اڈوانی - مودی اور اعظم خاں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-09-16

اڈوانی - مودی اور اعظم خاں

advani modi and azam-khan
اڈوانی ،مودی، اعظم خاں ہندوستانی سیاست کے ایسے نام ہیں جنھیں ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے ۔ ان کی باتیں ،ان کے تیور ،ان کے انداز ،ان کی دھمکیا ں او ران کے اپنی اپنی پارٹیوں سے ناراضگی کے قصے سب کو معلوم ہیں - ان تینوں میں بہت قدر مشترک ہے ۔ اول الذکر دونوں تو ملک کو جہنم بنانے اور اقلیتوں کا خون بہانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ انھیں ملک کے باشندے دجال،ہٹلراور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں اور آخر الذکر ایسی پارٹی کے مسلم چہرے کے طور پر جانے جاتے ہیں جس نے گذشتہ ڈیڑھ سال سے ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کو نفرت اور فرقہ پرستی کے شعلوں کی نذر کر رکھا ہے ۔ آئے دن وہاں فساد ہوتے ہیں اور زمین ہند سرخ لہو سے سَن جاتی ہے ۔ یوپی کے لوگ ایس پی کی حکومت بن جانے کے بعد اپنی ریاست کے ’اتم پر دیش ،بننے کے خواب دیکھتے تھے،اسی لیے انھوں نے بھاری اکثریت سے ایس پی کو فتح یاب کیا۔ اس کے لیے وہ عملاً کوشاں بھی تھےنیزوہ کام کر نے کے لیے فکر مند تھے جس سے یوپی واقعی ’اتم پر دیش ،بن جاتی۔ مگر فرقہ پرستوں کو ان کی یہ ادا پسند نہیں آئی ۔ حکومت نے بھی ان کابھر پور ساتھ دیااور اب صورت حال ہہ ہے کہ یوپی ہندوستان کی سب سے زیادہ فسادات والی اور قابل نفرت ریاست بن چکی ہے جہاںشرپسندوں کو قتل و غارت گری کی کھلی چھوٹ ملی ہو ئی ہے اور موت ڈیرہ جمائے دن کے اجالے میں انسانوں کا شکار کر رہی ہے۔
اڈوانی___ آج کل اپنی ہی پارٹی کی نفرت انگیز نگاہوں کے عتاب کا شکار ہیںجنھوں نے اسے تقریباً چھلنی کر کے رکھ دیا ہے ۔ بی جے پی انھیں ایک عرصے سے نظر انداز کرتی آرہی تھی ۔ گوا اجلاس کے بعد تو اس نے ایک زبردست ڈرامہ بھی کھیلا،استعفا نامہ لکھ کر بی جے پی کے تمام عہدوںسے علاحد گی اختیار کر لی۔ باشندگان وطن ابھی ایک لوہے کا ٹوٹنا دیکھ رہے تھے کہ دوسرے ہی دن وہ لوہا جڑگیا۔ مگر بی جے پی چو نکہ ان کی اصلیت جان چکی ہے اس لیے اپنی سابقہ روش پر قائم رہی اور 13ستمبر 2013 کو تو انھیں پوری طرح کنارے کر تے ہو ئے نریندرمودی کے سر پر وزارت عظمیٰ امید وار کا تاج رکھ دیا اور حسب سابق اڈوانی اس تقریب میں شریک نہیں ہو ئے ۔
مودی___ کے تعارف کے لیے بس گجرات کانام ہی کافی ہے یا 2002 کا ذکر ۔ سب جان جائیں گے کہ ’مودی کون ہے اور اس کے اعمالنامے کتنے سیاہ ہیں۔ ، ہندوستان کا ایک ایسا بدنام زمانہ شخص جس کی سفاکی اور درندگی کی بد ولت ساری دنیا اس سے نفرت کر تی ہے اور اس کے ناپاک قدم اپنی سرزمین پر نہیں پڑنے دیتی۔ ایک ایسا معتوب شخص جس کی گر دن پر لاکھوں گجراتیوں کا خون اور اس کے دامن پر ہزاروں فرضی انکاﺅنٹروں کے دھبے پڑے ہیں۔
اڈوانی،مودی ،اعظم خاں ایسے لوگ ہےں جن کے اچھے کارناموں سے زیادہ برے کام ہیں ۔ یہ لوگ انسانیت کی فلاح و بہبود اور ترقی کے متعلق صرف بیان بازی کرتے ہہیں،دل ان کے بھیڑیوں کی مانند ہیں جن میںسچی ہمدردی اور غم خواری کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ےیہی وجہ ہے کہ جب صورت حال بے قابو ہوجاتی ہے تو بعض پارٹی سے علاحدہ ہونے کی دھمکی دیتے ہہیں اور کچھ شرپسندوں کو قانون سے کھیلنے کا موقع دے کر فضا کو فساد سے بھر دیتے ہیں ۔ پھرامن غارت ہوتا ہے ،لاشیں جلتی ہیں اور مکانوں سے دھوئیں اٹھتے ہیں۔
یہ امروز کا ہی فسانہ نہیں ہے بلکہ ہر دورکی دلخراش داستان ہی ایسی رہی ہے ۔ جس سماج اور معاشرے میں ایسے لوگ ہوتے ہیں اور شومئی قسمت سے علاقائی یا مرکزی اقتدار انھیں حاصل ہوجاتا ہے تو وہ انسانیت کے خلاف ایسے ہی نفرت انگیز کارنامے انجام دیتے ہیں ۔ حالانکہ ہر دور میں ظلم و قتل و غارت گری سے بڑی بات امن و آتشی کے چراغوں کی حفاظت کر نا رہی ہے نیز امن کی خاطر جاں کی بازی لگادینے کی نظیر آج بھی مینارہ نور ہے ۔
ان شرپسندوں نے کبھی حضرت ابراہیم علہہ السلا م پر زندگی کا قافیہ تنگ کیا اور ان کی دعوت نجات کا صلہ یہ دیا کہ انھیں نذر آتش کر دیا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالنے والے ایسے ہی اخوت اور ملت فروش تھے۔ وہ انھں بھائی سمجھتے رہے اور بھائی ان کے قتل کا منصوبہ بنا رہے تھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پران ہی لوگوں نے عرصہ حیات تنگ کیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایسے ہی لوگوں نے سولی دینی چاہی - نبی اعظم و آخر صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی ایسے ہی عناصر سے نبرد آزما ہوتے گذری اورکربلا میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقابلہ ایسے ہی منافقوں سے تھا۔ یہ تو چند علامتی نام ہیں ورنہ کتنے ایسے حق پر جان دینے والے تھے جن کے ذ کرسے تاریخ کے اوراق روشن ہیں۔ حالانکہ ان حضرات نے کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا۔ نہ کبھی توقع کی ۔ بھوکے رہے ،پھٹے حال رہے ،فاقے کیے ، پیاس سے تڑپتے رہے مگر پیغام حق سناکر ان نادانوں کو سمجھاتے رہے۔ یہ انفاس قدسیہ اپنی پیدائٰش کے ساتھ زمانے کی تاریکیاںاور گمراہیاں دور کر نے کے لیے روشنیا ں لے کر آئے تھے مگر انسانیت کے دشمنوں کو اللہ کا نور پسند نہیں آیا اوراسے بجھانے کے لیے انسانیت کے بلند مقام سے اتر کر حیوانیت کی صف میں آگئے پھر جب انسان اور حیوان غیر ممتاز ہوجائیں اس وقت دنیا ظلم و فساد اور لاشوں سے بھر جاتی ہے۔
اڈوانی ،مودی ،اعظم خاں اسی قبیل کے انسان ہیں ۔ جنھیں انسان کہنا بھی توہین انسانیت ہے ۔ یہ صاحب اقتدار ہوکر عہدے کا غلط استعمال کر تے ہیں اور اپنی سیاسی روٹیاں پکانے کے لیے نہتوں ،بے بسوں اورننگے بھوکے انسانوں کا گلا کاٹتے ہیں ۔ انھیں تباہ و برباد کر تے ہیں اپنا مقصد حاصل ہوجانے کے بعد ساری دنیا سے کہتے ہیں ہم اپنی پارٹیوں سے الگ ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں اس پارٹی سے نفرت ہو گئی اس کی پالیسیاں انسانیت دشمن ہیں ۔ ہمیں بے گناہوں کا خون بر داشت نہیں مگر دوسرے ہی دن تمام گلے شکوے بھول کر ،تمام باتوں سے پلٹ کرپھر گلے مل جاتے ہیں اور پھر وہی دن ،وہی راتیں ،وہی اسکیمیں، و ہی کارنامے عوام چاروں طرف سے پس جاتے ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ”کسے ہمدرد کہیں کس سے منصفی چاہیں؟“یہ کیسی ہمدردی ہے انسانیت کے ساتھ اور یہ کیسا رونا جس کی مدت ایک دن بھی نہیں ؟یہ لوگ مذاق اچھا کرلیتے ہیں۔
اس وقت مظفر نگر ہی کیا پوری ریاست سوگواری کے عالم میں سانس لے رہی ہے فسادات کے وقت بھڑکنے والے شعلوں میں ابھی تک جوش ہے۔ حالات معمول پر نہیں ہیں ۔ متاثرین کی آنکھوں ابھی تک خون بہاتی لاشوں کے مناظر تازہ ہیں ۔ لوگ ڈر اور خوف کے مارے کچھ بول نہیں رہے ہیں ۔ خوفزدگی کا ماحول ہے اور قیامت کا ساسناٹا مچا ہوا ہے ایسے عالم میں نئی دہلی میں بڑی شان سے مودی کی تاج پوشی ہو ئی اور اس بے غیرت نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ” ابھی حالات اس قابل نہیں ہیں کہ میں تاج پہنوں یوپی جل رہا ہے پہلے اس کی فکر کییجیے !“دراصل اسے اپنا مفاد عزیز تھا قوم کی خدمت نہیں۔ مودی تو خیر کیا سوچیں گے اس سے ہمیں توقع بھی نہیں ہے مگراعظم خاں جو اس ریاست کے وزیر شہری ترقیات ہیں وہ بھی مفادات کی گنگا میں اتر گئے اور خدمت انسانیت سے پیاری انھیں پارٹی لگی انھوں نے لفظی افسوس کے سوا کچھ نہیں کیا- وہ آج تک مظفر نگر کے فسادزدگان کی دل جوئی کے لیے نہیں گئے۔ انھوں نے آج تک مظفر نگر انتظامیہ کی سرزنش کی سفارش نہیں کی۔ اپنے فرض سے غافل اور لاپرواہ یہ کیسے وزیر شہری ترقیات ہیں ۔ سمجھ میں نہیں آتا۔ انھوں نے یہ اظہار افسوس بھی چوطرفہ مذمتوں اور دباﺅ کے بعد کیاہے ورنہ وہ اس کے لیے کبھی تیار نہیں تھے بلکہ اتنے بڑے فساد کو بازیچہ اطفال سمجھ کر اس کا تماشا دیکھ رہے تھے ۔ انھوں نے اس طرح اظہار افسوس کیا جیسے گر دن سے ناقابل بر داشت بوجھ پھینکا ہو اور جیسے اس سے تباہ حال لوگوں کے جانی مالی نقصان کی تلافی ہوجائے گی ۔ مگر صدیوں سے مظالم کی چکی میں پستے آرہے لوگوں نے اسے ہی کافی مان لیا”ارے بھئی چلو اعظم خاں کچھ بولے توانھیں ہماری تکلیف کا کچھ احساس ہے- ان تک ہمارے لٹنے پٹنے کی خبرتو پہنچ گئی بس یہی ہمارے لیے کافی ہے“برداشت کر نے والے لوگوں کے لیے تو خیر اعظم خاں کا اظہار افسوس ہی کافی ہے مگر وہ لوگ کیا کر یں جو ان کی رگ رگ سے واقف ہیں اور ان کی اصلیت جانتے ہیں۔ ان کے ضمیر کا حال جانتے ہیں۔ انھیں سیاست کی گندگی میںملوث دیکھ رہے ہیں اور اندر و ن خانہ موج مستیاں کر تے دیکھ رہے ہیں انھیں تو یہ بیانات محض بے و قوف بنانے والے اور سیاست زدہ لگ رہے ہیں جن میں انسانی دکھ کا شائبہ تک نہیں ہے۔

***
imranakifkhan[@]gmail.com
موبائل : 9911657591
85 ، ڈیگ گیٹ گلپاڑہ، بھرت پور (راجستھان)۔
عمران عاکف خان

Advani, Modi & Azam Khan. Article: Imran Akif Khan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں