تعلیم ، تبلیغ اور تز کیہ دین کے تینوں شعبے ضروری ہیں،جس طرح انسان کے جسم میں آنکھ ، کا ن ، ناک اور زبان علیحدہ علیحدہ امور انجام دیتے ہیں مگر تینوں کا مجمو عہ مل کر ہی چہرہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح مدارس ، مراکز اور خانقاہ تینوں کے مجموعہ ہی سے پو رے دین کا قیام وجود میں آ سکتا ہے ۔ اہل مدارس تبلیغ کا انکار یا اہل تبلیغ مدارس کا انکار یا اہل خانقاہ دوسری چیزوں کا انکا ر کریں ، یہ نا واقفیت کی علا مت ہے ۔ یہاں پر اصلا حی نظام میں بیک وقت تینوں با تیں مو جود ہیں یہاں پر مدرسہ ، خا نقاہی نظام اور دعوت و تبلیغ کا کا م بھی جا ری ہے ۔ اس لحا ظ سے یہ اصلا حی، دعوتی پہلو کا مکمل نظام ہے ۔اسی طرح ہمیشہ ہمیں ایک دوسرے کے تقاضے اور احتیاج کو سمجھنے اور مدد و تعاون کر نے کی ضرورت ہے ۔ شیخ طریقت حضرت مو لا نا مفتی طا ہر صا حب نے رمضان المبارک کے عظیم تحفہ کی قدر دا نی کی طرف تو جہ دلا تے ہو ئے حضرت مو لا نا عبد الحئی ؒ کا مقولہ نقل فرما یا کہ جس شخص نے اپنے اوقات کی قدر دا نی کی اس نے سب کچھ حا صل کر لیا، اور جس نے اپنے اوقات کی نا قدری کی ، اس نے خود پر عطا کر دہ نعمتوں کی نا قدری کی ۔ اس لحاظ سے رمضان المبارک کا ایک ایک لحظہ، ایک ایک ساعت قا بل قدر ہے ۔ اگر ہم نے اس کی نا قدری کی تو گویا ہم ایک بڑے خیر سے محروم ہو رہے ہیں ۔ حضرت مو لا نا عبد الحئی ؒ نے اس مقولہ کو نقل فر ما تے ہو ئے کہا کہ شریعت ، طریقت ، تصوف اور میری ساری زندگی کا خلا صہ یہی ہے۔ حضرت مو لا نا اشرف علی تھا نوی ؒ اپنے مرض الوفات میں بھی ایک لحظہ خا موش نہ تھے ، حا لا نکہ طبیبوں نے بات کر نے سے بالکل منع کر دیا تھا، مگر آ پ تھے کہ کچھ کچھ دیر بعد کسی کو طلب فر ما تے اور کو ئی نہ کو ئی مسئلہ بتاتے، اصلاح کرا دیتے، یہی سلسلہ جب جا ری رہا تو خدام بہت پریشان ہو ئے اور حضرت سے التجاء کہ بھلا آ پ کو کون سمجھا ئے، کم ازکم اپنی طبیعت کا خیال کیجئے،خدا را ہم خدام کے حال پر تھوڑا رحم فر ما ئے ،طبیبوں نے تو بالکل بات کر نے سے منع کیا ہے ، مگر آ پ بو لتے جا تے ہیں ۔ بھلا بتلا ئے اب ہم کیا کریں۔ اس موقع پر حضرت وا لا نے وہ تا ریخی جملہ فر ما یا جو ہر ایک کے لئے راہ عمل ہے ۔ آ پ نے فر ما یا وہ لمحات زندگی کس کام کے، جو دین کی خد مت میں صرف نہ ہوں ، آخری وقت میں بھی یہ فکر دامن گیر ہے کہ زندگی کا کو ئی لمحہ ضا ئع نہ ہو ، اگر ہم وقت کی قدر کریں گے تو زندگی گذار نے کا سلیقہ آ ئیگا ۔ مثلاً اسی ماہ رمضان کو لے لیجئے، شروع میں آ مد آ مد کی خبر اور استقبال کی تیاریاں تھیں اور اب جا نے کا ، ہا تھ سے چھوٹ جا نے کا غم ، یہی حال ساری زندگی کا ہے ۔ ہم نے اگر زندگی کی قدر نہ کی اور اپنے اوقات کو نیک اعمال میں نہیں لگا یا تو دیکھتے دیکھتے ساٹھ ستّر سال کی یہ زندگی ، برف کی سل کی طرح پھگل کر ختم ہو جا ئیگی۔ کسی شاعر کے مطا بق انسان تو وہ ہے جو وقت کی قدر جانتا ہے ورنہ وہ کو ئی بھوت ہے ، جن ہے یا دیو ہے ۔ خا نقاہ میں حا ضری کا مقصد، اپنی زندگی میں وقت کا استعمال کیسے کریں، اسکی مشق کر نا ہے ۔ وقت کی قدر سے آ دمی کو یکسوئی حا صل ہو تی ہے ۔ قلب میں انقلا ب اس وقت پیدا ہو تا ہے ، جب آ دمی کو یکسوئی حا صل ہو ، یکسوئی کے بغیر اصلاح قلب ممکن نہیں ۔ اصلاح قلب کے لئے ذکرمیں یکسوئی کی ضرورت ہے ۔ تو جہ کے ساتھ ذکر کر نے سے مقام حا صل ہو تا ہے ۔ آج کل علماء کرام میں جو کمی نظر آ تی ہے وہ یہی یکسوئی کی کمی ہے ، اپنے مشاغل کی وجہ سے یکسوئی حاصل نہیں کر پا تے ، جس کی وجہ سے قلب کی اصلا ح ممکن نہیں ہو تی ، قلب کی اصلا ح کے لئے شرط اور بنیا دی چیز یکسوئی ہے۔ جس سے ذکر کے فوائد اور تلا وت کے فوائد حا صل ہو تے ہیں ۔ نیز ارتحال و گر یہ وزاری نصیب ہو تی ہے ، جو کہ رسول ﷺ ، صحا بہ کرام اور ہما رے اسلاف کی صفت ہے ۔ جب یہ چیز حا صل ہو جا تی ہے تو اللہ تبا رک و تعالی وہ کام لیتے ہیں کہ رہتی دنیا تک لوگ یاد کر تے ہیں اور دعا ئیں دیتے ہیں ۔ حضرت پیران پیر ؒ نے جب کعبۃ اللہ کا سفر کیا تو ایک چیز کی کمی محسوس کی اور کہا کہ یہاں مجھے ارتحال اور گریہ وزاری کی کمی محسوس ہو تی ہے ، پھر کعبۃ اللہ کے در ودیوار کو پکڑ کر اتنا رو یا کہ پو را حرم گو نج اٹھا اور اللہ تبارک وتعا لی کے دربار میں راز و نیاز کیا کہ یا اللہ میں یہ نہیں کہتا کہ میری عبادتیں قبول ہوں، میں اس قابل کہاں، میری حیثیت ہی کیا ، جو میں یہ کہوں ، بس میری درخواست یہ ہے کہ میرے گناہوں پر معا فی کا قلم پھیر دے، اگر تو نے معاف نہیں کیا اور میں گنہ گار باقی رہ گیا تو اتنا کرم کر دے کہ کل قیا مت کے دن مجھے ا ندھا بنا کر اٹھا تا کہ تیری مخلوق کے سا منے مجھے شرمندگی محسوس نہ ہو ۔ بہر حال وقت کی قدر سے اعمال میں یکسوئی ، ارتحال کی صفت، گریہ وزاری اور ہدایت کے راستے کھلتے ہیں ۔ امام غزالی نے اپنے ایک شاگرد کے نصیحت کے تقاضہ پر خط لکھا کہ اللہ کے رسول ﷺسے بڑھ کر کسی کی نصیحت کیا کام آ ئیگی پھر لکھا کہ رسولﷺ نے فر ما یا کہ آ دمی کا غیر ضروری کام میں مشغول ہو نا اس بات کی علا مت ہے کہ اللہ نے اس شخص سے اپنی نظر عنا یت کو پھیر لیا ہے ، حضرت ابو بکر کا قول بھی یہی ہے کہ آ دمی اپنے اوقات کو مناسب کام میں لگا تا ہے تو اس بات کی علا مت ہے کہ اللہ کا کرم اس پر ہو رہا ہے ، ور نہ ایسا آدمی خسارہ میں ہے ، آدمی جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا اس کے علاوہ ایک ساعت بھی دوسرے کام میں خرچ ہو جا ئے تو با عث حسرت و با عث افسوس ہے ، دوسری بات چا لیس سال کے بعد آد می کی نیکیاں آدمی کی برائیوں پر غا لب نہ آ ئے تو ایسا آ دمی اپنے آ پ کو جہنم کے لئے تیار کر لے ، جیسے جیسے ہماری عمر بڑھے ہماری نیکیاں بھی بڑھنا چا ہیے، آ دمی کی عمر بڑھے اور نیکیاں بھی بڑ ھے تو اللہ کی جانب سے ایسا آ دمی سعد ہو نے کی علا مت ہے ۔
--
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں