بین مذہبی اور فرقہ وارانہ تشدد پاگل پن ہے - صدر جمہوریہ کا خطاب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-09-22

بین مذہبی اور فرقہ وارانہ تشدد پاگل پن ہے - صدر جمہوریہ کا خطاب

inter-religious and communal violence is insanity
صدر جمہوریہ ہند پرنب مکرجی نے آج بین مذاہبی اور فرقہ وارانہ تشدد کو پاگل پن قرار دیا اور امن ، ہم آہنگی اور عدم تشدد کے پیغام کوعام کرنے کی اجتماعی کوششوں کی اپیل کی۔ صدر جمہوریہ آج بین الاقوامی یوم امن پر متعدد مذہبوں کے پیشواؤں کی موجودگی میں راشٹرپتی بھون میں آل انڈیا اہنسا پرمودھرم بیداری مہم کے افتتاح کے موقع پر اظہار خیال کررہے تھے۔ صدر پرنب مکرجی نے کہاکہ اس کل ہند کل مذاہبی مہم کا مقصد تشدد سے پاک معاشرہ ہے۔ ہماری تہذیب کی بنیادی تعلیم عدم تشدد اور امن ہے۔کوئی مذہب تشدد کی تعلیم نہیں دیتا۔ ہر مذہب محبت، دردمندی اور خدمت پر زور دیتاہے۔ ہندوستان کی تہذیب 5ہزار سال پرانی ہے جہاں بھگوان گوتم بودھ اوربھگوان مہاویز نے عدم تشدد کا پیغام عام کیا۔ ہندوستان میں ہمیشہ تمام مذاہب ، عقائد اور مذہبی رسوم کی گنجائش رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جو قوم اپنی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کی حفاظت نہیں کرسکتی اسے یہ سمجھنے کا حق نہیں حاصل کہ اس کامعاشرہ مہذب ہے۔ مختلف مذہبوں کے درمیان اور فرقہ وارانہ نوعیت کے فسادات پاگل پن کا مظاہرہ ہوتے ہیں اور ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے طرز فکر میں فرزانگی فوراً واپس لائیں۔ انہوں نے کہا کہ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے اخلاقی معیاروں کا ازسرنو تعین کریں۔ہم تشدد کی ہر واردات کے ساتھ حضرت عیسی مسیح کو بار بار مصلوب کررہے ہیں۔ تشدد کی ہر واردات کے ساتھ مہاتما گاندھی کے قتل کو دہرارہے ہیں۔ محض چند افراد کو ہمارے معاشرے میں تشدد کے لئے موردالزام نہیں گردانا جاسکتا کیونکہ ہماری عمومی بے حسی اور تشد د کی قبولیت بھی اس کیلئے برابر کی ذمہ دار ہے۔ صدر نے کہاکہ ہمارے نکمے پن نے ایسا ماحول بنایا ہے کہ جس میں تشدد سے مزید تشدد کا راستہ ہموار ہورہاہے جبکہ تاریخ میں امن کے علم برداروں کو فاتحوں اور حکمرانوں سے زیادہ یاد کیا جاتاہے۔ عیسی مسیح اور بھگوان بدھ نے تہذیب کارخ موڑدیا۔ ان کی تعلیمات پر کروڑوں لوگ صدیوں سے عمل کررہے ہیں۔ چنگیز خان اور نازی تاریخ کے حاشیہ پر ہوتے ہیں۔ اشوک اعظم کے عہد کو انسانیت کی بحران میں مبتلا تاریخ کاسب سے درخشاں وقفہ کہاجاتاہے کیونکہ وہ چندا اشوک سے دھمااشوک میں تبدیل ہوگئے تھے۔ ہمیں تاریخ یاد رکھنی چاہئے۔ صدر نے اپنی تقریر میں مزید کہاکہ تشدد سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ کوئی مذہب تشدد کی تائید نہیں کرتا۔ مذہب کے نام پر تشدد کی گرم بازاری مکمل بے راہ روی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ یہ کہاجائے کہ اب بس کرو۔ بہت ہوگیا۔ا نسانیت اب اور تشدد کو برداشت نہیں کرسکتی۔ اس موقع پر مختلف مذاہب کے جن دیگر لیڈروں نے تقریریں کیں ان میں برہما کماریز کی97سالہ سربراہ دادی جان کی ،بہائی کمیونٹی کے نیشنل ٹرسٹی ڈاکٹر اے کے مرچنٹ، دہلی کیتھولک آرڈیوسس(قلم رو مذہبی استف اعظم) کے ڈائرکٹر (کمیونکیشن) فادر ڈومکن امانیول، جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری اعجاز احمد اسلم، مہابودھی سوسائٹی انڈیا کے بھکشوانچارج آرسمیتھا لندتھیرو، اسکون کے نائب صدر شری ورجندرنندن داس، جوڑا ہائم سینا گوگ کے ہیڈ پرسٹ ای اساک مالیکر کے نام شامل ہیں۔ ان تمام لیڈروں نے مختلف فرقوں کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیااور کہاکہ دنیا کے تمام مذاہب امن اور عدم تشدد کا اعادہ کرتے ہیں۔

inter-religious and communal violence is "insanity" manifested -president pranab

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں