تمہیدی دور میں بزم کے اغراض ومقاصدپر مختصرروشنی ڈالنے کے ساتھ مہمانوں کا تعارف بھی پیش کیاگیااورپھر نواب واجدعلی کے پڑپوتے ڈاکٹرسیدنیرقدرمیرزا اورڈاکٹر ہری کنوررائے جی کے چھوٹے بھائی کے سانئحہ ارتحال پرچند ثانیوں کے لئے خاموشی اختیارکی گئی۔
جلسے کے آغاز میں شری گیتیش شرماجی نے بزمِ نثارکوایک خوبصورت گلدستہ پیش کیاجس کے بعدمعتمدِبزم مشتاق مشفق صاحب کی نقابت میں پہلے شریمتی برنالی سین جی نے اپنامضمون 'ٹول کی تعلیم' اور پھر شری اگم شرماجی نے طنز میں ڈوبا ہوااپنا نیم سیاسی و صحافتی مضمون ' کہنے کو جشن بہاراں ہیں' پڑھا۔ کمال احمد صاحب ، محمودیسٰین صاحب اور مشتاق مشفق صاحب کی جانب سے جن کی بھرپور ستائش کی گئی۔
جلسے کے مہمانِ خصوصی سعیدپیریمی صاحب نے بھی فرمایا۔ یہ ایک اہم نشست کہی جاسکتی ہے۔ بعض باتوں نے معلومات میں اضافہ کیا ہے ۔شرما جی کے مضمون نے ایسی روشنی پھینکی ہے جس نے ہمارے ذہن کے کئی دریچے روشن کردئیے ہیں۔ بارش کے باوجود اتنے سارے لوگوں کا جمع ہوجانا بزمِ نثار کی مقبولیت کی دلیل ہے۔
صدرِجلسہ شری گیتیش شرماجی فرمایا۔ آ ج اردو والوں کے ساتھ بیٹھتے ہی تابش عظیم آبادی یاد آرہے ہیں وہ ایسا خودار شخص جو دو دنوں تک بھوکا رہ جاتا تھا لیکن کسی کے سامنے منھ نہیں کھولتا تھاافسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ وہ جن لوگوں کے ساتھ رہتاتھا انہیں لوگوں نے اسے گھاس نہیں ڈالی ۔ شرما جی نے بتایا میں اردو کے ساتھ بچپن ہی سے جڑاہواہوں اور آج جب کہ میری عمر ۸۳ سال کی ہوچکی ہے میرا رشتہ اس کے ساتھ بدستور استوار ہے۔ میں نے سجاد ظہیر ، سردار جعفری ، عصمت چغتائی اور اسی پائے کے کئی اردو شعراء اور ادباء کی صحبت اٹھائی ہے اور سعادت حسن منٹو کے ساتھ قاضی نذرالاسلام کو بھی خوب پڑھا ہے ۔ منٹو نے جس طرح ٹوبہ ٹیک سنگھ لکھ کر تقسم ملک کے خلاف اپنے کرب کا اظہار کیا ہے اسی طرح نذرل نے بھی ہندو ہوں یا مسلم دونوں کے عیوب کی مخالفت میں کھل کر آواز اٹھائی ہے ۔ اے ۔آر۔ کاردار پاکستان جا کر برباد ہوگئے ۔ منٹو کو دو بار پاگل خا نے میں ڈال دیا گیا ۔ ضیاء الحق کے وقت کتنے شاعروں کو قید کر دیا گیا اس کے باوجود جب میں وہاں پہنچا تو بہ بانگِ دہل یہ کہہ آیا کہ ہم نے آپ پر احسان کیا ہے کہ آپ کو زبان د ے د ی ہے کہ اردو تو ہندوستان کی زبان ہے جس کے شروعاتی دور میں ساری چیزیں اسی زبان میں لکھی جاتی تھیں ۔ بیگو سرائے کے پنڈت بلیا کے پنڈتوں کو اردو میں خطوط لکھتے تھے۔ اردو شاعری کے دو حصے ہیں ایک اس کی رومانی شاعری جس کا جواب اور کسی زبان میں نہیں اور ایک اس کی انقلابی شاعری جس نے تحریک آزادی کے جوش کو آسمان تک چڑھادیا تھا ۔ گیتیش جی بزم کی کاروائیوں سے اتنے متاثر ہوئے کہ بزم کے آئندہ کسی بھی پروگرام کے لئے اپنے ادارے کا ہال مع کا فی بسکٹ کے مفت میں پیش کرنے کا اعلان کر دیا ۔
آخر میں معتمد بزم نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا جن میں شری گیتیش شرماجی ، شری اگم شرماجی او ر شریمتی برنالی سین جی کے علاوہ سعید پریمی صاحب ، کمال احمدصاحب ، محمود یسٰین صاحب ، سید محفوظ عالم صاحب ، محمدانصارالحق صاحب ، عذرا مناظ صاحبہ ، ا یس ایم آرزو صاحب ، جاوید نہال حشمی صاحب ، عبدالستار صاحب ، محمد شہاب الدین ویشالوی صاحب ، غلام حیدر صاحب ، پاریش سین جی ، شکیل احمد صاحب ، محمد نعمان صاحب ، زہیب زمرد صاحب ، بشریٰ سحر صاحبہ ، فرزانہ پروین صاحبہ ، عزیزہ مہوش شکیل اور راقم اشرف احمدجعفری بھی شامل تھے۔
A literary meeting of Bazm-e-Nassaar with non-muslim urdu writers
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں