03/ستمبر حیدرآباد آئی۔اے۔این۔ایس
حیدرآباد کو چندی گڑھ کی طرح آندھراپردیش اور تلنگانہ کا مشترکہ صدر مقام بناتے ہوئے اسے مرکزی زیر انتظام علاقہ قرار دینے حکومت ہند سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔ سیماآندھرا کی جانب سے تلنگانہ کی تشکیل اور حیدرآباد کو صدر مقام بنانے کی شدت سے مخالفت کے بعد حکومت کی جانب سے یہ اشارہ دیاگیا۔ تاہم اس تعلق سے کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیاگیا۔ مرکز کا خیال ہے کہ حیدرآباد کو مرکزی زیر انتظام علاقہ قرار دینے کے بعد آندھراعوام کے جذبات کو ٹھنڈا کیاجاسکتاہے۔ سیما آندھراعلاقہ کے عوام کا یہ خیال ہے کہ حیدرآباد کو مرکزی زیر انتظام علاقہ قرار دیتے ہوئے دونوں ریاستوں کا صدر مقام بنانے کے بعد ان کے مفادات کا تحفظ ہوگا۔ لہٰذا ہم ان کے مطالبہ پر غور کرسکتے ہیں۔ سرکاری ذرائع نے یہ بات بتائی۔ کانگریس پارٹی علیحدہ تلنگانہ کی تشکیل کا فیصلہ واپس لینے کے موڈ میں نظر نہیں آتی اور چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی کے بشمول سیما آندھراکے پارٹی متحدہ آندھراپردیش سے کچھ بھی کم قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ایسے حالات میں یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ ریاست صدر راج کی طرف پیشرفت کررہی ہے۔ ریاست کی تقسیم کے ذریعہ علیحدہ تلنگانہ تشکیل دینے کانگریس ورکنگ کمیٹی کے فیصلہ کے خلاف سیما آندھرامیں عوامی احتجاج میں کوئی کمی واقع نہیں ہورہی ہے۔ سرکاری ملازمین کی غیر معینہ مدت کی ہڑتال، جس میں ٹرانسپورٹ ورکرس اور اساتذہ بھی شامل ہیں، ریاستی انتظامیہ کو مفلوج کرگئی ہے ۔ سیما آندھرا میں عام زندگی بری طرح متاثر ہے اور سرکاری کام کاج پوری طرح ٹھہپ ہورکر رہ گیاہے۔ سیماآندھرا کے مرکزی اور ریاستی وزراء، ارکانِ پارلیمنٹ و مقننہ اجتماعی طورپر مستعفی ہوجانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ایسے حالات میں ریاست میں امکان ہے کہ صدر راج کا نفاذ عمل میں لایاجائے گا۔ صدر راج کی قیاس آرائیوں کو مرکزی حکومت کے اس استدلال سے بھی تقویت ملتی ہے جو اس نے ریاستی ہائی کورٹ میں پیش کیا۔ اگر صورت حال قابو سے باہر ہوجائے اور مرکز کو یہ محسوس ہو کہ اب حالات پر کنٹرول نہیں کیاجاسکتا تو وہ صدر راج کا نفاذ عمل میں لاسکتی ہے ۔ سرکاری ملازمین کی ہڑتال کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران اسسٹنٹ سالیسٹر جنرل پونم اشوک گوڑ نے عدالت کو مطلع کیا کہ ریاست میں صدر راج کے نفاذ کا امکان مستر دنہیں کیاجاسکتا۔ انہوں نے کہاکہ اگر ریاستی حکومت صورت حال پر قابو پانے میں ناکام رہتی ہے تو مرکزی حکومت گورنر کی رپورٹ کی بنیاد پر ایک فیصلہ کرے گی۔ چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی نے یہ بھی اشارے دیئے ہیں کہ اگر کانگریس قیادت 30؍ جولائی کے کانگریس ورکنگ کمیٹی کے فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے میں پیشرفت کرتی ہے تو وہ سیما آندھرا ء وزراء کے ساتھی مستعفی ہوجائیں گے کرن کمار ریڈی نے ایک سے زائد مواقع پر مرکزی قیادت کے فیصلہ کے خلاف اظہار خیال کرتے ہوئے ایک طرح سے علم بغاوت بلند کردیاہے وہ ریاست کی تقسیم کے مخالفین کے قائد بن کر ابھر سکتے ہیں۔ Andhra Pradesh may come under President's rule
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں