آتش رفتہ کا سراغ - بابری مسجد انہدام اور بٹلہ ہاوس انکاونٹر کے تناظر میں ناول - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-06-05

آتش رفتہ کا سراغ - بابری مسجد انہدام اور بٹلہ ہاوس انکاونٹر کے تناظر میں ناول

"آتش رفتہ کا سراغ"
بابری مسجد انہدام اور بٹلہ ہاوس انکاونٹر کے تناظر میں لکھا گیا مشرف عالم ذوقی کا ایک چشم کشا ناول
-- سہیل انجم

بابری مسجد انہدام اور بٹلہ ہاوس انکاونٹر آزاد ہندوستان میں مسلم امہ کی تاریخ کے دو ایسے گہرے زخم ہیں جن سے مسلسل لہو ٹپک رہا ہے اور ٹیس اٹھ رہی ہے اور یہ دو ایسے کاری وار ہیں جو مسلمانوں کے جسم پر نہیں ان کی روح پر لگے ہیں۔ یوں تو آزادی کے بعد لا تعداد مسجدیں شہید کی گئی ہیں اور ہزاروں فسادات میں لاکھوں مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا ہے لیکن مذکورہ دونوں واقعات اپنی سنگینی او راپنے دور رس اثرات کے لحاظ سے انتہائی کربناک اور خونچکاں ہیں۔ اول الذکر واقعہ جہاں مسلمانوں کی دینی شناخت کو ملیا میٹ کر دینے اور ان کے تشخص کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی کوشش سے عبارت ہے وہیں ثانی الذکر واقعہ مسلمانوں کو یہ پیغام دینے کی سعی نامسعود ہے کہ دیکھو سر اٹھا کر چلنے کی کوشش مت کرو ورنہ ایسے ہی واقعات پیش آئیں گے اور تمھاری آنے والی نسلیں ذہنی طور پر گونگی، بہری اور بانجھ پیدا ہوں گی۔ ضرورت تھی کہ دانشوری کی سطح پر ان دونوں واقعات کا تجزیہ کیا جاتا اور ان کی وقوع پذیری کے پس منظر میں کارفرما نیتوں کو بے نقاب کیا جاتا۔ اس کے ساتھ ہی مسلم امہ کو ایسا پیغام دیا جاتا جو اسے حوصلہ شکنی کی اندھی سرنگ سے نکال کر جرات مندی اور آگہی و آگاہی کی شاہراہ پر گامزن کر دے۔ شکر ہے کہ کوئی تو اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں مشعل ایمان و ایقان لے کر آگے بڑھا ہے اور "بیان" اور "آتش رفتہ کا سراغ" نامی تیشے سے مردنی، پژمردگی، شکست خوردگی او رحوصلہ شکنی کا پہاڑ کاٹنے نکلا ہے۔ جی ہاں میں مشرف عالم ذوقی کے ان دو ناولوں کے بارے میں یہی رائے رکھتا ہوں اور اس کا برملا اعلان اور اظہار کرنے میں مجھے کوئی باک اور جھجھک نہیں ہے۔

720 صفحات پر مشتمل ناول "آتش رفتہ کا سراغ" ایک ایسا "آئینہ ہند نما" ہے جس میں سادہ لوح اور سیدھے سچے مسلمانوں کے شب وروز دکھائی دیتے ہیں تو اسلام کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ چھل کپٹ، عیاری، مکاری اور فریب دہی میں طاق نام نہاد مسلم رہنماؤں کی کرتب بازیاں بھی نظر آتی ہیں۔ ایک اصول پرست، ایماندار اور قدروں کے لیے جان تک دینے کا جذبہ رکھنے والا مگر عسرت و تنگ دستی کی زندگی گزارنے والااردو صحافی بھی موجود ہے اور چیختی چنگھاڑتی اور خون میں لت پت سرخیوں کے بل بوتے پر مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرنے والے اور اپنے مفادات کی تکمیل میں ماہر ایسے اردو صحافی بھی ہیں جو صحافت کے نام پر بدنما داغ ہیں۔ ہر چیز کو خبر بنا کر بیچنے اور انسانیت کو رسوا کرنے والے میڈیا کی کارستانیاں بھی ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر حکومت و انتظامیہ میں منظم اور خفیہ طریقے سے درانداز ہو جانے اور تمام کلیدی پوزیشنوں پر فائز ہو جانے والے سنگھ پریوار کے لیڈر، کیڈر اور عہدے دار بھی دکھائی دیتے ہیں جو درپردہ طور پر مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑے ہوئے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اتنے مکار اور چالاک ہیں کہ ان کے نمائندے مسلمانوں میں گھس کر آر ایس ایس کا کام کرتے ہیں لیکن کسی بھی لمحے میں یہ احساس نہیں ہونے دیتے کہ ان کے چہروں پر ماسک لگے ہوئے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ناول میں ایک ایسا کردار بھی ہے جو منظر پر بس چند مکالموں کے لیے آتا ہے لیکن اس کی ذات پورے ناول پر چھائی ہوئی ہے۔ ناول نگار در اصل اس کیرکٹر کے سہارے مسلمانوں کا ایک مثالی اور حقیقی کردار پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پوری دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ دیکھو حقیقی مسلمان ایسا ہوتا ہے اور اسے ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اس کا ذکر آگے آئے گا۔

ناول کا آغاز بٹلہ ہاوس انکاونٹر سے چند روز قبل کے واقعات سے ہوتا ہے۔ پھر ایک معمولی واقعہ کو بہانہ بنا کر دو لڑکوں کا انکاونٹر کیا جاتا ہے۔ بٹلہ ہاوس جامعہ نگر کے ساتھ ساتھ پوری دہلی اور پھر پورے ملک کے مسلمان ایک عجیب و غریب کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ناول کا مرکزی کردار وارانسی کا ایک سیدھا سادا اور ایماندار اردو صحافی ارشد پاشا ہے جو قاری کو آزادی کے بعد مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے خوں چکاں واقعات کی سیر کراتا ہے اور بالخصوص رام مندر تحریک کے نام پر پورے ملک کو نفرت و کشیدگی اور فسادات کے جہنم میں جھونک دینے کی مہم کا گواہ بنتا ہے اور پوری دنیا کو بناتا بھی ہے۔ ارشد پاشا کا ایک غیر مسلم دوست اجے سنگھ تھاپڑ ہے جو اسے وارانسی سے دہلی آنے کے لیے بہ اصرار تیار کرتا ہے تاکہ یہاں اسے بہتر مواقع حاصل ہوں اور ارشد پاشا پہلے کسی اور علاقے میں کچھ دن رہائش اختیار کرنے کے بعد بٹلہ ہاوس میں رہنا شروع کر دیتا ہے۔ تھاپڑ اس کا قدم قدم پر ساتھ دیتا ہے، اس کی مشکلات حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اعصاب کو جکڑ دینے والے لمحات میں اس کی ڈھارس بندھاتا ہے۔ دونوں میں گھریلو رشتہ قائم ہوتا ہے اور تھاپڑ ارشد کے لیے اور اس کی بیوی ارشد کی بیوی کے لیے ڈھال بنے رہتے ہیں۔ جب ارشد اس کی شکایت کرتا ہے کہ آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ دشمنوں اور غیر ملکیوں جیسا سلوک ہوتا ہے اور یہ کہ ان کی دینی شناخت کو مٹانے کی منظم مہم اس ملک میں چل رہی ہے تو تھاپڑ اس کی تائید کرتا ہے اور اشاروں کنایوں میں حکومت کے اہلکاروں، سنگھ پریوار اور میڈیا کو اس کا ذمہ دار ٹھراتا ہے۔

بٹلہ ہاوس انکاونٹر سے قبل پولیس والے جو فضا بناتے ہیں اس میں ارشد کے سولہ سالہ بیٹے اسامہ کے ساتھیوں کو موہر ا بنایا جاتا ہے اور پھر انہی میں سے دو لڑکوں کا انکاونٹر کر دیا جاتا ہے اور بعد میں تیرہ لڑکوں کو گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جاتا ہے۔ اسامہ جو کہ بلوغت کی دہلیز پر ہے اس کے دماغ میں اتھل پتھل مچی ہوئی ہے۔ اس بات کا ذکر یہاں کر دینا ضروری ہے کہ ارشد روزہ نماز کا پابند نہیں ہے مگر اس کی بیوی اور اس کا بیٹا مذہبی رجحانات رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ارشد کو اسلام اور مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔البتہ وہ نمائشی مسلمان نہیں ہے۔ آگے چل کر اور حالات سے مجبور ہو کر وہ بھی نماز کا پابند ہو جاتا ہے۔ انکاونٹر کے دوران جب ان لڑکوں کے ساتھیوں کی تلاش شروع ہوتی ہے تو ارشد اور اس کی بیوی اسامہ کے سلسلے میں بہت زیادہ پریشان ہو جاتے ہیں اور اسامہ کے اندر جو اتھل پتھل مچی ہوئی ہے ا س کے اندر غصے کا جو لاوا پک رہا ہے اس پر وہ بہت زیادہ تشویش زدہ ہو جاتے ہیں کہ وہ پتہ نہیں کیا کر بیٹھے۔ کیونکہ وہ بار بار کہتا ہے کہ اس کا اور اس کے ساتھیوں کا کیا قصور ہے، انھیں کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، کیا کرتا ٹوپی پہننا اور داڑھی رکھنا جرم ہے، کیا روزہ نماز کی پابندی جرم ہے، کیا ہندوستان میں مسلمانوں کا رہنا جرم ہے؟ ایسے موقع پر تھاپڑ ان لوگوں کو سہارا دیتا ہے اور اسامہ کو یہ کہتے ہوئے اپنے گھر لے جا کر کچھ دنوں کے لیے رکھتا ہے کہ وہاں وہ کچھ پرسکون رہے گا اور حالات ٹھیک ہو جانے کے بعد وہ واپس آجائے گا۔

ناول کئی بار ارشد پاشا کو ماضی میں لے جاتا ہے۔ اس کے والد جو کہ ایک سرکاری ملازم ہیں پاکستان کی تشکیل کو مسلمانوں کے حق میں مضرت رساں تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان بننے کی وجہ سے ہی ہندوستانی مسلمانوں پر آفت آئی ہوئی ہے۔ بابری مسجد رام مندر تحریک کی آڑ میں ملک پر فرقہ وارانہ بلکہ مسلم کش فسادات کا عذاب مسلط کر دیا گیا ہے۔ ملک کا پولیس محکمہ سنگھ پریوار کے لوگوں سے بھرا ہوا ہے جو حکومت کے نہیں سنگھ کی اعلی قیادت کے اشارے پر کام کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں۔ اچانک اسامہ غائب ہو جاتا ہے۔ انتظار کرنے کے بعد اس کی تلاش شروع ہوتی ہے۔ مگر وہ کہیں نہیں ملتا۔ پولیس بھی اس کو ڈھونڈنے میں ناکام رہتی ہے۔ اس کی ماں کی حالت غیر ہو جاتی ہے۔ تھاپڑ ارشد کو لے کر نکلتا ہے اور تلاش و جستجو میں پتہ چلتا ہے کہ وہ کبھی مندورں کے اس شہر میں دیکھا گیا تو کبھی مندورں کے اس شہر میں۔ یہاں تک کہ وہ اجودھیا بھی گیا، عارضی رام مندر کے پاس لوگوں کی خدمت کی۔ ہر جگہ اس نے اپنا نام بدلا مگر اپنی شناخت چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ سادھووں کے درمیان رہتا۔ ان کی خدمت کرتا، ان کے دل جیتتا اور ان کے مندروں اور اکھاڑوں میں باضابطہ پنج وقتہ نماز بھی ادا کرتا۔ سادھو سنت اس کے اخلاق کے دیوانے ہو جاتے ہیں اور اس سے جتنا پیار کرنے لگتے ہیں شائد خود سے بھی نہیں کرتے۔ سادھووں اور شنکراچاریوں کے مطابق اوپر والے نے اسے کسی بڑے کام کے لیے بھیجا ہے اور وہ کیا بڑا کام کرے گا یہ وقت بتائے گا۔ یہ ساری باتیں ارشد اور تھاپڑ کو اس وقت معلوم ہوتی ہیں جب وہ اس کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ لیکن ناول ختم ہو جاتا ہے او روہ اسے تلاش نہیں کر پاتے۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں وہاں اسامہ خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دینے والی کوئی کہانی چھوڑ کر آگے بڑھ چکا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا کردار ہے جو پورے ناول پر حاوی ہے۔ اور آخر میں جا کر پتہ چلتا ہے کہ وہ صرف ناول پر ہی نہیں بلکہ سنگھ پریوار کے دل و دماغ پر بھی حاوی ہو گیا ہے۔

یوں تو کئی ایسے مقامات آتے ہیں جب قاری کو چونکنا پڑتا ہے۔ لیکن ناول کا آخری باب تو قاری کو حیرت و استعجاب کے سمندر میں غوطے لگانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ در اصل وہ اجے سنگھ تھاپڑ جو وارانسی سے لے کر دہلی تک ارشد پاشا کا بہت اچھا دوست ہوتا ہے، آڑے وقتوں میں اس کے کام آتا ہے، مشکل گھڑی میں اس کے لیے ڈھال بن جاتا ہے، آخر میں آر ایس ایس کا ایک بہت بڑا کارکن ثابت ہوتا ہے جو اپنی شناخت چھپائے ارشد کی زندگی میں اس طرح داخل رہتا ہے جیسے وہ اس کا سگا بھائی ہو۔ تھاپڑ آخر میں ارشد پاشا کو اپنے دفتر میں ایک بند گاڑی میں منگواتا ہے اور جب ارشد وہاں اس کی حیثیت دیکھتا ہے تو اس کے پیروں تلے زمین کھسک جاتی ہے۔ وہاں تھاپڑ اس کا دوست نہیں دشمن ثابت ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ ارشد میں تو سنگھ کا آدمی ہوں اور تمھارے بیچ تمھارا دوست بن کر اس لیے رہ رہا تھا تاکہ میں مسلمانوں کو سمجھ سکوں۔ کیونکہ ہمیں جن لوگوں پر حکومت کرنی ہے جب تک ان کو اچھی طرح سمجھیں گے نہیں، ان کی خوبیوں ، خامیوں اور کمزوریوں او ران کی نفسیات سے واقف نہیں ہوں گے ان پر کیسے حکومت کر پائیں گے۔ پھر وہ طعنہ زنی کرتا ہے کہ تم لوگوں نے ہندوستان پر حملہ کیا، ہم لوگوں کو غلام بنایا اور ہمارے کلچر اور ہماری تہذیبوں کو تباہ کیا۔ ہم آریہ ورت بہت بھولے اور سادہ لوح تھے اور تم مسلمانوں نے ہماری اسی خاصیت کا فائدہ اٹھایا۔ اب ہمارا نمبر آیا ہے اب ہم تم مسلمانوں کو غلام بنا کر رکھیں گے اور تمھیں ہمارے اشاروں پر چلنا ہوگا اور ہمارے ہی اشاروں پر اپنی زندگی گزارنی ہوگی۔

لیکن یہاں تھاپڑ ایک ایسی بات کہتا ہے جو ایک بار پھر قاری کو چونکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم لوگ تم مسلمانوں پر فتح پانے کے بالکل قریب تھے کہ تمھارے بیٹے اسامہ نے ہمارا سارا کھیل بگاڑ دیا، ہمارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ وہ وہی کچھ کرنے لگا جو ہم کر رہے تھے۔ البتہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اپنی شناخت چھپا کر کر رہے ہیں مگر وہ اپنی شناخت کے ساتھ سادھو سنتوں کی خدمت کر کے ان کے دل جیتنے لگا۔ وہ ہمارے لیے ایک چیلینج ہے۔ ہم اسے سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ وہ کر کیا رہا ہے۔ ہم اسے سمجھنا چاہتے ہیں۔ جب ارشد پاشا اس سے پوچھتا ہے کہ کیا تم لوگ اسے مار دوگے تو وہ کہتا ہے کہ نہیں۔ ہم اسے مار ہی نہیں سکتے کیونکہ اگر مار دیا تو پتہ کیسے چلے گا کہ وہ کیا کر رہا ہے، کیا کرنا چاہ رہا ہے۔ ذوقی نے بہت سوچ سمجھ کر ارشد کے بیٹے کا نام اسامہ رکھا ہے۔ انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر کسی کا نام اسامہ ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دہشت گرد ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ "میرا نام خان ہے مگر میں دہشت گرد نہیں"۔ اسامہ نامی شخص بھی ایک پکا سچا اور انسانیت سے پیار کرنے والا اور خلق خدا کی خدمت کرنے والا انسان اور مسلمان ہو سکتا ہے۔ جو لوگ مسلمانوں اور اسلام کے نام سے دہشت گردی کو جوڑ رہے ہیں وہ بہت بڑی غلطی پر ہیں اور انھیں اپنی اس غلطی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

اس طرح یہ پورا ناول آزاد ہندوستان کی تاریخ میں مسلمانوں کے ساتھ کھیلے جانے والے خفیہ مگر خطرناک کھیل کو اس طرح بے نقاب کرتا ہے کہ سب کچھ آئینہ ہو جاتا ہے۔ اس میں ذوقی صفدر علی کے حوالے سے نام نہاد اردو صحافیوں کی، جو جذبات کا کاروبار کرتے ہیں اور بلیک میلنگ میں ماہر ہیں، قلعی کھولتے ہیں اور اخباروں کو کس طرح راجیہ سبھا کی رکنیت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اس کو بھی بے نقاب کرتے ہیں۔ وہ میر صاحب اور دوسروں کے توسط سے مسلم سیاست کے نام پر اپنا حلوہ مانڈہ سیدھا کرنے والوں کی خبر لیتے ہیں اور بابری مسجد کی اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کرنے والے فیصلے کی روشنی میں عدلیہ کے اصولِ انصاف پر طنز کرتے ہیں۔

اس وقت دہشت گردی کی آڑ میں عالمی سطح پر مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا ہے او رجہاں کہیں کوئی واردات ہوتی ہے فوراً مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ یہاں کا میڈیا سنگھ پریوار کے ہاتھ کی کٹھ پتلی ہے ، اس کے کھیل میں دوش بہ دوش شریک ہے اور وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کر رہا ہے جو سنگھ پریوار کے لوگ کر رہے ہیں۔ میڈیا نے سنگھ پریوار اور پولیس محکمہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے اوپر دہشت گرد ہونے کا ٹھپہ لگا دیا ہے۔ آج پوری دنیا میں دہشت گردی مخالف کارروائی کے نام پر مسلمانوں کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آج کوئی اس خوف سے بولنے کو تیار نہیں ہے کہ کہیں اس کے اوپر بھی دہشت گردی کا الزام نہ لگ جائے۔ منافقت کی ایسی ہوا چلی ہے کہ بڑے بڑے دانشور اڑے چلے جا رہے ہیں۔ مشرف عالم ذوقی نے یہ ناول لکھ کر جس جرات و حوصلے کا ثبوت دیا ہے وہ قابل تعریف ہے اور اس کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔ انھوں نے ناول لکھنے کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے جو ابتدائیہ لکھا ہے وہ خود اپنے آپ میں ایک ناولٹ یا ایک مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔

آج عالمی سطح پر مسلمانوں کی جو صورت گری کر دی گئی ہے وہ تکلیف دہ بھی ہے اور تشویشناک بھی ہے۔ ذوقی نے ناول کے شروع میں جو پہلا پیراگراف لکھا ہے وہ مسلمانوں کی عالمی حیثیت کا ایک ایسا بیانیہ ہے جو خون کے آنسو رلاتا ہے۔ "قیصر و کسری کو فتح کرنے والوں کے نام دہشت گردی کی مہر لگا دی گئی۔ سائنسی انقلابات نے ارتقا کے دروازے تو کھولے لیکن ڈی این اے اور جینوم سے زیادہ شہرت اے کے 47 اور اسلحوں کو ملی۔ ایک زمانے میں جہاں علوم و فنون کے لیے برٹنڈ رسل جیسے دانشور بھی مسلمان سائنس دانوں کی مثالیں دیا کرتے تھے وہاں دیکھتے ہی دیکھتے مغرب نے جیش، لشکر، ظواہری اور اسامہ بن لادن کے نام جپنے شروع کر دیے۔ انحطاط اور ذلت کی حد یہ ہے مسلسل مسلمانوں کو اپنی وفاداری اور حب الوطنی کی شہادت پیش کرنی پڑ رہی ہے"۔
آتش رفتہ کا سراغ محض ایک ناول نہیں ایک عہد کا بیانیہ ہے اور اس عہد میں جینے والے مسلمانوں پر جبر و قہر کی دل دوز اور دل شکن داستان ہے۔ یہ وقت اور حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ :اک جبر وقت ہے کہ سہے جا رہے ہیں ہم، اور اس کو زندگی بھی کہے جا رہے ہیں ہم۔

اس ناول کی قیمت سات سو (700) روپے ہے اور اسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، کوچہ پنڈت، لال کنواں دہلی نے، ساشا پبلی کیشنز، تاج انکلیو، گیتا کالونی دہلی 21 کے زیر اہتمام شائع کیا ہے۔

***
سہیل انجم - 370/6A ، ذاکر نگر، جامعہ نگر، نئی دہلی - 110025 ، فون نمبر: 09818195929, 09582078862
رابطہ مشرف عالم ذوقی : 09310532452 , 09958583881

A review of 'Aatish-e-rafta ka suraagh - Musharraf Alam Zauqui' by: Sohail Anjum.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں