہ خیرا
      دعا کیجیے کہ اس نیوز پورٹل کو مزید بہتر سے بہتر بنانے کی توفیق ملے۔ آپ کا بہت شکریہ۔

      حذف کریں
  2. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. خبر تحیر عشق سن، نہ جنوں رہا نہ پڑی رہی
    نہ تو تُو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
    (سراج اورنگ آبادی)

    جواب دیںحذف کریں