اخوان المسلمون کے خلاف کاروائی کو بیشتر عرب ممالک کی خاموش تائید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-08-17

اخوان المسلمون کے خلاف کاروائی کو بیشتر عرب ممالک کی خاموش تائید

بیروت۔(اے ایف پی) بیشتر عرب قائدین، اخوان المسلمین کے خلاف مصر کی خونریز کارروائی کی، خاموش تائید کررہے ہیں۔ ان قائدین کو اخوان کے بڑھتے ہوئے علاقائی اثر سے خطرہ ہے۔ بہار عرب کے سبب قائدین کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہے۔ تجزیہ نگاروں نے یہ احساس ظاہر کیا ہے۔ مصری فوج 1952ء سے راست یا بالواسطہ طورپر برسر اقتدار ہے۔ اس فوج نے مصر کے جمہوری طورپر منتخبہ صدر محمد مرسی کو معزول کردیا ہے۔ محمد مرسی، اخوان کے لیڈر ہیں۔ انہیں گذشتہ 3 جولائی کو بغاوت کے ذریعہ بے دخل کیا گیا اور مصر میں ایک عبوری سیویلین حکومت قائم کی گئی۔ پیرس کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر قطارابوزیاب نے اپنے تجزیہ میں کہا ہے کہ "قطر اور اردن کے سوائے خلیج کے تمام شاہی حکمرانوں کو یہ خطرہ ہے کہ اخوان المسلمین کا انقلاب کہیں ان کے ممالک تک نہ پہنچ جائے۔ اس وجہہ سے مذکورہ حکمراں، یہ توقع رکھتے ہیں کہ مصر میں ایک مستحکم اقتدار کی قدیم صورتحال واپس آجائے۔ عالم عرب میں مصر ایک اہم مقام ہے"۔ یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ مرسی کے حامیوں نے قاہرہ میں احتجاجی کیمپس ڈال رکھے ہیں اور یہ عہد کرچکے ہیں کہ مرسی کی باز ماموری تک وہ یہاں سے ٹلنے والے نہیں ہیں۔ (مرسی ان دنوں تحویل میں ہیں)۔ حکومت نے ان احتجاجیوں کو منشتر ہوجانے کا حکم دیا اور متعدد بار تاخیر کے بعد 2روز قبل یعنی چہارشنبہ کو پولیس نے جن کی حمایت سپاہی کررہے تھے اخوان کے کیمپوں پر ہلہ بول دیا۔ قاہرہ میں اور مصر کے طول و عرض میں ہوئے تصادم کے واقعات میں مہلوکین کی تعداد تقریباً 600 بتائی جاتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بیشتر عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب نے "ترکی اور ایران کے بڑھتے ہوئے اثر پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور حکومت مصرکیلئے ان کی تائید سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ عرب قائدین، مزیدک لاسیکی خطوط پر کلیتاً ایک عرب علاقائی اساس پر مبنی نظام کی واپسی کے خواہشمند ہیں"۔ بہار عرب (شورش) کے بعد سے ترکی نے عالم اسلام میں اپنے اثر میں اضافہ کرلیا ہے۔ ترکی کی اسلام پسند حکومت نظریاتی اعتبار سے اخوان المسلمین سے ہم آہنگ ہے۔ ایران نے صدر شام بشارالاسد کی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرلیا ہے اور مصر میں اخوان کے ساتھ تعلقات قائم کرلئے ہیں۔ بروکنگ دوحہ سنٹر سے وابستہ ایک ماہر امور مشرق وسطی حامی شادی نے کہا ہے کہ "مصر میں جو کچھ ہوا ہے وہ ایک بڑے علاقائی مسئلہ کی پیداوار ہے۔ یہ ایک قسم کی "عرب سرد جنگ" ہے اور یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کونسا فریق جیتنے والا ہے"۔ ریاض اور ابوظبی کیلئے مصر کی بغاوت "ان کے اہم علاقائی مخالف (یعنی اخوان المسلمین) پر ایک کاری ضرب ہے اس لئے اب مذکورہ عرب حکمرانوں کیلئے اپنے موقف میں تبدیلی لانا کوئی معنی نہیں رکھتا"۔ "سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اب،(مصرکی) نئی فوجی حکومت کے اولین سرپرست اور حامی ہیں۔ ان ممالک سے ایسی توقع نہیں ہے کہ وہ حکومت مصر پر کوئی زیادہ تنقید کریں گے۔ گذشتہ 30 برسوں سے سعودی عرب اور اخوان کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہیں لیکن 1991ء کی خلیجی جنگ کے دوران جب سعودی عرب نے اپنی سرزمین پر امریکی فوجی عملہ کو قبول کیا تو اخوان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوگیا۔ 11ستمبر 2001 کو امریکی شہروں پر ہوئے حملوں کے بعد ان تعلقات میں مزید خرابی پیدا ہوگئی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں