مسلم پرسنل لا کو ملک کے فوجداری قوانین پر ترجیح نہیں دی جا سکتی - دہلی عدالت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-09-26

مسلم پرسنل لا کو ملک کے فوجداری قوانین پر ترجیح نہیں دی جا سکتی - دہلی عدالت

Muslim-personal-law-cant-override-criminal-law
مسلم پرسنل لاء کو ملک کے فوجداری قانون پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ دہلی کے ساکت کورٹ نے عصمت ریزی کے کیس میں یہ تبصرہ کیا۔ ایک مسلم نوجوان نے17 سالہ لڑکی سے محبت کی دہائی دیتے ہوئے اس کا اغواء کیا اور اور اس کی عصمت ریزی کی ۔ ملزم کی درخواستِ ضمانت مسترد کرتے ہوئے عدالت نے کہاکہ سرزمین ہند کا قانون تمام شہریوں پر نافذ العمل ہے۔ قانون کے سامنے تمام شہری یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دستور کا بنیادی اصول ہے۔ ایک فرقہ کیلئے الگ اور دوسرے دوسرے فرقہ کیلئے الگ قانون نہیں ہوسکتا۔ اگر اتفاق سے متاثرہ لڑکی اور ملزم ایک ہی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں تو اس کیلئے مسلم پرسنل لاء کا اطلاق نہیں ہوگا، البتہ مسلم پرسنل لاء کے تحت جو عائلی قوانین ہیں ان کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے، لیکن مسلم پرسنل لافوجداری قانون پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ ایڈیشنل سیشن جج کا منی لاؤ نے صاف الفاظ میں کہا کہ فوجداری قانون پر مسلم پرسنل لاء کو ترجیح نہیں دی جاسکتی، کیوں کہ ہندوستان کا قانون یہ کہتا ہے کہ مساوات کے دستوری اصول کے مطابق یکساں طورپر تمام شہریوں کیلئے فوجداری قانون نافذ العمل رہے گا۔ ہندوستان ایک ایسا سیکولر ملک ہے جس کا اپنا ایک دستور ہے اسی کے تحت ملک کے تمام کام کاج چلائے جاتے ہیں۔ دستور پر شریعت کو ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ مسلم پرسنل لاء کا اطلاق صرف شادی بیاہ، طلاق، ترکہ اور ورثہ پر ہوگا۔ فوجداری قوانین سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ملزم نے عدالت میں یہ جواز پیش کرتے ہوئے ضمانت کی درخواست دی تھی کہ لڑکی لڑکے کی محبت میں گرفتار اور وہ شادی کرنے کی خواہشمند تھی۔ لڑکی کے والدین کو رشتہ منظور نہیں تھا۔ وہ اپنی مرضی سے لڑکے کے گھر پہنچ گئی۔ دونوں میں جسمانی روابط استوار ہوئے اسکے بعد لڑکی اپنے میکہ واپس ہوگئی۔ لڑکی نے بعد میں عدالت میں ماں باپ کے دباؤ میں آکر لڑکے کے خلاف بیان دیا۔ اب دونوں خاندان افہام و تفہیم کے ذریعہ اس شادی کوجائز بنانے کیلئے تیار ہیں۔ قبل ازیں لڑکی کے بیان پر تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت لڑکی کے خلاف عصمت ریزی کا مقدمہ درج کردیاگیا۔ عدالت نے ملزم کی ضمانت یہ کہتے ہوئے مسترد کردی کہ مجسٹریٹ کے سامنے لڑکی نے یہ بیان دیا ہے کہ لڑکی نے اس کا اغواء کیا اور جئے پور میں تین دن تک اس کی عصمت ریزی کرتارہا۔ کورٹ نے مزید کہاکہ لڑکی کی شادی کی عمر کا معاملہ مسلم پرسنل لاء کے دائرہ اختیار کا ضرورہے۔ یہ معاملہ دیگر مذاہب کے پرسنل لاء سے بھی تعلق رکھتا ہے، لیکن اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ جنسی تشدد اور جنسی استحصال سے خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ملک کے قانون کا بنیادی فریضہ ہے اس سے مسلم خواتین کو مستثنیٰ نہیں رکھاجاسکتا۔ جس طرح دیگر شہریوں کو اپنی لڑکیوں کو جنسی استحصال سے محفوظ رکھنے کیلئے قانونی تحفظات حاصل ہیں اسی طرح مسلم والدین کو بھی یہ قانونی اختیارات حاصل رہیں گے۔ مسلم مجرمین کیلئے علیحدہ پیمانے نہیں ہوسکتے۔ کسی بھی شخص کو مذہب کی آڑ میں ملک کے سیکولر فوجداری قانون کا مذاق اڑانے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی مجرمین کو شریعت یا پرسنل لاکوڈ ھال بنانے کی اجازت دی جائے گی۔ جرائم کے ارتکاب کے بعد سزا سے بچنے کیلئے شریعت اور پرسنل لاء کا استحصال نہیں کیاجاسکتا۔ جہاں تک جنسی تشدد کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعات کا تعلق ہے ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ خاطیوں میں سے کوئی ایک یا دونوں کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ مذہب کی بنیاد پرمجرمین اور متاثرین کے ساتھ کسی بھی قسم کا امتیاز برتا نہیں جاسکتا۔

Muslim personal law can't override criminal law: Delhi Court

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں