تبصرہ کتاب - ابن صفی مشن اور ادبی کارنامہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-09-16

تبصرہ کتاب - ابن صفی مشن اور ادبی کارنامہ

Ibn-e-Safi Mission and Literary achievement Book Review
کتاب : ابن صفی - مشن اور ادبی کارنامہ
مولف و مرتب : محمد عارف اقبال
صفحات : 1032 - قیمت : 595 روپے(مجلد)
اشاعت: جون 2013
ISBN 978-93-83239-00-9
زیر اہتمام : اردو بک ریویو،1739/3ذیلی منزل، کوہ نور ہوٹل، پٹودی ہاﺅس، دریا گنج، دہلی 2- (موبائل نمبر: 09953630788)
مبصر : سہیل انجم

اس بحث سے قطع نظر کہ "ادب عالیہ" کیا ہے اور "ادب عالیہ" کسے کہتے ہیں، ابن صفی کا نام نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے اردو داں طبقہ کے ذہن و حواس پر چھایا ہوا ہے۔ بر صغیر ہند و پاک کے ساتھ ساتھ اردو کی نئی بستیوں میں بھی شائد ہی کوئی اردو خواں ایسا ہو جو ابن صفی کے نام سے ناواقف ہو یا جس نے ان کے ناول نہ پڑھے ہوں۔ پہلے ہندوستان کے الہ آباد سے اور اس کے بعد پاکستان کے کراچی سے انھوں نے جو ناول لکھے ہیں وہ اردو ادب کا ایک تاریخی اور قیمتی سرمایہ ہیں۔ جاسوسی ناولوں کو تفریحی ادب یا پاپولر لٹریچر کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسے ثانوی درجے میں رکھا جا سکتا ہے۔ ادب عالیہ اور ابن صفی کے ناولوں کی تخلیق کے مقاصد پر اگر نظر ڈالیں تو اس سے انکار کی جرا ¿ت کوئی نہیں کر سکتا کہ ابن صفی کے ناولوں کا مقصد بھی انتہائی اعلیٰ و ارفع تھا۔ ان کا مقصد ایک صالح معاشرہ کی تشکیل اور جرائم اور ظلم و استبداد سے پاک ایک ایسے سماج کا قیام تھا جس میں انسان کو انسان سمجھا جائے، قانون کا احترام کیا جائے اور کسی کے ساتھ زیادتی و ناانصافی نہ ہو۔ اگر ان مقاصد کو نصب العین بنا کر لکھا جانے والا ادب اعلیٰ و ارفع ادب نہیں ہے تو پھر وہ کون سا ادب ہوگا جسے ادب عالیہ کے درجے میں رکھا جائے گا۔ کیا برائیوں اور فحش کاریوں کو عام کرنے کا نام اعلیٰ ادب ہے۔
ابن صفی کے ناولوں کی اہمیت کئی لحاظ سے مسلم ہے۔ مقاصد کے اعتبار سے تو وہ اعلیٰ ترین ہیں ہی زبان و بیان کے لحاظ سے بھی انتہائی معیاری ہیں۔ جو ادبی معیار اور زبان کی چاشنی ابن صفی کے ناولوں میں ہے وہ بہت کم ادیبوں کے یہاں پائی جاتی ہے۔ وہ جہاں انسانی قدروں کا حامل معاشرہ چاہتے تھے اور دنیا کو جرم اور مجرم سے پاک دیکھنا چاہتے تھے وہیں وہ اردو زبان کے بھی زبردست مجاہد اور خادم تھے۔ انھوں نے اپنے قلم سے اردو کی جو خدمت کی ہے وہ بہت کم لوگوں کے نصیب میں آتی ہے۔ کیا یہ بات کم اہمیت کی حامل ہے کہ اردو زبان سے ناواقف لا تعداد لوگوں نے ان کے ناول پڑھ پڑھ کر اردو سیکھی یا ان کے ناول پڑھنے کے لیے اردو سیکھی۔ ابن صفی نے اپنے ناولوں سے جتنی بڑی تعداد میں اردو خواں پیدا کیے ہیں اس کا عشر عشیر بھی اردو کا دَم بھرنے والے دانشوروں نے پیدا نہیں کیے ہوں گے۔ اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ ابن صفی کے ناول اعلی ادب کا حصہ نہیں ہیں بلکہ وہ عوامی، تفریحی اور پاپولر لٹریچر کا حصہ ہیں۔ اسے ذہنی دیوالیہ پن نہیں کہا جائے گا تو کیا کہا جائے گا۔ یہ ابن صفی جیسے عظیم ناول نگار کے ساتھ بہت بڑی زیادتی بھی ہے اور اردو زبان و ادب کا المیہ بھی ہے۔
یوں تو ابن صفی کا نام کبھی بھی گوشہ گمنامی کی زینت نہیں رہا، ان کے پرستاروں اور قارئین کی تعداد ہمیشہ موجود رہی ہے اور ان کے ناول بھی ہندوستان اور پاکستان میں مسلسل شائع ہوتے رہے ہیں۔ لیکن بہر حال ادھر گزشتہ کچھ دہائیوں سے ابن صفی کے نام اور ان کی تخلیقات کے احیا کا عمل شروع ہوا ہے اور ہندوستان و پاکستان میں اس سلسلے میں کافی کچھ کام ہوا ہے۔ ہندوستان میں جو شخصیات اس سلسلے میں نمایاں حیثیت حاصل کر چکی ہیں ان میں ایک نام اردو بک ریویو کے مدیر محمد عارف اقبال کا ہے۔ انھوں نے سب سے پہلے تو یہ کیا کہ ابن صفی کے ناول ایک ایسے پبلشر سے شائع کروانے کا سلسلہ شروع کرایا جو ابن صفی کے نام تک سے ناواقف تھا۔ اس ادارے سے اب تک تقریباً 57 جلدیں شائع ہوچکی ہیں اور ایک ایک جلد میں چار چار اور پانچ پانچ ناول ہوتے ہیں۔ منتخب ناولوں کی ان جلدوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اس کے مرتب عارف اقبال نے ابن صفی کے مشن اور ادبی کارنامہ کو اجاگر کرتے ہوئے ہر ناول کا مختصر تعارف بھی پیش کیا ہے اور عہد حاضر میں اس کی اشاعت کے جواز پر روشنی بھی ڈالی ہے۔ معیاری طباعت کے حامل ان ناولوں کی قیمت بھی کم رکھی جاتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ قارئین تک ان کے ناول پہنچ سکیں۔ اب انھوں نے ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ایک معیاری اور ضخیم کتاب شائع کر کے بلا شبہ ابن صفی او ران کے کارناموں کو نہ صرف شاندار خراج عقیدت پیش کیا ہے بلکہ ایسے گوشوں تک بھی ابن صفی کا نام پہنچا دیا ہے جو ہنوز اس نام کی آشنائی سے محروم تھے۔
یہ کتاب دس ابواب پر مشتمل ہے۔ یہ ہیں : ابن صفی: حیات اور مشن، فکر و نظر: اہل علم و ادب کے تاثرات و تبصرے، ابن صفی: عصری تناظر میں، تحقیق و تنقید، ابن صفی: کردار نگاری کے آئینے میں، تجزیہ و تبصرہ: چند ناولوں کے حوالے سے، ابن صفی سے مکالمہ: انٹرویو، ابن صفی کے ناولوں سے فکر انگیز زریں اقتباسات، منتخب تخلیقات: حصہ نثر اور شعری تخلیقات۔ اس فہرست پر نظر ڈالنے سے بڑی آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کتاب میں کتنا تنوع اور کتنی ہمہ جہتی ہے۔ پہلے باب سے قبل خود عارف اقبال کا ایک انتہائی وقیع اور مفصل مضمون ہے جس میں انھوں نے ابن صفی کی تخلیقات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ادب میں ابن صفی کے مقام کا تعین کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ انھوں نے اس بحث کو آگے بڑھایا ہے کہ ادب عالیہ کیا ہے او رادب غیر عالیہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں "سوال پیدا ہوتا ہے کہ ادب کیا ہے؟ ادب کی تعریف ادبا اور نقادوں کے نزدیک جو کچھ بھی ہو لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہر زمانے کا ادب اپنے عہد کا آئینہ او رنمائندہ ہوتا ہے بالخصوص تخلیقی ادب....بیسویں صدی میں ابن صفی واحد ناول نگار ہیں جنھوں نے جاسوسی ادب کی بنیاد ایک صنف کے طور پر رکھی او رادب میں مقصد کو ترجیح دیتے ہوئے ’ٹیم اسپرٹ او رلیڈر شپ‘ کو عصر حاضر کے معاشرے کی اصلاح کے لیے لازمی تصور کیا"۔ ابن صفی کے ناول نہ صرف عام قارئین کے لیے ہمیشہ دلچسپی کا سامان رہے ہیں بلکہ فلم اور سیرئیل بنانے والوں کے لیے بھی باعث کشش رہے ہیں۔ متعدد فلم سازوں نے ان کے ناولوں کے پلاٹ سے آئیڈیاز اٹھائے ہیں اور کئی مکالمہ نگاروں نے ان کے ڈائیلاگ سے استفادہ کیا ہے۔ شہرہ آفاق فلم "شعلے" میں امیتابھ بچن کے وہ ڈائیلاگ جو وہ اپنے دوست دھرمیندر کے بارے میں موسی کے سامنے بولتا ہے کہ ہاں وہ کبھی کبھار کوٹھے پر بھی چلا جاتا ہے، کبھی پی بھی لیتا ہے، کبھی جوا بھی کھیل لیتا ہے، عمران سیریز کے ایک ناول سے لیے گئے ہیں۔ اسی طرح نانا پاٹیکر کے لیڈ رول میں بنی ایک فلم "ترکیب" جس میں وہ ایک قتل کی گتھی سلجھاتا ہے، فریدی کے آئیڈیاز اورمجرموں سے راز اگلوانے کی ان کی ترکیبوں کو اختیار کرتا ہے۔ مکیش کھنہ کے سیرئیل مارشل اور دوسرے کئی سیرئیلوں میں ان کے آئیڈیاز لیے گئے ہیں۔ عارف اقبال نے اپنے مضمون میں اس حوالے سے بھی کچھ باتیں کی ہیں اور چند مثالیں بھی دی ہیں۔
پہلے باب میں ابن صفی کے دستخط اور ان کی تحریروں کے عکس کے علاوہ ان کے صاحب زادے احمد صفی کا ایک مضمون بھی ہے جو ان کے گھریلو حالات پر ہے۔ ان کے خاندانی اور علمی پس منظر پر روشنی ڈالنے والا ایک مضمون بھی اس میں شامل ہے۔ مذکورہ کتاب کے سلسلے میں بھی ایک مختصر تحریر موجود ہے۔ اگلے باب میں گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی، شمس بدایونی، عالم نقوی اور دیگر بہت سے قلم کاروں کے تاثرات اور مضامین ہیں جن میں کئی مختصر ہیں تو کئی طویل اور تفصیلی ہیں۔ کئی تفصیلی مضامین تنقیدی اور ادبی حیثیت کے حامل ہیں۔ عصری تناظر میں عارف اقبال کے وہ اداریے ہیں جو انھوں نے جنوری 2004سے اب تک ابن صفی کے فن، شخصیت اور ان کے ادبی کارناموں پر لکھے ہیں۔ ان مضامین میں عصر حاضر میں ابن صفی کی اہمیت و معنویت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان اداریوں کی تعداد 57ہے۔ ان اداریوں میں مختلف انداز سے ابن صفی کے فن کا جائزہ لیا گیا ہے۔ فکر و نظر اور تحقیق و تنقید کے باب میں مضامین کے تنوع کا خیال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ تاہم اہمیت کے پیش نظر اس میں چند ایسے مضامین بھی شامل ہیں جو مطبوعہ ہیں لیکن عام طور وہ کم از کم ہندوستان میں آسانی سے دستیاب نہیں ہیں۔ ایک باب میں ابن صفی کے کئی کرداروں کا جائزہ لیا گیا ہے جیسے کہ کرنل فریدی کا کردار، رومانوی کردار،عمران ناقابل فراموش کردار، نسائی کردار، جنس زدہ کردار وغیرہ۔ تجزیہ و تبصرہ کے باب میں چند ناولوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ جن میں ڈاکٹر عبد الحئی کا مضمون "شاہی نقارہ کا تہذیبی و سماجی مطالعہ" مشتاق احمد قریشی کا "ابن صفی کے ناولوں میں صہیونی سازشوں کا انکشاف" ڈاکٹر سید تنویر حسین کا "ناول پیاسا سمندر عرفان و آگہی" اور حکیم جی این ڈار کا مضمون "تزک دو پیازی ملا دو پیازہ کا عوامی کردار" قابل مطالعہ ہیں۔ ابن صفی کے انٹرویوز او ران سے گفتگو کے احوال بھی خاصے کی چیز ہیں۔ ابن صفی کے چند مضامین بھی اس میں شامل ہیں جیسے کہ میں نے کیسے لکھنا شروع کیا، قواعد اردو، آب وفات (پیروڈی) اور فرار (پہلا انشائیہ)۔ آخر میں ان کی شعری تخلیقات ہیں اور اس سے قبل ان کے دو ناول "شاہی نقارہ" اور "پیاسا سمندر" بھی شامل کیے گئے ہیں۔
یہ کتاب عارف اقبال کی کم از کم ایک سال کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔ جس طرح انھوں نے ابن صفی سے متعلق مضامین یکجا کیے اور انھیں ان کی اہمیت کے لحاظ سے ترتیب وار شامل کیا ہے وہ بجائے خود دقت نظر کا متقاضی تھا اور عارف اقبال نے اس میدان میں اپنی کامیابی کا لوہا منوایا ہے۔ گزشتہ کچھ برسو ںمیں ہندوستان اور بالخصوص پاکستان میں ابن صفی پر جو کام ہوا ہے وہ قابل قدر ہے۔ متعدد ضخیم کتابیں اور نمبر شائع ہوئے ہیں۔ لیکن اتنی ضخیم کوئی کتاب ابھی تک شائع نہیں ہوئی تھی۔ پاکستان میں عہد حاضر میں راشد اشرف نے اور ہندوستان میں محمد عارف اقبال نے ابن صفی او ران کی تخلیقات کے احیا کے سلسلے میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ لائق تحسین ہیں۔ عارف اقبال کی یہ کتاب بلا شبہ ان کا ایک اہم کارنامہ ہے اور راقم کے خیال میں ان کے اب تک کے تمام ادبی و تخلیقی کاموں پر بھاری ہے۔ کتاب کی معیاری طباعت، بہترین کاغذ، اس کی ہمہ جہتی اور ضخامت کے اعتبار سے قیمت بہت مناسب ہے بلکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کم ہے۔ آخر میں ابن صفی کی ایک خوبصورت تصویر اور کراچی میں ان کی آخری آرام گاہ کی تصویر شامل کتاب کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب ایسی ہے کہ ہر اردو خواں شخص کو اسے اپنی لائبریری کی زینت بنانا چاہیے۔

***
Suhail Anjum
sanjumdelhi[@]gmail.com
سہیل انجم

Ibn-e-Safi, Mission and Literary achievement. Book Review: Sohail Anjum

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں