ابن صفی اور سری ادب - مولانا آزاد یونیورسٹی سیمینار کی روداد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-10-31

ابن صفی اور سری ادب - مولانا آزاد یونیورسٹی سیمینار کی روداد

ibne safi seminar manuu
(آنکھ بیتی اور دل پر گذری)

یہ شاید اواخر جون یا اوائل جولائی کی بات ہے کہ جناب راشد اشرف (کراچی)کی عظیم علمی ادبی اور معلوماتی ویب سائٹ www.wadi-e-urdu.com پر ایک بر وشر نظر نواز ہوا ۔لکھا تھا "مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے مرکز برائے اردوزبان و ادب و ثقافت کے زیر اہتمام 'ابن صفی اور سرّی ادب' پر دو روز قومی سیمینار منعقد کیا جارہا ہے ۔"
یہ خبر میرے لیے باعث مسرت ثابت ہوئی اور میں نے ابن صفی جیسے عظیم فن اور نابغہ روزگار ہستی کے لیے خراج عقیدت پیش کرنے کا سامان سمجھ کراس سیمینار میں شرکت کا ارادہ کر لیا ۔بروشر کے موضوعات کی فہرست سے اپنے لیے ایک عنوان "ابن صفی کے زندہ جاوید کردار "منتخب کیااور اس پرسیمینار انتظامیہ کی ہدایات کے مطابق تحقیقی مضمون مرتب کرنے لگا۔ مضمون کی تکمیل کے بعد اسے انتظامیہ کی جائزہ کمیٹی کے سامنے پیش کر دیاگیا ۔بفضلہ تعالیٰ وہاں سے منظوری کا پروانہ آیا ۔اس طرح مجھے پہلی مرتبہ کسی عظیم الشان اور قومی حیثیت کے سیمینار میں شرکت کا موقع ملا ۔چنانچہ میں بتاریخ 21اکتوبر2013 حیدرآباد کے لیے روانہ ہو گیا۔
"دورنتو ایکسپریس "تقریبا1600کلومیٹر کے طویل فاصلے کے قطع میں معاون ہوئی اور اس نے محض 22گھنٹوں میں نئی دہلی سے حیدرآباد پہنچادیا ۔ واضح ہو کہ یہ ٹرین سابق وزیر ریل اور مغربی بنگال کی وزیر اعلا محترمہ ممتا بنرجی کی دَین ہے ۔جو ان کی ہی طرح فرض شناس ،حساس اور انسانیت کی ہمدردثابت ہو ئی ۔ اس کی سہولیات نے ائیرانڈیا کی خدمات کو شرما دیا ۔حیدرآباد سے متصل عالمی شہر ت یافتہ اور جدید سہولیات سے آراستہ سکندر آباداسٹیشن پہنچ کر "دورنتوایکسپریس "کا سفر ختم ہوا۔وہاں سے بذریعہ بس افضل گنج ہوتے ہو ئے ریاست نگر جاناہوا جہاں معروف شاعراور روزنامہ" اعتماد" حیدرآباد کے ضمیمہ "پھلواری "کے ایڈیٹر جناب سردار سلیم ؔ صاحب کے ہمراہ دو پہر کا کھانا کھایا گیا ۔کھانے سے فراغت کے بعد میں عظیم تر حیدرآباد سے 18کلومیٹر کے فاصلے پربراہ مہدی پٹنم گچی باؤلی "اردو یونیورسٹی "کے وی آئی پی گیسٹ ہاؤس پہنچ کر چند دیگر مدعوئین سیمینار سے ملاقاتیں اور تبادلہ خیا لات کیا۔
"اردو یونیورسٹی کا کیمپس "خوبصورت قدرتی پہاڑیوں اور خوش نما پھولوں ،درختوں ،دلکش عمارتوں سے سجا ہوا ہے۔اس کی رعنائی میں موسم نے بھی بھر پور ساتھ دیا۔ وائلین طوفان چو نکہ آندھرا کے ساحلوں سے حال میں ہی گذرا تھا ہلکی ہلکی اور مسلسل بارشوں نے اس کی یادہ تازہ کر رکھی تھیں ۔یہ موسم طبعی لحاظ سے مجھے بہت بھاتا ہے اس لیے یہاں آکر میری روح کھِل اٹھی۔میں نے دل کھول کر یہاں کے ماحول کا لطف اٹھایا اور ان حسین یادو ں کا اپنے سیمسنگ موبائل کے کیمرے میں قید کر لیا۔
شام کب سرپر آگئی،مناظر کی دیدنی میں خیال ہی نہیں رہا۔آنکھیں تب کھلیں جب چارو ں طرف اندھیرا اپنی چادرپھیلا چکا تھا ۔برقی قمقمے یکے بعد دیگر ے روشن ہو تے چلے گئے ۔کہیں دو دھیائی روشنی تھی اور کہیں لال رنگت والی اسٹریٹ لائٹوں کی سحر کاری تھی ۔چو نکہ ابن صفی اعصاب پر سوارتھے اوران کی پر اسرا ر تحریریں دماغ میں بسی ہو ئیں اس لیے یہ منظر انتہائی پر اسرار لگا ۔میں یونیورسٹی کی سڑکوں سے پر سبک رفتاری سے چلتا ہوا خود کو ابن صفی کا ہی کوئی کر دار محسوس کر نے لگا۔پھر اپنی حماقت پر ہنس پڑا ۔کہاں میں اور کہاں ابن صفی کے کر دار؟
میں اپنے کمرے پہ آیاوہاں مشہور مزاح نگار جناب رؤف خوشترصاحب سے ملاقات ہو ئی جنھیں میں اب تک رسایل و جراید میں پڑھتا تھا اور ان کی مزاحی نشتر بازیوں سے لطف اندوز ہوتا تھا۔اتفاق سے وہ میرے ہمسایہ تھے۔بہت دیر تک ہم دونوں اپنے اپنے مقالات سے متعلق تبادلۂ خیال کر تے رہے۔اتفاق سے ان کاعنوان بھی کرداری نگاری سے متعلق تھا "ابن صفی کا ایک کر دار ۔عمران"خوب بنی جب مل بیٹھے ابن صفی کے دیوانے دو۔میں فریدی کا حامی اور وہ عمران کے مداح ۔ میں فریدی کی مدح سرائی کر تا اور عمران کی۔انھیں اس بات پر بھی تعجب تھا کہ میں "عمران" ہوتے ہوئے بھی فریدی کا ہم نوا کیوں ہوں ؟ ہمارا یہ مباحثہ جاری ہی تھا کہ گیسٹ ہاؤس کے انتظامی امور کے ایک شخص نے کھانے کی اطلاع دی اور ہم دونوں ابن صفی یا فریدی و عمران کا قضیہ چھوڑ کر پیٹ پوجا کے لیے ڈائننگ ہال پہنچ گئے۔کھاناپر تکلف اور حیدرآباد کی روایات کا آئینہ دار تھا ۔جب تک قیام رہا اسی طرح کھاناملا ۔
رات آئی اور دن بھرکی تھکان اتارنے کا زرین موقع ملا۔تھوڑی دیر بعد آ س پاس کے تمام ہنگامے فرو تھے ۔رات کا سناٹا"لیلائے شب"کی حدود سے نکل کر دن کی فتح یابیوں کا انتقام لے رہا تھا۔اس معرکہ آرائی میں اس انسان کا کیا بس چلتا جس کو کمزور پیدا کیا گیا ہے۔اسی میں ہی عافیت نظر آئی کہ چادر تان کر چپ چاپ سوجانا چا ہیے ۔ آسانیوں کے خوگر انسان نے وہی کیا اور جب تک آواز حق یعنی اذان فجر کی آواز کانوں میں نہ پڑی ،سوتا رہا۔اذان کے اختتام پر میں اللہ کانا م لے کر اٹھ گیا ۔رات کی تباہ کاریاں دم توڑ رہی تھیں ۔افق سے تاریکیوں کا سینہ چیر نے والے سورج کی آمد کے ڈنکے بج رہے تھے۔ننھے پھول کلیاں اور نظارے نئے سورج کے عظیم الشان استقبال کی تیاریاں کر رہے تھے۔فضا میں خوشبوئیں پھیلا کر سو رج کو خوش آمدید کہنے کی تیاریاں کررہے تھے۔اجالا پھیل رہا تھا اور تاریکیاں کسی شکست خوردہ فوج کی طرح عمارتوں کے گوشوں اور "پہاڑو ں کے پیچھے" چھپ رہی تھیں ۔وہ منظر خوش آگیں تھا اور عبرت انگیز بھی۔"جَاءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ"کی حقیقی تصویر نظر و ں کے سامنے تھے اور زبا ن پر "اَحْسَنُ الْخَالِقِےْنْ"کی تعریفیں جن کی انتہا نماز ہے ۔ چنا نچہ میں"ضروریات"سے فارع ہونے لگا۔خدا کا شکر تھا کہ "ضرور یا ت " بہت مختصرتھیں ۔
گیسٹ ہاؤس کے داخلی پھاٹک پر واقع ایک کمرے کو نماز کے لیے مخصوص کیا گیاہے۔تھوڑی دیر بعد جماعت کھڑی ہوئی ۔امام صاحب نے اللہ رب العزت کی کر شمہ سازیو ں،دنیا کی تعمیر ،تزئین کاری،جنت کے دلنشین مناظر کے بیانوں والی آیات کی قرأت کی ۔باہر سورج کی آمد آمد کے غلغلے تھے اور مسجد کے اندر اللہ پاک ،کی نوازشات اور تخلیقات کا حسین بیان۔ایک عجیب سی کیفیت تھی۔ایسے ہی مواقع پر بے اختیا ر اللہ اللہ کہہ کر زور زور سے اس کی تعریف کر نے کو جی چاہتا ہے ۔مگر چونکہ نماز میں بولنا حرام اور قطع صلاۃ ہے اس لیے میں اپنے احساس کو اس کا ترجمان بنادیا۔نماز ختم ہو ئی اور آنکھوں میں آنسو آگئے۔یا اللہ !یہ منظر بہت جلد ختم ہو گیا۔یعنی انسان کی ازلی فطرت نے "کمی "کا شکوہ کیا ۔یہ سلسلہ کچھ دیر اور چلتا ۔حسرت..... حسرت ....زیادہ پانے کی حسرت....۔دعا کے لیے ہاتھ اٹھ گئے آنسوہتھیلیوں پر نقش ثابت کر نے لگے۔دعا ختم ہوئی اور باہر آکر دیکھا تھا صبح پرشباب تھی۔مست مست جھونکے بدن بند کے خلیات میں داخل ہو کردل کو ٹھنڈ ک پہنچارہے تھے ہیں ۔ میں شاعر نہیں ہوں اور نہ ہی عاشق ،ورنہ اتنے حسین اس نغمے اس سحر آفریں منظر کی شان میں کہتا کہ لوگ داد دادا دیتے دیتے زبانیں کاٹ لیتے ۔یا اسے اپنی محبوبہ سے منسوب کر دیتا۔جسے پانے کے لیے چھریاں چل جاتیں..... وہ ایسا ہی منظر تھا۔مسجد میں "اورزیادہ کی حسرت "پل بھر میں مٹ گئی۔میرے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں تھا جو اس منظر کو قید کر لیتا ۔موبائل تھا جس سے محدود تصویریں ہی لے سکتا تھا وہ منظر بیکراں وسعتوں اور تاحد نگاہ تک پھیلاہوا تھا ۔ کچھ لوگ میری دیوانگی پر ہنس رہے تھے ۔مگر مجھے کوئی پرواہ نہیں تھی۔چند نے جملے بھی کسے۔""شاید اس نے کبھی صبح نہیں دیکھی ..... یہ کوئی پاگل معلوم ہوتا ہے....اچھے بھلے لباس میں ہے مہذب بھی ہے مگر دماغ کے اسکرو ڈھیلے ہیں شاید .....""وہ لوگ باتیں بناتے رہے اور میں قدرت کی حسین تخلیق میں گم تھا۔ آفتاب آہستہ آہستہ نکلتا آرہا تھا اور رفتہ رفتہ "دھوپ "میں تیزی آتی جارہی تھی ۔اچانک بارش آئی اور سارے ارمانوں پر پانی پھِر گیا۔نہ اب وہ نظارے تھے اور نہ سورج کا دیدار۔اس وقت جو کیفیت ہوتی ہے اسے سب جانتے ہیں ۔کس طرح آدمی کا دل بجھ جاتا ہے اور آنکھوں کی چمک ختم ہوجاتی ہیں۔ میر ی کیفیت بعینہٖ وہی تھی ۔دل ٹوٹ گیا تھا ۔بارش میں بھیگتا ہوا کمرے میں پہنچا اور ناشتے کا انتظار کر نے لگا۔تھوڑی دیر بعد ناشتے کا اعلان ہوا اور "معززمہمانوں" کے ساتھ میں بھی موجود تھا۔
ناشتے سے فراغت کے معاً بعد سیمینار ہال میں پہنچانے کے لیے یونیورسٹی کی بس آگئی ۔ضروری سامان لے کر ہماراقافلہ سیمینار ہال میں پہنچا۔افتتاحی اجلاس کا آغاز ہوا جس کے مہمان خصوصی شیخ الجامعہ پرو فیسر محمد میاں صاحب اور مہمان اعزازی پرو فیسر سید مجاور حسین رضوی(ابن سعید)تھے۔ناظم جلسہ نے مذکورہ دونوں حضرات کے ساتھ شہ نشین پر براجمان دیگر معززین کا تعارف کرایا ۔مہمانوں کے استقبال کی رسم " گل پیشی " ادا کی گئی۔اس کے بعد "ابن صفی اور سرّی ادب" سیمینار کا جامع تعارف پیش کیا ۔معززین نے جلسے سے خطاب کیا۔پرو فیسر سید مجاور حسین رضوی نے محترم ابن صفی سے اپنی دوستی ،یاری،مصاحبت نکہت کلب سے وابستہ ایسی داستانیں سنائیں جو اُس سے پہلے کانوں نے نہیں سنی تھیں۔ داستانوں کی داستان ۔ابن صفی کی داستان ،جناب والا نے اتنے دلکش انداز میں بیان کی کہ وقت کب چلاگیا،پتا ہی نہیں چلا۔وقت ختم اور داستان گو کی داستان ادھوری ہی رہ گئی۔پھر وہی حسرت ۔کاش وقت ٹھیرجاتا اور ابن صفی کی داستان کچھ اور بیا ن ہوتی۔
سیمینار کا پہلا سیشن ختم ہوا 1:30بج رہاتھا۔دوپہر کا کھانا کھایا گیا۔اس کے بعد سیمینار کا دوسرا سیشن شروع جس میں سیمینار سے متعلق مقالے پیش کیے گئے۔ایک مباحثہ بھی منعقد ہوا جس کا مقصد ابن صفی جیسے عظیم مصنف کو "ادب "میں مناسب مقام دلانا تھا ۔پرو فیسر بیگ احساس۔پرو فیسر خالد قادری اور جناب معصوم مرادآبادی نے اپنی اپنی تقریروں میں ابن صفی کی عظمت تسلیم کر نے او رانھیں "ادب عالیہ" میں جگہ دینے کا پر زور مطالبہ کیا ۔بات کچھ حد تک بن رہی تھی کہ صدارت کے عہدے پر فائز پرو فیسر فاطمہ پر وین نے اپنی لفاظیوں سے حاضرین کے دماغ خراب کر دیے ۔میں نے علی اعلان ان سے حرف بحرف نا متفق ہونے کا اعلان کر دیا ۔جس سے کچھ معززین اور معمرین یا ناقدین ابن صفی کے منہ بن گئے ۔مجھے کیا پر واہ ہوسکتی تھی۔بنتے رہیں۔ایسے ہی مواقع پر انسان ننگا ہو کر اپنی اصلیت اور اوقات بتاتاہے۔میں نے ان پرو فیسران ،دانشوران اور محققین کا جائزہ لیا ۔ درمیان میں صرف لباس حایل تھے ورنہ.......
یہ سیشن ختم ہوا اور چائے نوشی کے بعد تیسرا سیشن شروع ہوا جس کا سلسلہ شام 8:30تک چلتا رہا۔بہت شاندار مقالے تھے جن سے احساس ہورہا تھا ابن صفی بعد وفات زیادہ مقبول ہو ئے ہیں ۔مقالہ نگارو ں نے نئے نئے حقائق اور خیالات پیش کر کے دلوں کو منور کر دیا اور ابن صفی کی اہمیت،محبت ،مقام،احترام اور عظمت کو مزید گہر ا کر دیا۔پرو فیسر پروین فاطمہ کی باتوں سے جو کدورت دل پر چھائی تھی وہ اب ختم ہوچکی تھی۔
پہلا دن ختم ہوا اور حاضرین جلسہ لائبریری کے آڈیٹوریم سے باہر آ ئے تو دن کے نقوش بھی مٹ چکے تھے ۔رات پھر کائنات کو اپنی چادر میں سمیٹ رہی تھی ۔بس نے ہارن بجایا اور مہمان خانے میں مقیم حضرات آناً فاناً میں سوار ہو گئے۔دوسرے لمحے سب گیسٹ ہاؤس کے کمپاؤنڈ میں تھے۔میں نے کمرے میں پہنچ کر لباس تبدیل کیا اور ہاتھ منھ دھلنے کے بعد ٹی وی آن کیا۔مشہور اور 13بار کا انعام یافتہ چینل"آج تک"خبریں سنارہا تھا ۔ملک و بیرون کے ممالک میں رونما ہونے والے واقعات دکھا رہا تھا۔دارالحکومت دہلی میں پیاز کی مہنگائی اور وزیراعلا شیلا دکشت کی بے بسی پر ہنس رہا تھا۔خبرو ں کا سلسلہ جاری تھا کہ شام کے کھانے کا اعلان ہوا اور سب کچھ چھوڑچھاڑ کر میں بھی دوسروں کے ساتھ کھانے کے ہال کی طرف چل پڑا۔
کھانے سے فراغت کے بعد پھر کمروں کی راہ لی گئی ۔تفریح کا موقع نہیں تھا۔بارش میں شدت آگئی تھی۔رات نے کیا کیا تباہیاں مچائیں، بارش کی جھمجھماہٹ میں پتا نہیں چل سکا۔ٹی وی آن کیا ۔"سب"چینل پر "بڑے گھر کی بیٹی"نامی سیریل آرہا تھا ۔پریم چند نے آج سے سو سال پہلے لکھا تھا وہی منظر سامنے تھا ۔مگر اسے مزید دیکھنے کا موقع نہیں ملا، نیند مہربان ہوگئی ۔ٹی وی بندہوا اور میں بے خبرسورہا تھا۔
اذان فجر ہی بیداری کا سبب بنی ۔میں اس رب کا شکریہ اداکرتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا جس نے موت کے بعد زندگی عطا کر دی ۔ کچھ دیر قبل میں بے دست و پا ، بے حس و حرکت تھا جو"چلتا پھرتا" ہو گیا تھا۔بارش ابھی تک تھمی نہیں تھی مگر خدا کے حکم کے آگے پانی کی بارش تو کیا توپوں کی بارش کو بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ضروریات سے فارغ ہو کر فریضہ نماز اداکر نے کے لیے میں جیسے ہی باہر نکلا، ہواکے تیز جھونکوں نے بدن میں رعشہ پیدا کردیا۔مگر اب قدم اٹھ چکے تھے جو خدا کے گھر ہی جاکر تھمے۔یہ نفس اور شیطان پر انسان کی فتح تھی جس نے مزید حوصلہ دیا۔نماز اداکر نے کے بعدبارش کا زور ختم ہونے کا انتظار کرتے ہوئے تلاوت و ذکر اذکارمیں مشغول ہو گیا۔بارش کونا رکنا تھا ،نا رکی ۔کمرے میں آیا کہ ناشتے کا اعلان ہوا اور بعد فراغت ناشتہ سیمینار کے چوتھے سیشن کا آغاز تھا۔
یہ سیشن سیمینار کے اختتامی اجلاس تک چلا ۔ تھکا ہارا دن رخصت ہو رہا تھا جب یہ سیمینار اختتام پذیر ہوا اس کے ساتھ ہی حاضرین واپسی کے لیے رخت سفر باندھ رہے تھے ۔اداسی نے پھر آگھیرا ۔کاش دو ایک دن اور ساتھ رہتا مگر وحسرتا !دون پہلے کی رونق جیسے یک لخت ختم ہو گئی ہو۔رات دھیرے دھیر ے بے کرا ں کائنات کا نرغے میں لیتی آگے بڑھ رہی تھی اور میں اپنے کمرے کی طرف ۔
آج کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔نہ رات نہ موسم نہ کچھ اور ۔بس اداسی ہی اداسی تھی ۔انسانوں کی قربت کا اُنس ختم ہو گیا تھا ۔بس میں تھا اور میری تنہائی ۔ میں بھیڑبھاڑ والے ماحول کا خوگر ہوں ،اکیلا پن مجھے ڈسنے لگتا ہے۔مگرکسی کو پکڑکر تھوڑی نہ بٹھایا جاسکتا ہے۔ ہاں! کچھ دیر تو ایساہو سکتا ہے مگر پوری زندگی تو ایسا ناممکن ہے۔وہ رات شیطان کی آنت کی طرح لمبی ثابت ہوئی۔نیند بھی آج نہیں آرہی تھی ۔رات بھر کر وٹیں بدلتا رہا ۔خداخدا کر کے صبح آئی ۔فریضہ صبح اداکر نے کے بعد میں واپسی کے لیے سامان جمانے لگا ۔یہ سلسلہ ناشتے تک چلتا رہا ۔ناشتے کی میز پر آج میں اکیلا تھا۔دوچار اور تھے جو بعد میں آئے ۔ڈائننگ ہال سے باہر آنے کے بعد میں نے سب سے پہلاکام یہ کیا کہ ٹراویل بیگ اٹھایا اور یونیورسٹی کیمپس سے باہر آگیا ۔اب وہاں کچھ نہیں بچا تھا ۔ وہاں سے بذریعۂ بس "عابڈس"پہنچاجہاں موقر ہفت روزہ "گواہ"کے ایڈیٹر جناب سید فاضل حسین پرویز سے ملاقات ہوئی ۔آپ بہت ملنسا ر اور خورد نواز شخصیت کے مالک ہیں ۔آپ نے میرے ذمے "گواہ" کے لیے "تاریخ راجستھان"پر مشتمل کالم لکھنے کا حکم دیا جو میرے لیے کسی متاع عزیز سے کم نہیں تھا۔میں نے اسے بسرو چشم قبول کیا ۔ نماز مغرب کے بعد اس طویل ملاقات کا سلسلہ ختم ہوا اور یونیورسٹی میں پیدا اداسی کچھ حدتک ختم ہوئی۔ 8:30 بجے حیدرآباد ریلوے اسٹیشن (نام پلّی)پہنچا اور وہاں سے "دکشن ایکسپریس "کا ٹکٹ لے کر پلیٹ فارم پر آیا۔مذکورہ گاڑ ی یہیں سے روانہ ہوتی ہے مگر اس دن 2 گھنٹے تاخیر سے روانہ ہوئی۔ رفتار اتنی سست کہ چیونٹی بھی اس سے آگے نکل جائے۔زندگی میں پہلی بار کسی ایسی "مہابور " گاڑی سے واسطہ پڑاتھا۔اتنی واہیات گاڑی تھی کہ مولوی اسما عیل میرٹھی اگر زندہ ہوتے تو کہتے :
گھنٹو ں کی منزلوں کو ہفتے میں اس نے کاٹا
بس جناب !جان سلامت تھی جو 40گھنٹوں کے طویل سفر کے بعد میں بخیر و عافیت نئی دہلی پہنچ گیا ۔جہاں متعدد ذمے داریاں میرا انتظار کر رہی تھیں چنانچہ میں آج کل ان ہی سے نبرد آزماہوں۔


***
imranakifkhan[@]gmail.com
موبائل : 9911657591
85 ، ڈیگ گیٹ گلپاڑہ، بھرت پور (راجستھان)۔
عمران عاکف خان

2-days Seminar on Ibne-Safi in MANUU. Article: Imran Akif Khan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں