عالم اسلام داخلی خطرات سے دوچار - ملیشیائی وزیراعظم نجیب رزاق - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-09-30

عالم اسلام داخلی خطرات سے دوچار - ملیشیائی وزیراعظم نجیب رزاق

اقطاع عالم میں آباد مسلمانوں کو انتہاپسندوں کے خلاف متحد ہوجانا چاہئے جو تشدد کیلئے اسلام کو جواز بناکر پیش کررہے ہیں۔ ملائیشیائی وزیراعظم نجیب تن رزاق نے کل جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران ان احساسات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کے مستقبل کو روشن، تابناک اور محفوظ بنانے کیلئے چھیڑی گئی جہاد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والی کلید دراصل اعتدال پسندی ہے۔ ژنہوانیوزایجنسی نے ان کے حوالہ سے بتایاکہ دنیاکے گوشہ گوشہ میں انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہزاروں انسانی زندگیوں کے اتلاف اور مواقع پامال ہورہے ہیں۔ اس گھناؤنے عمل کے منفی اثرات ہم سب پر مرتب ہورہے ہیں، درحقیقت ایک مخصوص عقیدہ کے پیروکار ایک ہی قوم کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑرہاہے۔ میرے خیال سے مسلمانوں کو جو سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے، وہ داخلی ہے اور باہر کی دنیا(خارجی دنیا) سے اس کاکوئی سروکار نہیں۔ وزیراعظم نے واضح الفاظ میں کہاکہ سنی۔ شیعہ تفرقہ وتصادم نے ہزاروں بلکہ لاکھوں بے قصور انسانوں کو بے وقت ابدی نیندسلادیا اور شام اور لبنان سے عراق اور پاکستان تک کے کروڑوں مسلمان نان ونفقہ، ذریعہ معاش اور روٹی روزی سے محروم ہوگئے۔ ہمارا مذہب، مذہب اسلام امن ورواداری پر مبنی ہے، اور یہی اس مذہب کے2 اہم ترین ستون ہیں۔ انہتا پسند نہ صرف غیر مسلمین کے سامنے بلکہ مسلمانوں کے سامنے بھی اسے تو مروڑکر پیش کررہے ہیں۔ ان کے اس عمل کا مقصد تشدد کومنصفانہ قرار دینے اور تفرقہ پھیلانے کا جوازتلاش کرناہے۔ عالم اسلام میں انتہا پسنداپنے گھناؤنے اور گمراہ کن ایجنڈہ کو مذہبی لبادہ میں لپیٹ کرپیش کررہے ہیں۔ ان کا نصب العین خاندانوں میں نفاق اور پھوٹ ڈالنا، ممالک کو ٹکڑوں میں بانٹنا اور امت کومنتشر کرنا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر بھی یہ واضح کردیا کہ اسلام اتحاد اور اجتماعیت کی تعلیم دیتاہے اور اس کے ہر عمل میں اس کے واضح ثبوت موجود ہیں۔انتہا پسندوں کے خلاف جنگ ضروری تھی اور مسلمان اتنے بھی کمزور نہیں کہ ان سے نبردآزمانہ ہوسکیں۔ میں پورے یقین اور مکمل اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں کہ مذہبی اعتدال پسندی اور معتدل سیاسی عمل سے عالم اسلام میں انسانی زندگیوں کے اتلاف کا انسداد ممکن ہے، اور عالم اسلام میں مکمل آزادی اسی راہ پرگامزن ہونے سے حاصل ہوسکتی ہے۔ سمندر میں زیریں لہر بھی موجودہے، اور میرے خیال میں اسلام کے مستقبل کو محفوظ اور روشن بنانے کی جدوجہد بھی اندر ہی اندر جاری ہے جوعام نظروں سے اوجھل ہے۔ ہمیں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کے عہد کا اعادہ کرناہے اور ان سیاسی مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا جو ہمیں عدم استحکام سے دوچار کررہے ہیں۔ اگر ہم اس تعلق سے پرعزم رہے تو ہم مرکزی علاقوں کووسعت دے کر انتہا پسندوں کو حاشیہ میں ڈالنے کے موقف میں جلد ہی آجائیں گے۔ انہوں نے تاہم یہ وضاحت بھی کردی کہ اعتدال پسندی اور کمزوری میں بڑافرق ہے اور اس حوالہ سے ہمیں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوناچاہئے۔ تشدد بھڑکانے والوں اور اس میں ملوث افراد سے مقابلہ اور اس سے دست برداری اور امن وسکون کے مظاہرہ کا مطالبہ کسی کمزوری کی نہیں بلکہ قوت اور طاقت کی علامت ہے۔ مسلم قائدین پر ایسے تشدد کے خلاف آواز اٹھانے اور اس کی مذمت کی ذمہ داری عائدہوتی ہے ورنہ ان کی خاموشی کو تسلیم ورضاباور کرلیاجائے گا۔

internal threats facing the islamic world

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں