ہفت روزہ "نشیمن" بنگلور نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا کہ بجلی گرتے گرتے آپ خود بیزار ہو جائے |
یقیناً یہ خبر اردو داں طبقہ کے لیے افسوسناک ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ حالات حاضرہ پر میڈیا اثرانداز ہے اور معیاری اخبارات عوامی سوچ و فکر کو راہ دینے میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں ، نشیمن جیسے قدیم اخبار کا بند ہو جانا اردو صحافت کا ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ اس کے مدیر اعلیٰ مرحوم عثمان اسد نے انتہائی صبر آزما اور آزمائشی حالات میں اس اخبار کی بنیاد ڈالی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی محنت لگن اور جستجو سے ملک بھر میں اسے ایک نمایاں مقام دلانے میں کامیابی حاصل کی۔ مرحوم عثمان اسد حالات حاضرہ کے نباض تھے۔ ملک کی سیاست ہو ، سماجی حالات ہوں ، معاشی حالات ہوں یا بین الاقوامی حالات ۔۔۔ ان تمام پر موصوف کی گہری نظر تھی۔
"نشیمن" اخبار کی سب سے بڑی خوبی یہ رہی کہ خبر برائے خبر تک محدود نہ رہتے ہوئے سبق آموز اور تعمیری صحافت کا مشن اپنایا۔ اپنے تجزیے اپنے تبصروں کے ذریعے "نشیمن" نے عوام کو تعمیری سوچ و فکر دینے کی بھرپور کوشش کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1961 کے بعد سے "نشیمن" بےشمار نشیب و فراز سے گزرا لیکن اس کا معیار صحافت اور مخصوص پیٹرن اپنی جگہ قائم رہا اگرچیکہ موجودہ حالات میں نوجوان نسل اس سے مانوس نہ تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کے ہر شہر ہر دیہات میں مخصوص عمر کے افراد اس کے قاری تھے اور وہ "نشیمن" کو انتہائی بےچینی کے ساتھ حاصل کر کے اس کا مطالعہ کیا کرتے۔
"نشیمن" کے اداریے بھی جہاں ایک جانب سبق آموز ہوتے تو ساتھ ہی اس کے مختلف کالم "تھپڑاخیں" معیاری تبصروں اور تجزیوں سے بھرپور ہوتا۔ "نشیمن" کی خاص بات یہ رہی کہ اس نے اپنے قارئین کو اپنے صحافتی معیار اور سبق آموز تجزیوں ، بہترین معلومات مواد کے ذریعے باندھے رکھا اور محض دو رنگوں میں عام کاغذ پر شائع ہو کر بھی یہ اخبار لوگوں کا محبوب رہا۔ جبکہ اس کے بالمقابل انتہائی قیمتی کاغذ پر ملٹی کلر ہفتہ روزہ اخبارات کی اشاعت ہوتی رہی لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اخبار "نشیمن" کو مات نہیں دے سکا اور "نشیمن" کسی چٹان کی طرح میدانِ صحافت میں کھڑا رہا۔
قارئین اردو اخبار ، اردو صحافت ملک میں سنگین مسائل اور چیلنجیز سے دوچار ہے۔ اشتہارات سے لے کر اشاعت تک قدم قدم پر اردو اخبارات کو گوناگوں چیلنجز و مسائل کا سامنا ہے اور آج "نشیمن" اپنے مدیران میں سے نائب مدیر اعلیٰ شاہ امیر اللہ نظامی کی 9/ستمبر/2013 کی وفات کے بعد ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کا متحمل نہ ہو سکا اور یہ افسوسناک خبر خود اس اخبار کے 15/ستمبر/2013 کے شمارے میں شائع ہوئی کہ ۔۔۔
"نشیمن" اخبار کا یہ آخری شمارہ ہے ، قارئین کو اطلاع دی جاتی ہے کہ 15۔ ستمبر 2013ء نشیمن کا آخری شمارہ ہے ، اس کے بعد نشیمن شائع نہیں ہوگا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ نصف صدی تک صحافتی میدان میں کامیابی کا سفر طے کرنے کے بعد "نشیمن" اخبار کا بند ہونا کسی مخصوص گھرانے کا نقصان نہیں بلکہ یہ پوری ملت کا صحافتی نقصان ہے۔
Urdu weekly "Nasheeman" (Bangalore) is closed now
آپکے جیسے لوگ ایسے واقعات کے زمہ دار ہین اب آج لائین ہر بات مل جاے تو ہفتہ بھر پرانی خبر کا کیا کرین وہ اگر نشیمن کو انلائین نکالنے لگ جاتے تو چل تے رہتے ویسے نیا پن ہمیشہ ادب کے لئے ایسے حالات پیدا کرتا رہا
جواب دیںحذف کریںویسے جناب عالی ۔ ۔ آپ کن سے مخاطب ہیں ؟ آپکے جیسے لوگ سے آپ کی کیا مراد ہے ؟ اور اگر نشیمن کا انتظامیہ ناکام ہوتا ہے آن لائن کرنے میں تو اس میں دوسروں کو کس طرح قصور وار ٹھرایا جاسکتا ہے ؟
حذف کریںانّاللہ و انّاالیہ راجعون
جواب دیںحذف کریںبلا شبہ یہ اردو صحافت کی ہی نہیں زبان وادب کا بھی نقصان ہے ۔ خاکسار کی پہلی غزل کی اشاعت ۱۹۷۱ اسی ہفت روزہ میں ہوئی تھی
بجلیاں کامیاب ہوئیں اور نشیمن ۔۔۔
جواب دیںحذف کریںخدا خیر کرے