آتش رفتہ کا سراغ - ایک جائزہ - ڈاکٹر تسنیم فاطمہ امروہوی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-09-07

آتش رفتہ کا سراغ - ایک جائزہ - ڈاکٹر تسنیم فاطمہ امروہوی

"حقیقت میں جمہوریت اس کو کہتے ہیں، جس میں آپ نہ تو غلام بنیں اور نہ ہی کسی غلام کا مالک بننے کی خواہش رکھیں۔۔۔"
(ابراہم لنکن)

ابھی میں "لے سانس بھی آہستہ" کے سحر میں گم تھی کہ مشرف عالم ذوقی نے ایک اوربڑا ناول "آتش رفتہ کا سراغ" اردو ادب کے حوالہ کردیا۔ لے سانس بھی آہستہ جیسا وسیع کینوس کا نال 2011 میں منظر عام پر آیا اور 4 فروری 2013 کو 720 صفحات پر مشتمل آتش رفتہ کا سراغ کا اجرا عمل میں آیا۔ 67 برسوں کی درد ناک داستان۔۔۔ ہندستانی مسلمانوں کی آب بیتی۔ "آتش رفتہ کا سراغ" میرے ہاتھوں میں ہے۔ ذوقی صاحب کے اس شاہکار کو پڑھنے کے بعد میں یہ مضمون لکھنے کو مجبور ہوئی اور میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ منٹو، عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر کے بعد ادب کے تابوت میں چوتھی کیل۔۔۔ کون ٹھوکے گا؟
اب ہمیں 'آگ کا دریا' سے نکل کر اس آگ کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے جو ہمارے ذہنوں میں لگی ہوئی ہے۔ جس کی تپش ہماری شناخت کو پگھلا رہی ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ آگ کے دریا سے آگے کا سفر کیا جائے۔ "آتش رفتہ کا سراغ" جس میں آگ ہی آگ ہے یعنی ہمارے وقت کا کتنا بڑا المیہ پوشیدہ ہے۔ ذوقی صاحب نے کس درد مندی اور جرأت سے اپنے وقت کی بھیانک داستان کو ہم تک پہنچانے کی کوشش کی ہے وہ بھی اس نازک ماحول میں جہاں صورت حال یہ ہے کہ دہلی کی بس میں اجتماعی عصمت دری کا سانحہ ناقابل برداشت تھا۔ جب تک مجرم پکڑے نہیں گئے میرے حواس باختہ تھے کہ اگر کوئی داڑھی والا۔۔۔؟ تو میڈیا اور پولس اس کو مسلمان بنا کر پیش کرے گی۔ اور اگر سچ میں کوئی سر پھرا مسلمان ہوا تو تمام عصمت دری معاملے کی گاج مسلمانوں پر گرے گی۔ سانسیں اٹکی ہوئی تھیں۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور جب پانچوں مجرموں کی شناخت ہوگئی تو میں نے چین کی سانس لی۔ اللہ تیرا شکر ہے کہ کوئی مسلم نہیں تھا۔ ذوقی صاحب نے آزادی کے 67 برسوں کی تاریخ میں مسلمانوں کا کس طرح استعمال کیا گیا یا شکار کیا گیا، تہذیب و تاریخ کے ایک بڑے المیے کو آج کے ماحول کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے اس طرح پیش کیا ہے کہ ناول کی داستان کا ہر کردار اپنے آس پاس نظر آنے لگتا ہے۔۔۔ یہ ناول مسلمانوں کے کرب کو بیان کرتا ہے۔ ذوقی صاحب نے پہلے بھی مسلمانوں کے مسائل پر اپنی تخلیقات قارئین کے حوالے کی ہیں لیکن اس ناول میں وہ مسلمانوں کے لیے کافی فکر مند نظر آتے ہیں۔۔۔ اس ناول کے ذریعہ انہوں نے کئی سوالات اقلیت کے حوالے سے اٹھائے ہیں جن کا جواب نہ تو سیاستداں دے سکتے ہیں اور نہ ہی سوشل ریفارمرز یہاں تک کہ مذہبی پیشوا بھی گونگے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ سوالات ذہنوں میں انقلاب برپا کرنے کے لیے بے حد ضروری ہیں تاکہ سوئے ہوئے انسان سوچنے اور غور کرنے پر مجبور ہوجائیں۔
2004 میں "پوکے مان کی دنیا" ایک عظیم فن پارہ کی تخلیق کر ذوقی صاحب نے نئی نسل کا نفسیاتی جائزہ لیا تھا۔ انڈا ٹوٹنے والا ہے ایک نئی تہذیب جنم لینے والی ہے۔ وقت کے بدلتے ہوئے تیوروں کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہوں نے بچوں کی نفسیات میں تیزی سے آئی تبدیلی کا تجزیہ پیش کیا۔ 'پوکے مان کی دنیا' کو پڑھنے سے پہلے میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ آنے والی تہذیب کا چہرہ اتنا خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں مجھے آتش رفتہ کا سراغ کے حوالے سے اپنی بات کرنی ہے۔۔۔ یہ ناول عالمی اردو دنیا میں پڑھا گیا ہوگا مجھے نہیں معلوم کس کا رد عمل کیا ہے اور کس کی رائے میں یہ ناول کیسا ہے۔ لیکن میرے نزدیک یہ ناول کی دنیا میں ایک روشن قندیل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ناول کی ابتدا بابری مسجد کے فیصلے سے ہوتی ہے۔ تین حصوں میں ناول "آتش رفتہ کا سراغ" کی کہانی اس وقت کے بڑے مسئلے دہشت گردی کی ہے جس کو ذوقی صاحب نے اپنے تجربوں کی آگ میں تپا کر پیش کیا ہے۔ یہ ناول ہندستانی مسلمانوں کی 2 ہزار برسوں کی تاریخ کا احاطہ کرتا ہے۔ کیسے 25 کروڑ کی آبادی اقلیت کے لیبل کے ساتھ سہمی ہوئی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ فرضی انکاؤنٹرس اور نا انصافیوں کاذکر ناول میں کھل کر کیا گیا ہے۔ ایک وسیع کینوس پر مسلمانوں کی آپ بیتی کو لکھ کر ذوقی صاحب نے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ بھگوا آتنک واد کے خلاف شاید یہ ہندستانی زبان کا پہلا ناول ہے، جس میں تفصیل سے مسلمانوں کو شکار بنائے جانے کی واردات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس وقت ملک میں مسلمانوں کی جو صورت حال ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی ہوئی نہیں ہے لیکن ایک بڑے تناظر میں مسلمانوں کے مسائل کو اٹھانا آسان نہیں ہے۔۔۔ ذوقی صاحب نے جس حوصلہ کا اظہار اس ناول میں کیا ہے وہ حوصلہ آج کے ادیبوں میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔ مسلمانوں کے مسائل پر جس سیکولر فکر کے ساتھ ذوقی صاحب کی تخلیق ہمارے سامنے آئی ہے میں سمجھتی ہوں کہ اردو ادب میں اس کی اشد ضرورت تھی۔۔۔ یہ ناول اپنے عہد کا دستاویز ہے۔ ملک کی جمہوریت کا اندازہ اس ناول کی تحریر سے با آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ ذوقی صاحب جو کچھ تخلیق کررہے ہیں، ایسی تحریر کسی اور ملک میں یا پڑوسی ملک میں لکھا جانا شاید ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ اعتراف ناول کے Back Page پر اس طرح سے کیاگیا ہے:
"میں نے ابھی ابھی اس ناول کو ختم کیا ہے اور میں ابھی بھی اس کے سحر میں گم ہوں۔ کہنا مشکل ہے کہ اس ناول کے سحر سے کب باہر نکل سکوں گا۔ اس ناول کو لکھنا آسان نہیں تھا۔ پاکستان میں ہم ایسے ناولوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ مجھے نہیں خبر کہ آپ کو اس کے لکھنے کا حوصلہ کہاں سے ملا۔"
یونس خاں (پاکستان)
ذوقی صاحب نے ناول کے ذریعہ برسراقتدار طبقے کے ظلم تشدد، کچلے ہوئے مسلمانوں کی سچی تصویر، مذہبی پیشواؤں کی حقیقت، سیاسی شخصیات کے موکھوٹوں، ثقافتی اور قانونی اداروں کے کھوکھلے پن اور ان کے سربراہوں کی غلامانہ ذہنیت کو پیش کیا ہے۔ یہ ناول جامعہ یا بٹلہ ہاؤس میں جو کچھ ہوا اس سے شروع ہوتا ہے اور پھر عالمی مسائل، دہشت گردی کو اپنا موضوع بناتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ارشد پاشا بار بار اپنے ماضی کے گلیاروں میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ Flash Back ناول کی ضرورت بھی ہے اور ہندستان تہذیب کی عکاسی کا ذریعہ بھی ساتھ ہی قاری کو اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتا۔۔۔ یہ تبدیلی ناول کو Readable بناتی ہے۔ جس طرح تاریخی ناول لکھنا آسان نہیں ویسے ہی کسی قاری کے لیے پڑھنا بھی آسان نہیں۔ دیکھئے یہ جملے :
"وہ خوفناک رات
تب فیصلہ نہیں آیا تھا۔۔۔ فیصلہ آنے والا تھا۔
اور ملک کے ایک سو دس کروڑ عوام کی طرح مجھے بھی اس فیصلہ کا احترام کرنا تھا۔"
(ص25)
اور پھر ایک بے حد عام سا بچہ اسامہ پاشا کا چہرہ ابھرتا ہے اور دوسرا چہرہ اس کے گھبرائے ہوئے باپ کا جو اپنے بچے کے چہرے پر اگنے والے خطرے کو لے کر پریشان ہوجاتاہے کیوں؟ کیوں کہ اس کا بچہ شباب کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا جبکہ مسلمان بچوں کو جوان نہیں ہونا چاہئے ایک باپ اپنے بچے کے لباس اور طور طریقوں میں آئی تبدیلی سے خوف زدہ رہنے لگتا ہے اور پھر یادوں کے سلسلے، ماضی کے آئینے سے دھول صاف ہوتی ہے اور پاشاؤں کی کوٹھی ابھرتی ہے۔ دیکھئے یہ سطور :
"پاشاؤں کی کوٹھی۔۔۔
یاد کروں تو آنکھوں کے پردے پر ایک خستہ حال عمارت کے نقوش ابھرتے ہوئے مجھے اپنی قید میں لے لیتے ہیں۔ کچھ آوازیں ہیں جو اچانک میرا راستہ روک لیتی ہیں۔۔۔"
(ص 26)
ماضی کی دھند میں گم ارشد پاشا کی خود کلامی کے ذریعہ کہانی آگے بڑھتی ہے اور ایک بڑے وژن کو اجاگر کرتی ہے۔ ایک اشتراکی وجود، ڈر سے سہما ہوا انسان ارشد پاشا کا کردار شروع سے آخرتک بے حد کمزور انسان بنا ہوا ہے۔ کیوں؟ جواب کے لیے دیکھئے یہ اقتباس:
"'پوری دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا اُس کے پیچھے مسلمان ہی ہیں۔۔۔؟'
وہ چیختا ہوا اب بھی میری طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ 'ہر مسلمان میں ایک Terrorist دیکھتے ہیں یہ لوگ۔۔۔'
میری آواز بھی سرد تھی۔۔۔ 'مسلمان ایسی کارروائی کر تے ہی کیوں ہیں۔۔۔؟'
'کیا سچ مچ جو کچھ ہو رہا ہے وہ مسلمان کر رہے ہیں ؟، اس کی آواز سرد تھی۔۔۔ جسم میں اتر جانے والی اور یقیناًاس کی اس سرد آواز نے مجھے ڈرا دیا تھا۔"
(ص 31)
بس یہ بے رحم لفظ Terrorist ہی ناول کا مرکزی خیال ہے اور وقت ناول کاہیرو۔ ارشد پاشا۔ تغلق پاشا، انور پاشا، تاجور پاشا، اجے سنگھ تھاپڑ، بدر، صفدر علی، انسپکٹر ورما، احمد صاحب وکیل اور اسامہ پاشا وغیرہ، نسوانی کرداروں میں رباب، نجمہ، صوفیہ، شمیمہ، آنندی، صبیحہ وغیرہ تو کہانی کے سوتردھار ہیں۔۔۔ کہانی کے ایک سرے کو دوسرے سے جوڑنے والا اصل کردار وقت ہے جو گونگا بہرہ ہے۔ جو مسلمانوں کی بے بسی کہوں، مجبوری کہوں یا مظلومی پر گونگا بہرہ بنا رہتا ہے۔ ارشد پاشا اس کی بڑی مثال ہے جو محض ایک مسلمان کردار نہیں بلکہ ہندستان میں سانس لے رہے کروڑوں مسلمانوں کا کردار ہے۔۔۔ یعنی ارشد پاشا وہ نہ تو اس عاشق کا کردار ہے جو محض عشق ہی کو اپنا مقصد و مدعا جانتا ہے اور نہ اس سیاسی انسان کا جس نے عشق کے جذبے کو حقیر اور غیر سماجی سمجھ کر ترک عشق کا کوئی منصوبہ بنایا ہو۔ اس کا کردار نہ وفاداری سے تعلق رکھتا ہے اور نہ بے وفائی سے پھر بھی حقیقی معلوم ہوتا ہے جس میں محبت کی کسک ملتی ہے۔ تغلق پاشا ماضی کی یادوں میں گھرا رہنے والا انسان۔ پاشاؤں کے سنہرے ماضی کو ذہن میں رکھنے والا انسان۔ کاشی یعنی اپنے شہر سے بے انتہا محبت کرنے والا انسان۔ گنگا جمنا تہذیب کا، محبت و اخوت کا بے مثال کردار۔۔۔ تغلق پاشا کے نزدیک کا شی سے بہتر کوئی جگہ ہی نہیں کیوں؟ کاشی میں ہندو مسلمان مل کر سارے تیوہار مناتے تھے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ چلن کم ہوتا گیا۔ ناول میں تغلق پاشا کے جذبات کی عکاسی اس طرح ہوتی ہے کہ پڑھتے ہوئے پتھر کی آنکھیں بھی اشکبار ہوجائیں۔ کیسے اپنے شاندار ماضی کو یاد کرتے ہوئے کانپ جاتے ہیں۔ اپنے وطن سے محبت، اپنے گھر، خاندان کی عزت وعظمت کو سوچ سوچ کر پریشان رہتے ہیں۔ پاشاؤں کی کوٹھی۔۔۔ ماضی میں اس کوٹھی کی رونق ان کے ذہن پر دستک دیتی ہے۔ انہیں اپنے بھائی تاجور پاشا کی یادبہت ستاتی ہے۔ تغلق پاشا ایک ایسا انسان جس نے اپنے وطن کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھا اور آزادی کی جدو جہد بھی پھر بھی وہ نہیں ٹوٹے۔آزادی کی خوشیاں تقسیم کے درد ناک المیہ کو اپنے دامن میں لے کر آئیں۔ اور اس بٹوارے نے تغلق پاشا کو توڑ کر رکھ دیا۔ جس میں دل بٹے، روح کے ساتھ ساتھ جسم بھی بٹ گئے۔ ملک کیا بٹا سارے رشتے منتشر ہوگئے۔ تغلق پاشا اپنے باپ داداؤں کی قبروں کے مجاور کی طرح یہاں رہ گئے۔ بھائی سے جدائی بھی برداشت کی۔۔۔ تاجور پاشا جو آزادی کے دس برس بعد پاکستان جا بسے وہیں شادی کرلی۔ ماں جائے کے بچھڑنے کا غم وہ جیتے جی کبھی نہیں بھولے۔ جب تاجور پاشا اپنی فیملی کے ساتھ ہندستان آئے تو تغلق پاشا کی خوشی کا ٹھکانانہ تھا۔ لیکن جیسے ہی وہ جانے لگے ان کے صبر کے تمام باندھ ٹوٹ گئے آنکھوں سیلاب سمٹ آیا۔۔۔ دیکھئے یہ اقتباس:
"آنکھیں آنسوؤں کی داستان لکھ رہی تھیں۔۔۔ تغلق پاشا کے جسم سے جیسے کسی نے سارا لہو نچوڑ لیا ہو۔۔۔ کیا کہیں شائمہ کو۔۔۔ کیا جواب دیں۔۔۔ تاریخ کے رتھ نے چلتے چلتے جو منزل پائی ہے، اس کی وضاحت کیا کریں۔۔۔ آنکھیں جھکالیں۔۔۔ روتے روتے تاجور پاشا کی بھی آنکھیں پھول گئی تھیں۔۔۔ اب اپنی غلطی کا احساس تو ہوتا ہے بھیا۔۔۔ مگر۔۔۔ آواز درد میں ڈوب جاتی ہے۔۔۔ مگر اب بہت دیر ہوچکی ہے۔۔۔ بہت دیر۔۔۔ جیسے برسوں بعد ایک خاندان میں بٹنے کے بعد میں ملاہوں، پتہ نہیں یہ بچے آپس میں کب ملیں گے؟ کب ملیں گے۔۔۔؟"
اس ناول میں اتنے کردار، اتنے شیڈس اور اتنے ڈائمنشن ہیں کہ ہر ایک پہلو پر تفصیل سے گفتگو کی ضرورت ہے۔۔۔ ایک طرف مسلمان کو بدنام کرنے کا یہودیوں کا مشن مسلم آتنک واد کو عالمی منظرنامہ پر پھیلانا ہے۔کیونکہ یہودیوں کا مقصد قدیم دور سے اسلام دشمنی نبھاتا رہا ہے۔ یہودیوں نے اپنے مشن کا رنگ دنیا کی دوسری قوموں پر بھی غالب کردیا۔ آتنک واد کے بھیانک کھیل میں وہ خود آتنک وادی بن گئے۔ ذوقی صاحب نے اپنے ناول میں کیسے بھگوا آتنک واد کے کپڑے اتارے ہیں بہت ہمت کی بات ہے۔ کرنل پروہت اور سادھوی پرگیہ ٹھاکر اینڈ کمپنی کو جس طرح ہیمنت کرکرے نے پکڑا تو ہندو توا کے علمبرداروں کی دہشت گردی میں آر ایس ایس کا نام سامنے آیا ۔۔۔ اس پر بی جے پی حزب اختلاف پارٹی کے قائدین تلملا کر رہ گئے۔ پارلیمان نہ چلنے تک کی دھمکی دے ڈالی۔اور حکومت ان کے خلاف کچھ نہ کرسکی۔۔۔ بھگوا آتنگ وادیوں نے مسلم نوجوانوں کو انڈین مجاہدین کا کارکن بتا کر گرفتار کرنا اور ثبوت نہ ہونے پر جھوٹے الزام لگا کر بدنام کرنا اپنا مقصد بنا لیا۔ اس کے بر خلاف پختہ ثبوتوں کے ہونے کے باوجود آر ایس ایس اور مسلم دشمن دہشت گردوں کے خلاف صرف بیان بازی اور عمل کے نام پر زیرو۔ میڈیا کے پرو پیگنڈوں کے شکار ہوکر 26/11کے اصلی ماسٹر مائنڈ ڈیوڈ ہیڈلی کی جگہ حافظ سعید پر ساری توجہ مرکوز کرلی۔ ہیڈلی کے جرائم کو چھپانے کے لیے امریکہ نے 26/11کے اصل مجرم ہیڈلی کی جگہ حافظ سعید کو دہشت گرد اور اس کے لیے انعام کا اعلان کیا جس کے سبب ہیڈلی کو بھول کر سب حافظ سعید کی فکر میں لگ گئے ۔۔۔ لیکن بھگوا آتنگ واد سے جب پردا اٹھ گیا تو اب ان کا بوکھلانا واجب تھا۔۔۔ ان کی بوکھلاہٹ کا ایک منظر دیکھئے:
"در اصل جب سے ان کے بھگوا آتنک واد کی قلعی کھلی ہے، یہ بوکھلا گئے ہیں۔ اور یہ چھوٹے چھوٹے بے قصور مسلمان بچوں کو اپنا نشانہ، اپنا ٹارگیٹ بنا رہے ہیں۔ پہلے مدرسہ۔۔۔ پھر اسکول اور کالج میں پڑھنے والے بچے۔۔۔ اور المیہ دیکھیے۔۔۔ اپنا کہیں کوئی بھی نہیں۔۔۔ میڈیا تک عام مسلمانوں کی آواز نہیں پہنچتی۔۔۔ پہنچتی ہے تو جامع مسجد اور امام پشاوری جیسے لوگوں کی، جن کے بارے میں دنیا جانتی ہے کہ یہ لوگ محض مسلمانوں کی سیاست کرنا جانتے ہیں۔۔۔ بٹلہ ہاؤس میں اتنا بڑا حادثہ ہوجاتا ہے اور ہمارے سیاسی رہنما شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ آواز اٹھائی تو حکومت سے ملنے والی شیرینی بند ہوجائے گی۔۔۔ اور ہمارا المیہ کہ ہم ان جیسوں پر ہی منحصر ہیں۔۔۔"
(ص 43۔244)
67 برسوں میں ہندستان کی فرقہ وارانہ تصویرہزار بار ٹوٹی اور بکھری۔۔۔ یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کئی طرح کے طوفانوں سے ٹکرائی اور بننے بگڑنے کا عمل جاری رہا۔ لیکن رام جنم بھولی بازیابی کی تحریر اور بابری مسجد کے انہدام نے یہ صورت پیدا کردی کہ ملک کی سیاسی اور سماجی حالت نئے لہجے اور نئے زاویے سے تجزیہ چاہتی ہے۔ ہندستان کے سیاسی منظرنامے پر جو تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں ان کے آئینے میں ذوقی صاحب کی معلومات مسلمانوں کی حقیقی صورت حال بیان کرتی ہے۔ ذوقی صاحب نے سیاسی شخصیتوں کے موکھوٹوں کو نوچ ڈالا۔۔۔ انہوں نے بڑے بڑے لیڈروں کے چہروں کی نقاب الٹ کے پھینک دی۔ کیسے ہمارے قومی پیشواؤں نے اپنے ضمیر کو دنیا میں Super Power کہلائی جانے والی طاقتوں کے یہاں گروی رکھ چھوڑا ہے۔ ان طاقتوں کے اشاروں پر بڑے بڑے سنگھ بنائے جاتے ہیں اور مسلمانوں کو عالمی نقشے پر Black کرنے کے لیے کیسے کیسے Training Camp چلائے جاتے ہیں۔ دیکھئے یہ اقتباس:
"سواگتم۔۔۔' اشوک نمانی مسکرائے۔۔۔ ہمیں امریکیوں اور یہودیوں سے بھی ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ وہ اپنے لوگوں کو مسلمان بنا کر اس مہم میں اتار رہے ہیں۔ انہیں عربی سکھائی جاتی ہے۔ اسلامی طور طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ داڑھی بنانے اور نماز کی صحیح ادائیگی کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ پھر اُنہیں مہم میں اتار ا جاتا ہے۔۔۔"
(ص 122)
Training Camp میں تیار Products کو مشن کے لیے بھیجا جاتا ہے۔۔۔ مشن میں فیل ہوجانے یا پکڑے جانے پر کیا کرتا ہے، یہ سب بتایا جاتا ہے۔۔۔ ہمارے یہاں سنتری سے لے کر منتری تک سب بکتے ہیں۔ سب کی اپنی اپنی قیمت ہے۔ یہاں پیش کار سے لے کر جج تک، کانسٹیبل سے لے کر کمشنر تک سب کی بول لگتی ہے۔ یہاں مذہبی پیشوا، سیاسی، سادھوی، سنت وغیرہ سیاست کے مہرے ہیں۔ اور لوگ ان کے پیر چومتے ہیں۔ آئے دن جین، رشی منیوں کے آشرم میں عورت کا ویپار ہوتا ہے پکڑے جانے پر یہی سیاسی مہرے اس معاملے کو ہضم کرجاتے ہیں اور کوئی نیا اسکینڈل کوئی دوسرا معاملہ سامنے لے آتے ہیں۔ Mind Divert کرنے کے لیے۔ ناول میں اس طرح کی ایک نہیں نہ جانے کتنی باتوں کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
آتش رفتہ کا سراغ پڑھنے کے بعد یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ کیسے مسلمانوں کی زندگی دوسروں کے بنائے ہوئے راستوں پر رینگتی ہے۔۔۔ مسلمان ذرا سی مشکل میں گھبراجاتے ہیں۔۔۔ کیوں؟ کیوں کہ انسپکٹر ورما اور دشینت جیسے پولس افسر زبردستی تشدد کے بل پر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ طاقت کے بل پر ان سے بیان لیتے ہیں۔ بیان نہ دینے پر ان کے ساتھ جانوروں سے بد تر سلوک کیا جاتا ہے اور آخر میں وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔۔۔ اتنے لاچار و مجبور کہ پولس کی مرضی کا بیان دے دیتے ہیں جس کو ثبوت بنا کر پولس ان کو دہشت گرد بنا کر میڈیا کے حوالہ کردیتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت ایسے پولس افسران کو انعامات سے نوازتی ہے۔ جبکہ ان کے عمل پر ظلم بھی پچھتا تا ہے۔ ناول میں مسلمانوں کو جبراً آتنک وادی بنانے کی داستان سے لے کر پولس کی اصلیت ، سیاسی ہار جیت کے لیے فرقہ وارانہ فسادات برپا کرانے سے لے کر گنگاجمنی تہذیب کے بکھراؤ۔ دو قوموں کے اعتماد و بھروسے کی ماپالی کو پیش کیاگیا ہے۔ 67 برسوں میں ہندستان میں جو کچھ ہوا اور ہورہا ہے۔ 2002 گجرات میں جو ہوا، اس کے انمٹ نقوش انسانیت کی روح پر آج بھی تازہ ہیں۔۔۔ اس طرح کے عمل کو اس عہد کا کھیل تماشا، قصہ یا افسانہ کہا جائے۔۔۔ یا اس عہد کی حقیقت کا ڈراؤنا روپ۔۔۔؟

***
ڈاکٹر تسنیم فاطمہ امروہوی
ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ ، شعبہ اردو
ہاشمی گرلز پی۔جی کالج ، امروہہ
موبائل : 09027703565

رابطہ مشرف عالم ذوقی : 09310532452 , 09958583881

A review of 'Aatish-e-rafta ka suraagh - Musharraf Alam Zauqui' by: Dr. Tasneem Fatima Amrohvi.

2 تبصرے:

  1. ZAUQI SB KA NOVEL TO APNE AP ME MISAL HAE HI US PER KIA GAYA YE TABSARA TAWAQQU SE ZEYADA UMDA AUR PURJOSH HAE IS ME JO EQTEBASAT NOVEL SE PESH KIE GAE HAIN USNE US WAHSHATNAK WADI KI ACHHI KHASI SAIR KARA DI HAE MOBARAKBAD TABSERA NEGAR KELIE BHI AUR PUBLISHER KE LIE BHI.

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. میں نے یہ ناول ابھی پڑھا نہیں کہ حیدرآباد میں یہ دستیاب نہ ہو سکا۔ اب ذوقی صاحب نے اپنی دستخط کے ساتھ بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔ ملنے پر پہلی فرصت میں مطالعہ کروں گا۔

      حذف کریں