مالی اعانت کامقصد مدارس میں مداخلت نہیں - اقلیتی امور وزیر عارف نسیم خان کی وضاحت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-09-11

مالی اعانت کامقصد مدارس میں مداخلت نہیں - اقلیتی امور وزیر عارف نسیم خان کی وضاحت

ریاستی حکومت نے مدارس سے متعلق جو سرکاری مالی اعانت کی اسکیم کو منظوری فراہم کی ہے اس کا مقصد مدارس میں مداخلت نہیں ہے، نہ ہی ہم نے مدرسہ بورڈ کا قیام عمل میں لایاہے اس قسم کی وضاحت آج وزیر برائے اقلیتی امور ونگراں عارف نسیم خان نے جمعیۃ علماء کے زیر اہتمام منعقدہ ایک اہم نشست میں کی ہے، انہوں نے کہاکہ ہم نے اردو میڈیم اسکولوں کی طرز پر مدارس کو بھی سہولت کے نام پر فی کس2لاکھ روپیئے جدید کاری اور عصری علوم کیلئے فراہم کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ اسے منظوری بھی مل چکی ہے، اسے منظوری ملنے کے بعد ہی فرقہ پرست جماعتوں نے سرکار پر تنقیدیں کرنا شروع کردیاہے، مجھے ان تنقیدوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔البتہ مدارس میں حکومت کی اسکیم سے متعلق جو غلط فہمیاں ہیں اس کا ازالہ کرنا بھی ضروری ہے جو اسکیم ہم نے تیاریاں کی ہے اوراسے منظور کرلیا گیاہے اس میں وہی مدارس شریک ہوسکتے ہیں جو سرکاری رعایت و مراعات حاصل کرنے کیلئے درخواست دے گا۔ریاست میں کئی مدارس ایسے ہیں جو بنیادی سہولت سے بھی محروم ہیں، یہاں بیت الخلاء ودیگر ضروری انتظامات نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ ہمارے مدارس مخیر حضرات اور اہل خیر کے تعاون سے جاری ہے،ان مدارس میں حکومت کی امدادپر مختلف غلط فہمیاں لوگوں میں ہیں۔ مجوزہ مسودہ سے متعلق عارف نسیم خان نے بتایاکہ جو اسکیم منظوری کی گئی ہے اس کے حاصل کرنے کیلئے5شرائط بھی نافذ کی گئی ہیں ان شرائط پر مدارس کے پورا اترنے کے بعد ہی اسے مالی مراعات فراہم ہوگی۔ یہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں۔ مدارس کا چیریٹی کمیشن اور وقف بورڈ میں سے کسی ایک میں رجسٹرڈ ہو، مدارس کا قیام جس مقام پر ہے جو جگہ سے متعلق دستاویزات بھی ضروری ہے، ٹرسٹیوں کی تقرری کی اسناد چیئر یٹی کمیشن یا وقف کی فراہم کردہ جمع کرناہوگی، ان مدارس کو درخواست دینی ہوگی جو سرکاری مراعات کے خواہ ہیں، یہ تمام شرائط پوری کرنے کے بعد مدارس کو جدید کاری کے نام پر سالانہ 2 لاکھ روپیئے فراہم کئے جائیں گے۔ وزیر برائے اقلیتی امور عارف نسیم خان نے کہاکہ مدارس کے تعلیمی نظام یا دیگر معاملات میں ریاستی حکومت قطعی کوئی مداخلت نہیں کرے گی نہ ہی وہ اپنے طورپر اساتذہ و غیر مقررکرے گی۔ مدارس اگر حکومت سے مدد لینا چاہتا ہے تو وہ اپنے انتخاب کئے ہوئے اساتذہ مدارس میں رکھ سکتا ہے اس کیلئے شرط یہ ہے کہ وہ مدارس عصری علوم پڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہو اور بی ایس سی بی ایڈ یا ڈی ایڈ ہو۔ ایسے اساتذہ کو ہی عصری علوم پڑھانے کی اجازت ہوگی، اس کی تنخواہ اور بی ایڈ کی8ہزار ہوگی۔ ہم نے جو بھی مسودہ تیار کیا ہے اس میں کہیں اس کا تذکرہ نہیں ہے کہ مدارس میں سرکاری مداخلت ہوگی یا ایسی کوئی گنجائش رکھی گئی ہے ۔ اس کے بعد حاضرین نے نسیم خان سے سوالا ت کئے جس کا وزیر موصوف نے تشفی بخش جواب دیا۔ اس اہم نشست سے خطاب کرتے ہوئے جلسہ کے صدر اور جمعیۃ علماء مہاراشٹرا کے صدر مولانا مستقیم احسن اعظمی نے مدرسہ کوفراہم اسکیموں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ مدارس کے فلاح کے لئے حکومت نے پیش قدمی کی ہے اور اس جانب بھی توجہ دی ہے ۔ وزیرموصوف نے ہمیں اس اسکیم سے متعلق غلط فہمیاں بھی دور کی ہیں لیکن ہم اس معاملہ میں اپنا کوئی فیصلہ صادر نہیں کرتے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا ارشد مدنی کے مشورے کے بعد ہی جمعیۃ علماء ہند اس معاملہ پر کوئی فیصلہ کرے گی۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں