کیا 17 ستمبر کو-یوم سیاہ- منایا جا سکتا ہے؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-09-17

کیا 17 ستمبر کو-یوم سیاہ- منایا جا سکتا ہے؟

hyderabad state merger with indian union
سنگھ پریوار نے اب ایک نئی مہم ایک نیا مشن شروع کیا ہے جسے وہ "حیدرآباد کی آزادی" کا نام دیتی ہے، 50 سال سے سردار پٹیل، پنڈت نہرو، اندرا گاندھی یا دیگر بڑے قائدین میں سے کسی کو اس دن آزادی منانے کا خیال بھی نہیں آیا اب اچانک گذشتہ 5 سال کے عرصہ سے فرقہ پرستوں کو آزادی حیدرآباد کی یاد ستانے لگی ہے حالانکہ یہ واقعات دل دہلانے والے ہیں۔
جس طرح کہاوت ہے کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتاہے اسی طرح حکومت ہند نے اپنی شاطرانہ چالیں چلتے ہوئے حیدرآباد کی آزاد و خودمختار حکومت کو ختم کیا حکومت ختم کرنے سے پہلے اپنے کانگریسی و آریہ سماجی ایجنٹس کو روانہ کیا جن کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ پہلا کام یہ کریں کہ گنگاجمنی تہذیب ہندو مسلم اتحاد کو ختم کریں اس تہذیب کی شناخت ختم کریں۔
ان ایجنٹوں نے یہ کام انجام دیا تمام دکن میں شورش برپا کی۔ قتل وخون کابازار گرم کیا ہر طریقے سے دونوں طرقوں کو دور کرنے کاطریقہ اپنایا اور اپنے ان کالے کارناموں کو رضاکاروں کے نام کردیا اس وقت کی پولیس نے ایسے ہزاروں کانگریسی اور آریہ سماجی ایجنٹوں کو گرفتار کیاجو رضاکاروں کے بھیس میں ظلم و ستم کا بازار گرم کررہے تھے۔ قتل وغارت گری عصمت ریزیاں کررہے تھے اس طرح کا ماحول تیار کرنے کے بعد حکومت ہند نے نظام گورنمنٹ کو ختم کرنے کا منصوبہ شروع کیا نظام گورنمنٹ میں عدم استحکام پیدا کیا۔ نظام گورنمنٹ نے نیک نیتی کے ساتھ حکومت ہند سے بات چیت شروع کی بات چیت کے لئے حیدرآبادی وفود نے نئی دہلی کے چکر کانٹنا شروع کئے بات چیت پنڈت نہرو، سردار پٹیل، مہاتما گاندھی سے ہوئی ۔
گاندھی جی سے حیدرآبادی وفد نے کہا، حیدرآباد صدیوں سے مسلم تہذیب کا گہوارہ و مرکز رہا ہے وہ فوری طورپر بھارتی حکومت کی مرضی کے عین مطابق ایک ہندو مملکت نہیں بن سکتا حیدرآباد کے مسلمانوں کے مفادات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوگا جب یہ بات لائق علی نے کی تو گاندھی جی نے کہا کہ وہ خود بھی کسی بھی فوری تبدیلی کے مخالف ہیں۔ حیدرآباد کو ہندوستان میں مسلم تہذیب و ثقافت ایک مرکز کے طورپر قائم رکھنا چاہئے کیونکہ ہندوستان میں مسلمانوں کا اس وقت کوئی بھی ثقافتی مرکز نہیں ہے اس لئے ان کیلئے کوئی ایک مرکز ہونا انتہائی ضروری ہے۔ گاندھی جی کی اس یقین دہانی کے دوسرے دن گاندھی جی کا قتل ہوگیا فرقہ پرستوں نے سردار پٹیل کے ایک منصوبہ بند طریقے پر عمل کرتے ہوئے حیدرآبادی وفد کو بات چیت میں الجھائے رکھا اور حیدرآباد پر22 مختلف سمتوں سے حملہ کردیا ہندوستانی فوج نے جرنل جے این چودھری کی سرکردگی میں اچانک حملہ کردیا یہ ایک بزدلانہ حرکت تھی اگر دو حکومتوں کی بات چیت ناکام ہوجاتی اور دونوں حکومتوں کی جانب سے جنگ کا اعلان ہوتا تو اسے جنگ کہا جاتا تھا نظام گورنمنٹ کا تو صرف اور صرف بات چیت کے ذریعہ مسئلہ کا حل کا ارادہ تھا نہ کہ جنگ اگر کوئی ایسا ارادہ ہوتا تو پورے نظام اسٹیٹ میں بھی عثمانی فوجیں ہندوستانی فوج کے مقابل مورچہ سنبھالی ہوئی نظر آتیں مگر کسی بھی محاذ پر عثمانی فوج نے پیش قدمی نہیں کی ہندوستانی فوج کو روکنے کیلئے البتہ تھوڑی بہت عوامی مزاحمت ضرور ہوئی آزادی عوام کا بنیادی حق ہے اسی جذبہ کے تحت نہتے عام شہری لاٹھیوں پتھروں کا سہارا لے کر دبابوں کے آگے لیٹ گئے ہماری بہادر ہندوستانی افواج نے ان نہتے لوگوں پر سے دبابوں کو چلادیا بلاکسی وجہ کے بمباری کردی گئی۔ فرقہ پرست کانگریسی اور آریہ سماجی ایجنٹس ہندوستانی فوج کی رہبری کررہے تھے ان فرقہ پرستوں نے فوج کا سہارا لیکر چن چن کر شہروں قصبوں اور دیہاتوں میں مسلمانوں کا قتل عام کیا عصمت ریزی کیلئے کیمپ قائم کئے ، جائیدادوں کو لوٹاگیا بے دخل کردیاگیاتھا اس کے بعد فرقہ پرستوں نے کاروبار سے مسلمانوں کو بے دخل کردیا تمام نوکریوں سے بے دخل کردیا جس کی تلافی آج55سالوں بعد بھی نہیں ہوسکی آج بھی آزاد سیکولر ہندوستان میں مسلمان بعض شعبہ جات میں صفریااور بعض میں ایک تا دو فیصد تک محدود ہیں۔ سردار پٹیل نے کہاکہ آج حیدرآباد کا مسلمان مرگیا۔ حیدرآبادی مسلم کل بھی زندہ تھا آج بھی زندہ ہے۔ پٹیل مرگئے مگر اپنے چیلے چھوڑ گئے جوان کے مشن کو جاری رکھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ زوال حیدرآباد کے بعد وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے حیدرآباد کا دورہ کیا اس موقع پر کانگریسی وآریہ سماجی ایجنٹوں نے پھول کے ہار پیش کئے اور مبارکباد دینے کیلئے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگئے۔ پنڈت نہرو نے ان تمام خوشامدیوں کو جھڑک دیا اور کہاکہ ایسی اندوہناک کاروائیاں کرنے کیلئے میں نے تو نہیں کہا تھا آج میں لاشوں کے شہر میں آیا ہوں مبارکبادوصول کرنے قبول کرنے یا پھول پہنے کا میرا کوئی حق نہین ہے اس کے بعدمسلم کش فسادات کیلئے انکوائری کمیشن جو پنڈت سندر لال کی زیر صدارت تشکیل دیاگیا، سندر لال رپورٹ مرتب کرتے ہوئے زاروقطار روتے تھے بہرحال یہ رپورٹ جواہر لال نہرو کو پیش کردی گئی جسے پڑھ کر خود نہرو بھی رودیئے، بلبل ہند سروجنی نائیڈو کا حال بھی برا ہوا رپورٹ کو پڑھ کر اس وقت اہم اہم لوگوں نے رپورٹ دیکھی جارے غیرت و شرم کے وہ کچھ کہنے سے قاصر رہ گئے ۔ پٹیل نے اس انکوائری رپورٹ کو خفیہ طریقے سے محفوظ کروادیاتاکہ دنیا کے سامنے ان کی اور ان کے چیلوں کی حرکات کا افشانہ ہوسکے آج تک بھی وہ انکوائری رپورٹ 55سال گذرنے کے باوجود عوام کے سامنے نہیں لائی گئی۔ ایسا کیوں۔؟ان واقعات کے گذرے ہوئے نصف صدی سے زیادہ گذرچکی آزاد ہندوستان سیکولر جمہوریہ میں ایک نئی نسل کا جنم ہوا اس نسل کا سابقہ کے واقعات سے کوئی تعلق نہیں ان کا تعلق تو موجودہ متحدہ ہندوستان سے ہے ہمارے موجودہ لیڈرس جو عوامی خون چوسنے میں مصروف رہتے ہیں ان کا یہ دعویٰ کہ ہم ہندوستان کو جدید دنیا کے مقابل کے طورپر ہمکنار کریں گے۔؟مگرکیسے۔؟یہ لیڈر تو نئی نسل کو55سالہ پرانے واقعات یاد دلارہے ہیں کہ دیکھو کہ55سال پہلے ہم نے ایسے کارنامے انجامد یئے تم لوگ بھول گئے لہٰذا ان واقعات کو دوبارہ دہراؤ تاکہ اپنے فرقہ پرست اسلاف کاکام جاری رہے۔ یہ سیاسی لیڈروں کو اتنی غیرت و شرم نہیں کہ 56سال بعد بھی وہ آزاد ہندوستان میں21لاکھ دیہات کو جو صاف پینے کے پانی سے محروم ہیں جو زہریلا پانی پی کر ہرسال لاکھوں کی تعداد میں بیمار پڑتے ہیں ہزاروں کی تعداد میں مرتے ہیں ایسے لوگوں تک جشن ہندوستان کی آزادی کا ثمر پہنچائیں۔؟بجائے اس کے یہ فرقہ وارانہ ماحول تیار کررہے ہیں حیدرآباد گنگاجمنی تہذیب کو ہندو مسلم اتحاد کو وہ ختم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے غیر مسلم بھائیوں پربھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فرقہ پرستوں کی باتوں کا جواب نئی نسل کے سامنے پیش کرے تاکہ نئی نسل اچھے برے کی تمیز کرسکے اپنے اتحاد کو برقرار رکھ سکے وہ ان حقائق کی روشنی میں بتائے کہ ہندوستان میں 562 دیسی ریاستیں تھی جو انڈین یونین میں ضم ہوگئیں اس طرح نظام حکومت بھی ضم ہوگئی اب ان دیسی ریاستوں کی جشن آزادی کی تقاریب تو منائی نہیں جاسکتیں۔ جب دیسی562ریاستوں کی آزادی کا جشن نہیں تو پھر حیدرآباد کی آزادی کی تقاریب اس کا جشن کیوں۔؟اگر اس طرح آزادی منائیں تو تمام 562 ریاستوں کاجشن آزادی مناناہوگا یعنی روزآنہ دوجشن آزادی تب60جشن آزادی ایک مہینہ مکمل ہونے پر ختم ہونگے پھر ہندوستان کی آزادی کا کیا ہوگا اگر ہر اسٹیٹ کی آزادی کاجشن شروع کردیاجائے تو یہ متحدہ ہندوستان کی مرکزی آزادی کے جشن کو جس کو ملک کے چپہ چپہ میں منایاجاتاہے کون منائے گا کیا مختلف ریاستوں کے جشن آزادی منانے متحدہ ہندوستان کی آزادی کو متاثرکرنے اسے بے اثر کرنے والا عمل نہیں کہلائے گا، آزادی منائی جاسکتی ہے تو صرف اور صرف متحدہ ہندوستان کی دیگر اور کوئی جشن آزادی کا مطلب ہندوستان کی آزادی سے دشمنی میں شمار ہوگا۔

Hyderabad State merger with indian union on 17th Sept.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں