جب ایک انگلی نے تقدیر بدل ڈالی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-10-07

جب ایک انگلی نے تقدیر بدل ڈالی

Vote Mark
میں کافی جوش میں تھا!
یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سماج میں میری اہمیت اچانک اس قدر بڑھ جائیگی۔ اب پورے ملک اور قوم کا مستقبل میرے ہاتھوں میں، بلکہ صرف ایک انگلی میں تھا۔ بس مجھے اپنی ایک انگلی کا استعمال کرنا ہے اور سب کی تقدیر بدلنی ہے۔

میں تصورات کی دنیا میں پوری طرح کھو چکا تھا۔ مجھے وہ منظر صاف نظر آنے لگا جب میں اپنی انگلی کے استعمال سے اس ملک کی تصویر، بلکہ تقدیر بدل رہا ہوں۔ میری انگلی نے جیسے ہی جنبش لی، میرے ساتھ ساتھ سب کے حالات بدل گئے۔

یہ انگلی کا ہی کمال تھا کی میری بستی میں اچانک نئی سڑک بچھ گئی۔ نہ کوئی گندی بہتی نالی، نہ کچرے کا ڈھیر کہیں نظر آیا۔ کرایے کے دو کمروں کا میرا مکان، گویا کہ ایک پل میں ذاتی بنگلے میں تبدیل ہو گیا۔ میرے مکان میں راشن کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ میرے اہل و عیال بھر پیٹ کھانا کھا رہے ہیں۔ ہمارے پاس نئے اور عمدہ لباس بھی آ گئے ہیں۔

صرف ایک انگلی کی وجہ سے میری بیمار ماں کا شہر کے بڑے اسپتال میں نہایت سستا علاج ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ سبھی اسپتالوں کے باہر یہ بورڈ لگا دیا گیا ہے کہ :
"پہلے اپنا اچھا علاج کرائیں، ٹھیک ہونے کے بعد قسطوں میں اپنے بل کی ادائیگی کیجیے"
میرے بچوں کو بڑے اور نامور کالجوں میں مفت میں داخلہ بھی مل گیا ہے۔ ایک انجینئر بن رہا ہے، تو دوسرا ڈاکٹر۔

میرے گھر کے آگے جہاں ایک جانب معروف کمپنیوں کے مالک انکے یہاں نوکری کرنے کی گزارش ہاتھ میں پکڑے کھڑے ہیں، تو دوسری جانب بنک والے قرض کی رقم ہاتھ میں تھامے میری راہ تک رہے ہیں کہ اگر مجھے نوکری پسند نہیں ہے تو ان سے نقد رقم لے کر میں کوئی کاروبار شروع کر دوں۔ ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہے، عزت ہے ، وقار ہے۔

ایک روز میں بڑی شان سے اپنے مکان سے نکلتا ہوں مگر چند قدم چلتے ہی پیچھے سے آواز آتی ہے ۔۔۔ "اوئے، آٹو والے"
۔۔۔ جیسے ہی یہ الفاظ کانوں میں پہنچے، میں تصورات کی دنیا سے ایک جھٹکے باہر نکل آیا۔ جی ! میں ہندوستان کی اس اکثریت میں شمار کیا جاتا ہوں جن کا کوئی نام نہیں، بلکہ ان کا پیشہ ہی ان کی پہچان ہے۔ میں نے پلٹ کر دیکھا کہ ایک پولیس والا انگلی سے اشارہ کر کے مجھے اپنا آٹو اس مقام سے ہٹانے کے لیے کہہ رہا ہے۔

دراصل میں ایک سیاسی جلسہ میں ایک قائد کی تقریر سن رہا تھا۔ قائد محترم نے بہترین اور دلآویز انداز میں سب کو اپنے ووٹ کی اہمیت سمجھائی اور کہا کہ اس بار اگر انقلاب لانا ہو تو ان کے حق میں ووٹ دیا جائے۔ بس الکٹرانک ووٹنگ مشین (EVM) کا ایک بٹن اپنی انگلی سے دبانا ہے اور پھر سب کچھ بدل جائیگا۔

میں پوری توجہ سے قائد محترم کی انگلی کو دیکھے جا رہا تھا، جسے لہرا لہرا کر وہ حکومت وقت کو للکار رہے تھے۔ پھر ان کی تقریر ختم ہوتے ہوتے میری توجہ انکی انگلی سے ہٹ کر اپنی انگلی پر چلی گئی، جس سے میں اپنی تقدیر سنوارنا چاہتا تھا۔ جلسہ کے اختتام تک تو پولیس والے نے "نو-پارکنگ" زون میں کھڑے میرے آٹو کی جانب توجہ نہیں دی۔ لیکن جیسے ہی قائد تقریر ختم کر کے اپنی لکژری گاڑی میں وہاں سے روانہ ہوئے، پولیس والے نے اپنی توجہ میری کھٹارا پر مرکوز کر ڈالی۔

پولیس والے کی انگلی کے اشارے پر میں تیز رفتاری کے ساتھ وہاں سے رفو چکر ہو گیا۔ وجہ صاف ہے۔ ہماری اتنی اوقات نہیں کہ قانون کی پابندی کرتے ہوئے نو پارکنگ میں گاڑی کھڑا کر کے 100 روپے کا چالان بھریں۔ ہم تو 20 سے 30 روپے کی رشوت سے کام چلا لیتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ رشوت دینا اور لینا دونوں گناہ ہے۔ لیکن اس گناہ سے بچنے ہم اتنے پیسے لائیں کہاں سے؟ سواری ملنے کا لالچ ہم سے کبھی کبھار غلطی کروا ہی دیتا ہے۔

بہرحال اس پولیس والے کی انگلی نے ہمیں اپنی انگلی سے دنیا تبدیل کرنے کے دل خوش کن تصورات کو درہم برہم کر دیا۔ ہمارے ساتھ اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے۔ اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پالنے کی خاطر دن رات مسلسل محنت کرتے ہوئے ہمارا دماغ اکثر تھکا ماندہ سا رہتا ہے۔ اور اس تھکے ہوئے دماغ کو کوئی خوابوں کی دنیا میں لے جائے، تو نشہ سا چھا جاتا ہے۔ ہمارے قائدین ہماری ان کمزوریوں سے بخوبی واقف ہیں لہذا ہمیشہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔

"اس ملک میں آپکے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں" یا پھر ایسے ہی کچھ دیگر جملوں کے ذریعے پہلے ہمیں خوفزدہ کیا جاتا ہے پھر ملک میں پیش آئے فسادات کی روداد بیان ہوتی ہے اور آخر میں ہماری غریبی اور محرومیوں پر ماتم کیا جاتا ہے۔ یہ تمام باتیں سن کر لگتا ہے کہ جیسے وہ ہمارے گھر کی اندرونی داستان کرب باہر بھرے مجمع میں بیان کر رہے ہوں۔ پھر فرمایا جاتا ہے کہ ہمارا ووٹ ہی ان سب مسائل کا حل ہے۔ ہمارا تھکا ماندہ دماغ ہر بات کو من و عن قبول کر لیتا ہے۔ ہم انہیں جتانے یا پھر کسی کو ہرانے کے لیے انہیں اپنے قیمتی ووٹ سے سرفراز کر دیتے ہیں ۔۔۔ پھراگلے پانچ سال تک گویا طویل فرصت۔ ہمارے حالات جیسے کے تیسے رہتے ہیں اور ہمارے قائدین کی قسمت بدل جاتی ہے۔ وہی حربہ ہم پر دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے، اور ہم پھر تصورات کی دنیا میں غرق کر دئے جاتے ہیں۔

سیاسی تو سیاسی، ہم جیسے غریب مسکین مذہبی جلسوں میں بھی اپنے ہوش و حواس کھو ڈالتے ہیں۔ جنت کا ذکر ہو تو حوروں سے زیادہ وہاں ملنے والے مفت میوؤں پر دھیان لگا رہتا ہے اور دوزخ کا بیان ہو تو سوچتے ہیں کہ یا الله، اس دنیا میں اتنی تکلیف دیکھنے کے بعد کیا وہاں بھی عذاب ہی ملے گا؟ حالانکہ دن رات محنت کرتے کرتے ہمیں گناہ کرنے کی بھی فرصت نہیں ملتی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم امیروں کی طرح سال میں دو بار عمرہ اور ایک بار بار حج نہیں کر پاتے۔ نہ ہم زکاۃ دینے کے قابل ہیں اور نہ خیرات۔ اسی لیے امیروں کے بالمقابل ہمارے پاس نیکیاں شاید کچھ کم ہوں۔

انہیں خیالات میں ڈوبے ہم آہستہ روی سے آگے بڑھے جا رہے تھے کہ اس بار ایک اور آواز آئی :
"اوئے، آٹو والے"
۔۔۔ ہم نے فوراً گاڑی روکی۔ ہمیں سواری مل گئی جسے ہم نے اس کی منزل مقصود تک بخیر خوبی پہنچا دیا۔ ہمیں ہمارا محنتانا مل گیا۔ بطور محنتانہ سو روپے کے نوٹ کو جیب رکھتے ہوئے دفعتاً ہماری نظر اس انگلی پر پڑی جس کے ذریعے ہمیں انقلاب لانا تھا۔ حالانکہ دل چاہ رہا تھا کہ ہم ایک بار پھر تصورات کی دنیا میں کھو جائیں، لیکن دماغ نے کہا کہ اگر تقدیر بدلنی ہے تو نظر انگلی پر نہیں بلکہ سڑک پر رکھو تاکہ کوئی اور سواری مل جائے۔

اگر انگلی ہلانے سے تقدیریں بدلا کرتیں تو پچھلے 60 سالوں میں کروڑوں افراد نے 15 بار ایسی کوشش کی ہے مگر ہر بار صرف 540 افراد کی ہی تقدیر بدلی ہے۔ ہم جیسے لوگ پہلے بھی روٹی، کپڑا اور مکان کو ترستے تھے اور اغلب گمان ہے کہ سولہویں کوشش کے بعد بھی ایسے ہی تڑپیں گے۔

***
sahmedali13[@]gmail.com
Indian News Network, 202, Silver Oak, Beside Balaji Grand Bazar, Masab Tank, Hyderabad-500028 A.P.
شیخ احمد علی

When a finger has changed the destiny - Humorous Essay: Shaik Ahmed Ali

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں