2002 کی ڈائری -- بھاجپا - امریکہ اور مسلمان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-08-03

2002 کی ڈائری -- بھاجپا - امریکہ اور مسلمان

BJP and indian muslims
ہندستانی سیاست کو لے کر عام طور پر اس طرح کی گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے کہ مسلمانوں کو نریندر مودی منظور نہیں ہے۔ اسی سے وابستہ ایک سوال ہے کہ کیا مسلمانوں کو بھاجپا منظور ہے۔۔۔؟ کیا نریندرمودی اور بھاجپا کی فکر کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا جاسکتا ہے؟ کیا نریند ر مودی اسی خط پر نہیں چل رہے ہیں جس راستے پر آر ایس ایس اور بھاجپا نے انہیں چلنے کا اشارہ دیا ہے۔۔۔؟ مسلمانوں سے کھلم کھلا دشمنی کا اعلان کرنے والی بھاجپا کو کیا کسی مجبوری کی حالت میں بھی عام مسلمان قبول کرسکتا ہے۔۔۔؟ یہاں یہ بھی غور کرنے والی بات ہے کہ عام بھاجپائی کو چھوڑیے، بھاجپا کے مسلم چہرے بھی کبھی مسلمانوں کی حمایت میں سامنے نہیں آئے بلکہ زیادہ تر تو مسلمانوں کی مخالفت کرتے ہوئے ہی نظر آئے۔ سشما سوراج کے تازہ بیان کے مطابق انہوں نے بھاجپا کے کارکنان سے مسلمانوں کو رجھانے اور سمجھانے کی ہدایت دی ہے لیکن سشما بھول گئیں کہ مسلمان ابھی بھی بھاجپا کے دوراقتدار کو بھولے نہیں ہیں، جب کوئی بھی دن ایسا نہیں جاتا تھا جب مسلم مخالفت کی تلوار مسلمانوں کو پریشان نہ کرتی ہو۔ مودی تو محض ایک مکھوٹا ہے۔۔۔ بھاجپا کی بنیاد ہی مسلم دشمنی کی بنا پر رکھی گئی ہے۔۔۔
یہاں اس ڈائری کا ذکر ضروری ہے جو میں سن 2002 میں تحریر کررہا تھا۔ انتخاب نزدیک ہے۔ سیاسی پارٹیوں میں بھاجپا بھی شامل ہے جو ایک بار پھر مسلمانوں کو رجھانے کاکام کررہی ہے۔۔۔ اس ڈائری کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ دس گیارہ برس پہلے کے بھاجپا کے اس چہرے کا جائزہ لیجئے، جس نے اقتدار سنبھالتے ہی مسلمانوں کا جینا مشکل کردیا تھا۔ اور یقین کیجئے، کہ بھاجپا دوبارہ یہی کام کرنے جارہی ہے۔
2002 کی ڈائری: اندیشے، وسوسے اور لہولہان ملک۔۔۔
اب چلئے دہشت پسندی کے کچھ منظر آپ کو دکھاتا ہوں____

منظر ایک ۔۔۔
4/اکتوبر 2002ء سب ٹی وی چینل پر منوج رگھومانشوی کا پروگرام کھلا منچ چل رہا ہے____ تماشائی ہال میں بیٹھے لوگ آپس میں جرح رکتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جرح کرنے والوں میں راشٹریہ سہارا اردو کے ایڈیٹر عزیز برنی ہیں ____تو دوسری طرف ایودھیا متنازعہ سے روشنی میں آئے اور اپنی بے لگام زبان کے لئے مشہور پروین توگڑیا۔ موضوع ہے "اسلامی دہشت گردی۔۔۔" منوج، پروین توگڑیا کے سُر میں ہی بولتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں پر مسلسل اپنا طنزیہ تیرچلارہے ہیں۔ قرآن کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ تماشائی ہال میں شور ہے۔ عزیز برنی اکیلے پڑے، اپنا بچاؤ کرنے میں پریشان نظر آرہے ہیں۔۔۔
منوج رگھوونشی چیخ رہے ہیں۔۔۔ نہیں آپ کہئے۔۔۔ قرآن صرف اس مخصوص وقت کے لئے صحیح تھا، یا آج کے لئے۔'
توگڑیا پوچھتے ہیں____ آخر اسلامی دہشت گرد کی مخالفت کرنے کے لئے کوئی مسلمان سامنے کیوں نہیں آتا۔ ایک بھی مسلمان؟

تماشائی ہال میں بیٹھے زیادہ تر لوگوں کے ہاتھوں میں فتوے، حدیث اور قرآن پاک کے الگ الگ نسخے، آیتوں کے ترجمے موجود ہیں____ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا جواب ایک ایسے آدمی کو دینا ہے جو ایک اردو روزنامہ کا ایڈیٹر ضرور ہے مولوی یا عالم نہیں۔

بات کھلے منچ کی نہیں ہے۔ آئے دن ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، جب وشوہندو پریشد اور شیوسینکوں کو تماشاگاہ میں بیٹھا کرپروین توگڑیا جیسے بے لگام جانوروں کے سامنے ڈاکٹر برنی جیسے سیدھے سادھے لوگوں کو کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ایسے پروگرام ساری دنیا دیکھتی ہے اور جو پیغام ایسے پروگراموں کے ذریعہ عوام تک پہنچایا جاتا ہے، وہ بہت صاف ہوتا ہے____ مثلاً مسلمان بھگوڑے تھے۔۔۔ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔۔۔ اسلام دہشت گردی کا مترادف ہے۔۔۔ اور مسلمان ،وطن کا غدار ہے۔
ہندوستان میں اسلام مخالف لہر کچھ عرصے سے بے حد تیز ہوئی ہے۔ نتیجے کے طور پر ملک کی سب سے بڑی اقلیت یا دوسرے لفظوں میں ملک کی دوسری بڑی اکثریت، یعنی مسلمانوں نے اگر ایک بار پھر خود کو عدم تحفظ کے گھیرے میں دیکھنا شروع کیا ہے، تو یہ کہیں سے غلط نہیں ہے۔ ایسے ملک میں جہاں کا وزیراعظم تک جذبات کے بہاؤ میں مسلمانوں کے خلاف آگ اُگلنے میں ذرا بھی ہچک محسوس نہیں کرتا ہے، وہاں یہ سوچنا تو پڑے گا ہی____ کہ آخراس شدّت پسند روییّ کا سچ کیا ہے____؟ واجپائی جیسے سیاستداں کو بھی مسلمانوں کے بارے میں وہی ٹیپ چالوکرنا پڑتا ہے۔۔۔ جسے وشوہندوپریشد ایک لمبے عرصہ سے بجاتا آیا ہے____ تب سوچنا پڑتا ہے کہ دال میں کچھ نہیں بلکہ 'خطرناک کالا ضرور ' ہے۔
ایک وقت ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ایودھیا متنازعہ یا ہندوتوا کا 'موضوع' اقتدار کے گلیارے میں خاص ہلچل پیدا کرنے میں ناکام ہے____ لیکن بعد کے حادثوں نے بتادیا کہ ایسا سوچنے والے غلط تھے۔ دراصل ہندستانی تہذیب میں مذہب کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ 100کروڑ کے عوام سے لے کر اقتدار اور سیاست کے گلیارے تک____ ہر زمانہ، ہر عہد کا اکیلا فاتح یا ہیرو 'مذہب' رہا ہے۔۔۔ اور یہ بھی کھلا سچ ہے کہ نئی صدی کا دوسرا سال ختم ہوتے ہوتے اسی مذہب کی آڑلے کر، ایک بار پھر سے اسلام کو جھوٹا، قرآن کو غلط کتاب اور مسلمانوں کو دہشت گرد عائد کرنے کی کارروائی اپنی تمام حدیں پھلانگ چکی ہے۔

منظر2-
24/ستمبر2002ء کو ایک ساتھ دو حادثے ہوئے تھے____ جموں کشمیر ودھان سبھا الیکشن کے دوسرے دور میں 28سیٹوں کے لئے پولنگ ہوئی۔ اس دن صبح سے جی نیوز چینل "فدائن، انکاؤنٹر، پروگرام میں رونگٹے کھڑا کرنے والا لائیوشودکھا رہا تھا۔ جسے دیکھ کر اپنے آدمی ہونے پر شرمندگی ہورہی تھی۔ 16گھنٹے تک چلنے والی کارروائی اس وقت ختم ہوئی جب سیکورٹی فورسیز نے گوگی باغ کے مکان میں چھپے دونوں فدائن دہشت گردوں کو مار گرایا۔ ذرا اس خطرناک منظر کو یاد کیجئے۔ ایک طرف جاری الیکشن، دوسری طرف "دہشت گردوں کو مار گرانے کی کارروائی۔۔۔ کیمرا بار بار چھت پر گرے ایک دہشت گرد پر فوکس ہوتا ہے۔۔۔ جو مرچکا ہے۔ مکان سے آگ کے شعلے اٹھ رہے ہیں۔۔۔ آگ میں جلتا ہوا ایک چھجہ دہشت گرد کے پاس گرتا ہے۔۔۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے دہشت گرد کا بدن آگ کے شعلوں میں جھلس جاتا ہے۔۔۔
25-20 سال کے ان جوانوں کی شناخت اسلامی دہشت گرد کے طور پر کرائی جارہی ہے۔ اسلام، جو پیدائش سے اپنی تعلیم میں تشدد، بھید بھاؤ، چھوا چھوت کے خلاف، جنگ لڑتا رہا ہے____ 20ویں21-ویں صدی میں 'بڑی طاقتوں' کے ذریعہ ایک سچے مذہب اور دنیا کی دوسری بڑی آبادی کو آج دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے۔
24/ستمبر کو ہی گجرات کے اکچھردھام مندر پر فدائن ____دہشت گردوں کے حملے کی خبریں سارے ملک میں چیخ رہی تھیں۔ لوگ سانس روکے اسلامی دہشت گردی اور پولیس کمانڈو کی کارروائی کو دیکھ رہے تھے۔ ملک کا ہر نیوز چینل اس لائیو شو کو زیادہ سے زیادہ سنسنی خیز بناکر دکھانے کی کوشش کررہا تھا۔ کیا یہ دونوں کارروائیاں اسلامی تھیں؟ یا صرف دہشت گردی کی کارروائیاں۔۔۔؟
آپ کہہ سکتے ہیں کہ فدائن چونکہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کررہے تھے۔۔۔ اس لئے یہ اسلامی کارروائی ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کون کرے گا کہ 'فدائن' اس طرح کی کارروائی سچ مچ اسلام کے نام پر کررہے تھے؟ اسلامی تحریکوں سے وابستہ 'حرکت القصاص، لشکر طیبہ یا حرکت المجاہدین کو چیخنے دیجئے____ حقیقت میں کوئی بھی ہندوستانی مسلمان اسے گلے اتارنے کو تیار نہیں ہے کہ یہ فدائن ان کے آدمی ہوسکتے ہیں۔۔۔ یا یہ سب کچھ اسلام کو بچانے کے لئے کیا گیا تھا۔۔۔ اس کے بعد بھی، ابھی حال تک جموں اور کشمیر میں (اگست 2003) ہونے والے فدائین حملوں کے بارے میں خود کیجئے۔۔۔ جب جب دہشت گردی کا کوئی بھی 'حادثہ'، مذہب یا خاص طبقہ سے جوڑ دیا جاتا ہے تو پورے ملک میں رہنے والے اس فرقہ کے لوگوں پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔۔۔
حقیقت میں امریکہ یہی چاہتا ہے۔ اسلام ایک بڑی طاقت کے طور پر ملک کے نقشے پر ابھرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس اثر کو مٹانے کے لئے مسلمانوں اور اسلام کو حاشیے پر ڈھکیلنے کے لئے امریکہ نئے نئے بہانے ڈھونڈتا رہا ہے اور ایک بڑی طاقت کا ساتھ دینے کے لئے چھوٹے بڑے سبھی ملک مل کر امریکی تاناشاہ کا ہاتھ تھامنے کو تیار ہوگئے تھے____ حقیقت میں دیکھا جائے تو امریکی تہذیب کا سب سے زیادہ مضحکہ خیز اور گھنونا اعلان تھا۔۔۔ اسلامی دہشت گردی کا اعلان۔۔۔ آج تک کسی بھی مذہب۔۔۔ ملک یا سماج میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کو مذہب سے جوڑ کر نہیں دیکھا گیا____ عیسائی دہشت گردی، یہودی دہشت گردی یا ہندو دہشت گردی کی مثالیں کبھی نہیں دی گئیں۔ سن 84 میں کچھ وقت کے لئے سکھ دہشت گردی، کی آواز اٹھی تھی۔ مگر بعد میں 'اگروادی' یا آتنک وادی کہہ کر اس کلنک کو مذہب سے ہٹانے کی کوشش کی گئی۔۔۔ پھر اسلامی دہشت گردی کیوں؟ دوہری ذہنیت یا دوہرا رویہ کیوں؟ کیا یہ کل ملاکر مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالنے کی کارروائی نہیں ہے۔۔۔؟
یہ سوال حقیقت میں غور طلب ہے کہ کیا این ڈی اے کا ساتھ دینے والی سبھی پارٹیاں اور کچھ کچھ کانگریس بھی ایسا سوچنے پر مجبور ہے۔۔۔؟ کیونکہ مسلمانوں کا ساتھ دینے پر جس طرح پاسوان جیسوں کو حاشیے پر پھینک دیا گیا ہے، یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ دراصل ووٹ بینک کے لئے دلت اور مسلمان دو ایسے بڑے ہتھیار رہ گئے ہیں جن کے اردگرد تمام پارٹیاں ڈول رہی ہیں۔ مسلمان جو نہ کبھی کمیونسٹ پارٹی کا ہوا، نہ کانگریس کا، نہ بی ایس پی کا ہوا اور نہ ہی سماجوادی کا۔ مسلمانوں کے ووٹ بینک کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتے گا،یہ وہ الیکشن میں اچھے اچھوں کی نیند اڑا دیتا تھا۔ مسلمانوں کے ساتھ سیاست، حکمت عملی یا ڈپلومیسی کے 'ٹانکے بھرانا' بھی ناممکن تھا۔ مسلمانوں کو توڑ دو تو انتخابی تجزیہ خود آسان ہو جائے گا، کا اصول زیادہ آسان تھا۔ ادھر امریکہ نے لادین کی مقبولیت سے گھبرا کر اسلامی دہشت گردی کا راگ چھیڑا____ اور ادھر بی جے پی کی سیاست میں تیزی آگئی۔
تو کیا بی جے پی کا برسوں پرانا خواب یہی تھا۔ حکومت کرنے کا اکیلا، خاموشی اور صبر کی بنیاد پر مبنی نظریہ یعنی۔۔۔ صبر سے کام لو۔ وقت کی پرواہ مت کرو۔ بھگوا تعلیم، بھگوارنگ اور بھگوا انجکشن۔۔۔دیر آیددرست آید کے نظریوں پر کام کرتی بی جے پی سرکار کو اب صرف ایک قلعہ فتح کرنا ہے____ بھاجپا پر سے این ڈی اے کے 'چوکٹھے' کو الگ کرنا۔ نیوٹن کے نظرئیے اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔۔۔ تو اگلے انتخاب تک بی جے پی کو کسی بھی بیساکھی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
گجرات میں مودی کی فتح سے ان کا سینہ پہلے ہی 'چوڑا' ہوچکا ہے۔۔۔

***
اس حقیقت کو جاننا ضروری ہے کہ بھاجپا میں اکیلے مودی نہیں ہیں جو نفرت کی زبان میں گفتگو کررہے ہیں۔ بھاجپا کی اب تک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہ ہوگا کہ انتخاب سے قبل تک بھاجپا کا ہر مکالمہ مسلمانوں کے خلاف ہی ہوتا ہے۔ کیا کبھی ارون جیٹلی، سشما سوراج، جسونت سنگھ، یشونت سنہا کسی نے بھی مسلمانوں کی حمایت میں کوئی ایک بھی آواز بلند کی۔۔۔؟ ان میں کئی ایسے چہرے ہیں جنہیں میڈیا سیکولر بنا کر بھی پیش کرتی آئی ہے۔ لیکن المیہ یہ بھی ہے کہ ان میں کوئی چہرہ ایسا نہیں جس نے کبھی بھی، کسی بھی معاملے میں مسلمانوں کی حمایت کی ہو۔۔۔ اور نہ ہی ان لوگوں سے آئندہ کسی حمایت کی امید کی جاسکتی ہے۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھاجپا ایک بار پھر 90 والی حالت میں پہنچ چکی ہے۔ اور غور کیجئے تو کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ اس بات کو مت بھولیے کہ ابھی پی ام کے طور پر باضابطہ مودی کے نام کا اعلان نہیں ہوا ہے۔ 90 کے حالات مکمل طور پر اڈوانی کے حق میں تھے۔ گہرائی سے غور کیجئے تو ایل کے اڈوانی سیکولرزم کا لباس پہن کراس بار بھی مودی کی بساط کو الٹ سکتے ہیں۔
اڈوانی کے ایک بیان سے بھاجپا دو حصے میں تقسیم ہوگئی ہے۔ اور یہ کہنا صحیح ہوگا کہ بھاجپا کا زیادہ بڑا حصہ آج بھی اڈوانی کے حق میں کھڑا ہے۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان سے بغاوت کی آوازیں بلند ہوچکی ہیں اور ادھر بہار میں شتروگھن سنہا نے نتیش کے سہارے بغاوت کا شنکھ پھونک دیا ہے۔ اڈوانی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ 'میں 14 برس کی عمر سے ہی رتھ یاتری ہوں'۔ وقت کے ساتھ صرف مقصد بدلتا چلا گیا۔۔۔ اس لیے مت بھولیے کہ یہ اڈوانی ہی تھے جنہوں نے بھاجپا کو ایک بڑی شناخت دلانے میں تعاون کیا۔ 1984 میں بھاجپا کی دوسیٹ تھی جو 1989 میں 86 ہوگئی اور 1999 میں 182 سیٹوں تک پہنچ گئی۔ اور اس کامیابی کے منتر کے پیچھے وہی مسلم مخالفت کی صدا رہی ہے جس کی ادائیگی اڈوانی کے طریقے سے ہی آج مودی کررہے ہیں۔ ممکن ہے انتخاب کے آتے آتے بساط پلٹ جائے مگر مودی ہوں یا اڈوانی، فرق کیا پڑتا ہے۔ بھاجپا میں پی ام کا امیدوار کوئی بھی چہرہ ہو، آپ اسے مسلمانوں کا حمایتی یا سیکولر نہیں کہہ سکتے۔۔۔ کیوں کہ اصلیت یہ ہے کہ بھاجپا کی زمین ہی مسلم دشمنی کی بنیاد پر رکھی گئی ہے۔
اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ آج ہم میں سے ہی کچھ لوگ یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ مودی کی جگہ ایل کے اڈوانی کو بطور پی ام قبول کیا جاسکتا ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ بھاجپا کی سیاست میں شامل تمام چہرے دراصل ایک ہی مکھوٹا لگائے ہیں۔ اڈوانی کو مودی کے مقابلہ میں معصوم تصور کرنے والے شاید یہ بھول گئے کہ اپنی رتھ یاتراؤں سے جو خوفناک ماحول اڈوانی نے اس ملک میں پیدا کیا تھا، اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔
بھاجپا کے دوراقتدار کا ہر دن مسلمانوں کے لیے کسی بھیانک خواب سے کم نہیں تھا۔ حیرت اس بات کی ہے کہ صرف 12 برس پرانی تاریخ کو آپ ہم اور میڈیا کیسے بھول سکتے ہیں۔ یہاں 2002 کی ڈائری کے وہ اوراق روشن ہیں، جہاں ہر دن بھاجپا کا کوئی نہ کوئی بیان مسلمانوں کو لہو لہان کردیتا تھا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب پہلی بار بھاجپا نے مدارس کو اپنا شکار بنایا تھا۔
مدرسے اسلامی دہشت گردی کی فیکٹری
دیکھتے ہی دیکھتے مدرسے اسلامی دہشت گردی کی فیکٹری بن گئے۔ ہندستانی عوام کے دلوں میں گانٹھ کی طرح یہ بات بیٹھا دی گئی کہ حقیقت میں مدرسے ہی نئی دہشت گردی کی پیداوار ہیں۔ مدرسوں کے حالیہ سروے سے کئی دلچسپ تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ ایک نوجوان نے اپنا نام خفیہ رکھتے ہوئے بتایا کہ سرکار کی طرف سے معائنہ کے لئے آئے لوگوں نے کچھ بے حد دلچسپ مگر قابل اعتراض سوالوں کی جھڑی لگادی۔۔۔
۔۔۔آپ پڑھتے ہیں؟
-ہاں-
۔۔۔کہاں؟
-مدرسے میں-
۔۔۔کیا تعلیم دی جاتی ہے؟
دینی تعلیم۔
۔۔۔کیا وہی تعلیم دی جاتی ہے جو افغانستان میں ملا عمر یا لادن حمایتیوں کو دی جاتی ہے۔
ہاں، دینی تعلیم ساری دنیا میں ایک ہی ہوتی ہے۔
۔۔۔آپ کیا پڑھتے ہیں؟
قرآن وحدیث۔
۔۔۔کیا یہی قرآن وحدیث افغانستان میں بھی پڑھایا جاتا ہے؟
-ہاں-

یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ایسے سروے سے کیا نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مدرسے، اسلامی تعلیم کے مرکز ہیں۔ مدرسوں کو ڈھانے کا مطلب ہے۔ اسلام پر پابندی۔ ایک مکمل تہذیب کا خون۔ یہیں سے قرآن وحدیث کی تفسیر پڑھانے والے مولوی اور حافظ نکلتے ہیں۔ اپنے بچوں کو دینی تعلیم دینے کے لئے مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی انہیں پر منحصر رہتی ہے۔
مدرسوں کو ختم کرنے کی حکمت عملی اپنانے سے زیادہ ضروری ہے، یہ دیکھنا کہ غلطی کہاں ہورہی ہے؟ بے روزگاری اور بھوک سے، پیدا ہوئے سچ سے بھی زیادہ خطرناک ہے وہ ماحول____ جو پچھلے 15-10 برسوں سے اس ملک میں پیدا کیا جارہا ہے۔ ایک سچ یہ بھی ہے کہ نئی نسل پاکستان سے شدید نفرت کرتی ہے۔ وہ تسلیم کرتی ہے کہ ہندوستان میں بھڑکنے والے فسادات کے پیچھے پاکستان کا بھی ہاتھ رہتا ہے۔شتعال اور غصّے کا شکارتو اب قرآن جیسی پاک کتاب بھی ہونے لگی ہے، جس کے بارے میں کوئی بھی مسلمان ایک لفظ بھی سننے کو تیار نہیں ہے۔ اس پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے سچ الگ الگ ہیں۔۔۔
لیکن 'دیش پریم' کا مطلب وہ نہیں ہونا چاہئے، جیساکہ مسلمانوں سے امید کی جاتی ہے۔۔۔یعنی آپ مسلسل پاکستان کو گالیاں دیجئے تو وفادار____مسلمانوں کو ایک نئی تعریف ڈھونڈھنی ہوگی۔ کیوں کہ آنے والے وقت میں دہشت گردی، حب الوطنی اور وفاداری سے متعلق انہیں کتنے ہی امتحانوں سے گزرنا باقی ہے۔
مسلمان مخالف بیانوں کا بڑھتا 'آتنک'
کیاآپ نے غور کیا ہے پچھلے کچھ ایک مہینوں سے وزیراعظم سے لے کر مودی، توگڑیا، نائیڈو اور آچاریہ گری راج کشور تک، جس طرح مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ آزادی کے بعد کی تاریخ پر ایک ایسا کلنک ہے، جسے نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ملک کی تاریخ میں ایسے حادثے کوئی پہلی بار نہیں ہورہے ہیں۔ لیکن ہندو 'ساٹیکی' سے پیدا ہوئے ہیڈگوار ہوں۔۔۔ شیاما پرشاد مکرجی، یا انڈمان کی جیل میں قیدی بناکر بھیجے گئے ویر ساورکر____ یا جناح کے مسلم لیگی بیانات کا تلخ جواب دینے والے پٹیل ہوں۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ تب کی تاریخ اور 'سچ' مختلف تھا۔ تب ہندوستان کا جسم غلام تھا۔۔۔ اور گاندھی جی کی دو آنکھیں یعنی ہندو اور مسلمان کو تقسیم کرنے میں فرنگی سرکار نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ملک کی توڑ پھوڑ اور تقسیم کا مسئلہ اتنا خطرناک تھا کہ پاکستان، جناح، مسلم لیگ اور مسلمان۔۔۔ نفرت کے مستحق سمجھ لئے گئے تھے۔

ملک کی تقسیم کی تاریخ کو بعد کی نسلیں بھی فراموش کرنے میں ناکام رہیں۔ گویا یہ اپنے آپ میں ایسا زخم تھا جس کا ذکر آتے ہی مسلمانوں کے لے ایک عجیب سی نفرت کا جذبہ پیدا ہوتا تھا____جن سنگھ اور جن سنگھ سے پیدا ہوئی ہندو 'شاکھاؤں' نے اسی نفرت بھرے تصور کو پروان چڑھایا۔۔۔ لوگوں کو بھڑکایا۔۔۔ دراصل یہ وہی فلسفہ تھا، جو خون آلودہ تقسیم کی کوکھ سے پیدا ہوا تھا۔۔۔ شاید یہ سچ بھی جلد ہضم نہیں ہوسکا کہ تقسیم سے پیدا ہوا ایک ملک تو اپنے کلچر اور تہذیب کو لے کر، "جمہوریت" اور سیکولرازم کا دعویٰ ٹھوکتارہا، وہیں دوسرے ملک نے جمہوریہ اسلام کا 'ٹھپّہ' لگاکر رہی سہی وفاداری اور دوستی کی دیوار پر آخری کیل ٹھوک دی____ یہی نہیں جب اس جمہوریہ اسلام کہنے جانے والے ملک سے بنگلہ دیش الگ ہوا۔۔۔ تب، اس دوسرے ملک پر بھی اسلامی ملک کا ٹھپّہ برقرار رہا____
آزادی کے بعد سے اب تک وشوہندو پریشد، ہندو مہاسبھا، یا شیوسینا جیسی جماعتوں کے گلے سے اسلام کی 'ہڈی' نہیں نکلی ہے۔ آزادی کے بعد کی تاریخ میں پڑوسی ملک کے تعلق سے جب کبھی کوئی واردات سامنے آئی ہے اسے فوراً اسلام سے یا مسلمانوں سے وابستہ کرکے دیکھا گیا ہے۔۔۔ نتیجے کے طور پر نفرت کی آندھی کم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی گئی ہے۔۔۔
آزادی کے بعد جن سنگھ کی مسلسل شکست نے مسلمانوں اور سیکولرازم کے خلاف نیا مورچہ کھولنا شروع کیا۔ جن سنگھ کے نئے اوتار بھاجپا نے جن سنگھ سے سبق لیتے ہوئے نئے طریقے سے کام کرنا شروع کردیا۔۔۔ کام مشکل تھا۔ لیکن ٹھوس اور کامیاب نتیجہ دینے والا ۔ اور جس رتھ کے مہارتھی اٹل بہاری، شری اڈوانی اور مرلی جی جیسے دانشور ہوں، وہاں 'صبر' انتظار اور راج کرو، کے نظرئیے خود ہی کام کرنے لگتے ہیں۔ رتھ یاترا، بابری مسجدشہید کیے جانے کے بعد سے ہی 'نئے ہندوسمی کرن' بننے شروع ہوگئے تھے۔۔۔ انہیں 'سمی کرنوں' سے کٹیار ،توگڑیا اور مودی جیسے تیز دھار والے بے لگام شمشیروں کی تخلیق ہوئی تھی۔اب یہ ایسے بے لگام گھوڑے بن چکے ہیں جن کی آواز اگر روکی نہیں گئی تو ملک کو ایک بار پھر سخت مصیبت سے گزرنا پڑسکتا ہے۔آپ خود غور کیجئے، یہ 2002 کی ڈائری کے صفحات ہیں اور آج کی بھاجپا کو اسی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کیجئے تو کہیں کچھ نہیں بدلا۔ ہاں کچھ نئے نام ضرور اس فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔

***
جب صرف مودی کا مسئلہ اٹھایا جاتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم بھاجپا کو اس کے گناہوں سے آزاد کررہے ہوں۔ یعنی مودی تو مسلمانوں کے دشمن ہیں لیکن بھاجپا کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو یہ میڈیا ہی ہے، جس نے عام ذہنیت میں برسوں میں یہ بات بیٹھانے کی کوشش کی ہے کہ مودی تو ہندو تو کے ترجمان ہیں لیکن بھاجپا کی سیاسی روش مختلف ہے۔ یہ وہی میڈیا ہے، جس کو بھاجپا نے آج اپنے قبضے میں کیا ہوا ہے اور میڈیا کا ایک بڑا طبقہ بھاجپا کو سیکولر ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے۔ دراصل اسی تصویر کے کئی پہلو ہیں۔ مودی کے ذریعہ مسلم مخالف یعنی اکثریتی ووٹ پر مضبوطی سے قبضہ کرنا۔ اور بھاجپا کے باقی چہروں کو سیکولر ثابت کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کرنا کہ اگر مودی پرائم منسٹر بن بھی جاتے ہیں تو مسلمانوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بھاجپا کے دیگر اراکین تو مسلمانوں کی حمایت میں کھڑے ہیں۔ دراصل یہ وہ سفید جھوٹ ہے، جس کی سیاست کرتا ہوا بھاجپا آج بھی پرامید ہے کہ اسے مسلمانوں کی ذرا بھی حمایت حاصل ہوگئی تو اسے حکومت بنانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔۔۔ یعنی ہر حال میں بھاجپا کو مسلمانوں کی حمایت بھی چاہئے۔ اس کے لیے بھاجپا پہلے بھی یہی موقف اپنا تی رہی ہے کہ مسلم سیاستدانوں کے ووٹ کو تقسیم کردو اور اپنا ووٹ بینک مضبوط کرلو۔ دیکھا جائے تو اگر ایک ہی جگہ سے کئی مسلم امیدوار کھڑے ہوتے ہیں تو اس کا فائدہ بہر حال بھاجپا کو تو ملتا ہی ہے۔ ایک حقیقت اور بھی ہے، اس بار راج ناتھ کے سہارے آر ایس ایس، ہندو راشٹریہ کے خواب کا اپنا گیم کھیل رہی ہے۔ یہ �آر ایس ایس کا صدیوں پرانا خواب ہے، جسے کبھی اس نے ایل کے اڈوانی کے سہارے سچ ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔ لیکن اڈوانی کے سیکولرزم کا لباس پہنتے ہی آر ایس ایس کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا تھا۔ اب اسی خواب کو آر ایس ایس نے مودی کے سہارے دیکھنا شروع کیا ہے۔ حکمت عملی کے طور پر کمیٹی کی تشکیل ہوچکی ہے۔ اور ان میں سے کچھ لوگوں کو، مسلمانوں کو فیور میں کرنے کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی ہے۔
بھاجپا کے دور اقتدار کی تصویریں ذہن ودماغ میں اب بھی تازہ ہیں۔ اور ان دنوں کی یاد اس لیے بھی ضروری ہے کہ آج جو فتنے سامنے آرہے ہیں، دراصل وہ اسی دور کی پیداوار ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمان نام کا ہونا ہی شک ، خوف اور دہشت کی علامت بن گیا تھا۔ یہ وہ دور تھا بھاجپا نے زندگی کے ہر دروازے مسلمانوں کے لیے بند کردیے تھے۔ اس لیے پرانی ڈائری کے صفحوں سے ان خوفناک یادوں کو آپ کے سامنے رکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔
2002 کی ڈائری ، ناموں کا چکر اور خوفناک مسلمان
کہتے ہیں جرم کا کوئی مذہب، ایمان نہیں ہوتا۔۔۔ مجرم نہ ہندو ہوتا ہے، نہ مسلمان۔۔۔ مجرم کسی بھی ملک کی عدالت میں صرف مجرم ہی ہوتا ہے۔۔۔ مجرم کی اس نئی سائیکی کے بارے میں دنیا کے سب سے بڑے مصنف شیکسپیئر کی بھی پہنچ نہیں تھی____ شاید اسی لئے شیکسپیئر کو کہنا پڑا تھا۔۔۔ نام میں کیا رکھا ہے؟ آج نام میں بہت کچھ رکھا ہے۔
دہشت گردی کی تعریف آج بالکل ہی بدل دی گئی ہے۔ جو بھی ہے، سب کچھ نام میں ہے۔۔۔ دوبئی کا داؤد ہو۔۔۔ یا پرتگال میں پکڑا گیا ابوسالم۔۔۔ مافیا اور انڈرورلڈ کے یہ مسلم نام اسلامی دہشت گردی کی علامت بن گئے ہیں۔
کیسی عجیب۔۔۔مضحکہ خیز حقیقت ہے۔۔۔مافیا سرغنہ چھوٹا راجن، چھوٹا راجن رہتے ہیں____ لیکن چھوٹا شکیل، ابوسالیم یا داؤد مسلمان بن جاتے ہیں۔ 'نشیڑی' اور 'ٹیپ کانڈ' میں پکڑا گیا سنجے دت صرف ایک ایکٹر رہتا ہے____ اور جے پور کے ہرن تنازعہ یا کار ایکسیڈنٹ کرنے والا سلمان خاں ایکٹر سے مسلمان بن جاتا ہے۔کرکٹ سٹّہ اور جوئے میں ہندوستان سے ساؤتھ افریقہ تک بے شمار نام اُچھالے جاتے ہیں لیکن کلونزرسے جڈیجہ اور مونگیا تک تنازعہ میں الجھے چہرے محض کرکٹرہی رہتے ہیں۔ لیکن اسی سٹہ بازار کا شکار اظہرالدین مسلمان قرار دیا جاتا ہے____ کیوں؟
دیکھا جائے تو نام میں بہت کچھ رکھا ہے____ جرم اور دہشت گردی کو قوم، برادری اور مذہب سے جوڑنا مناسب نہیں۔۔۔ ایسا کرنا اپنے آپ میں جرم ہے____ اس سے پہلے کہ ناموں کا یہ چکّر بڑھتے بڑھتے نفرتوں کی نئی تاریخ لکھنا شروع کردے، ان چھوٹی چھوٹی 'غلطیوں' کی تلافی کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ جرم کو صرف جرم سمجھنے کی ذہنیت کو بڑھاوا ملنا چاہئے۔۔۔ اخلاقیات سے 'مذہب کے ہاتھی دانت' نکال کر یہ بتانے کی کوشش ہونی چاہئے کہ اظہر ایک کرکٹر ہے۔ سلمان ایکٹر۔ داؤد یا کشمیر اور پاکستان انسپانسرڈ دہشت گرد، مسلمان یا اسلام سے جڑے لوگ نہیں ہیں۔ صرف مجرم ہیں۔
گجرات ہو یا بھاگلپور۔۔۔ ملیانہ یا 1984ء کا سکھ ہندو دنگا۔۔۔ دہشت گردی کیسے پیدا ہوتی ہے____ ہم دیکھ چکے ہیں۔ ناموں کے تنازعہ میں پھنس کر، بگڑتی ہوئی صورت حال اتنی خطرناک ہو جائے گی کہ مستقبل میں اس پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔
دنیا کی دوسری بڑی قوم نشانے پر ہے۔۔۔ اور دہشت گرد ٹھہرائی جاچکی ہے۔۔۔ 10برسوں میں 'مسلمان' ہونے کا احساس کچھ زیادہ ہی زور پکڑتا چلا گیا ہے اور اب اُسامہ بن لادن اور صدام کے نام کے ساتھ دوسرے 'مسلمان' نام کچھ ایسے خوفناک ہوچکے ہیں کہ آسٹریلیا، امریکہ اور انگلینڈ میں آئے دن ان دہشت گرد داڑھی والوں کو بیچ بازار میں پکڑ کر جان سے مارنے کی کارروائی چل رہی ہے۔۔۔ مقصد صاف ہے۔۔۔ دہشت گرد۔۔۔ کو ماردو____ دہشت گردی خود ختم ہو جائے گی۔ لیکن دہشت گرد کون؟
مسلمان اور کون۔۔۔؟ مطلب پہلی گولی اسلام پر چلاؤ۔ مسلمان خود مر جائے گا۔
پچھلے دس برسوں میں دنیا کی اس سب سے بڑی قوم نے کسی بھی ملک میں، کسی بھی سطح پر کچھ بھی کہا یا کیا ہو، میڈیا نے ہر بار 'مسلمان ' اور اسلام کو کچھ ایسے رنگوں میں پیش کیا ہے کہ پڑھے اور لکھتے ہوئے ہر بار مسلمان ہونے کی حیثیت سے تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔تکلیف کا احساس تو ایک الگ بات ہے۔ ہندوستان کی اس 25کروڑ مسلمان آبادی کو، سامنے والے کی آنکھوں میں شک کی پرچھائیاں بھی نظر آنے لگی ہیں۔
۔۔۔آپ مسلمان ہو؟
ہاں بھائی ہاں،
۔۔۔تو مسلمان ایسے بھی ہوتے ہیں؟
'یعنی' مسلمانوں کو کیسے ہونا چاہئے؟
۔۔۔'نہیں! میرا مقصد'۔۔۔
میں سمجھاتا ہوں۔ میزائلیں۔۔۔راکٹ لانچرس، اے کے 47- وغیرہ ہر وقت ہاتھوں میں لے کر گھومنا چاہئے۔۔۔ تاکہ دور سے ہی انہیں دیکھ کر زمین جوتتا ہوا کسان تک چیخ اُٹھے____ وہ جارہا ہے مسلمان۔۔۔ دہشت گرد۔۔۔ ہے نہ؟ نیوز ویک ٹائمس سے لے کر انڈیا ٹوڈے جیسی میگزین دیکھ لیجئے۔ ہتھیار اٹھایا ہوا مسلمان۔۔۔ توپ کے گولوں کے درمیان کھڑا مسلمان۔۔۔ آگ لگاتا ہوا مسلمان۔ افغانی پہاڑیوں پر چوکس ہتھیار بند مسلمان۔۔۔ چلاّتا ہوا مسلمان۔ پاکستان میں آئے دن خطرناک جلوسوں کی قیادت کرتا ہوا مسلمان۔۔۔ کچھ عرصے پہلے ایک میگزین میں معصوم 16سال کی ایک بچی کی تصویر شائع ہوئی تھی۔ طالبان کے خلاف مورچہ پر، 14برس کی یاسمین۔۔۔ بندوق اٹھائے ہوئے یاسیمین کی تصویر مسلمانوں کی نئی سمت کو صاف صاف بیان کرتی نظر آتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں کلاشنکوف اور گرینیڈ۔۔۔ یہ تصویر سب کی نظروں میں آچکی ہے۔ یعنی کل ملاکر طالبان بھی ہے مسلمان۔۔۔ اور جو طالبان کے خلاف ہیں یا کھڑے کئے گئے ہیں وہ بھی مسلمان۔۔۔ ناردن الائنس سے لے کر پاکستان اور عرب ملکوں تک مسلمان شک اور سوالوں کے گھیرے کھڑا ہے۔ امریکہ میں۔۔۔ انگلینڈ میں۔۔۔ ہندوستان میں۔۔۔ پاکستان میں۔۔۔'وہ اسامہ اور صدام سے پہلے بھی شک کے گھیرے میں تھا اور اسامہ اور صدام کے بعد اس کا (مسلمان کا) چہرا اتنا بگاڑ دیا گیا ہے کہ وہ اب دور سے ہی دہشت گرد نظر آنے لگا ہے۔
مسلمانوں کی مخالفت اور زہر اگلنے کی کارروائی آج ایک بھیانک روپ لے چکی ہے۔ میڈیا نے ہر بار مسلمان اور اسلام کو غلط رنگوں میں پیش کیا ہے۔ پاکستان میں 'زانی' کو سنگسار، کرنے کا مسئلہ ہو۔۔۔ بابری مسجد سے لے کر جنون یا مذہب کی کوئی بھی کارروائی ہو۔۔۔ میچ فکسنگ یا اظہر کی بے ایمانیوں کی شہرت ہو۔۔۔ ممبئی کا فساد ہو یا حاجی مستان۔۔۔ کریم لالہ کی باتیں۔۔۔ میڈیا کی سرخیوں میں اسلام آجاتا ہے۔۔۔ اور آدمی غائب ہوجاتا ہے۔ سماج اور مذہب پر انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کا ذکر ہو تو سیمی سے القاعدہ تک۔۔۔ ان تنظیموں کو میڈیا، اسلام سے کچھ اس انداز سے جوڑتاہے کہ سڑک سے گزرنے والا معمولی مسلمان بھی دہشت گرد لگنے لگتا ہے____ دوسرے کے پھٹے میں پاؤں ڈالنے والا امریکہ خود اپنے ملک کا سروے کیوں نہیں کرتا، جہاں بلیک لبریشن آرمی، میچروز، دی آرڈر، جیوشن ڈفنس لیگ، پوج اومیکا 7 جیسی کتنی ہی دہشت گرد تنظیمیں سر اٹھائے اپنی کارروائیاں کئے جارہی ہیں۔ پچھلی صدی ختم ہونے تک اور نئی صدی کے پہلے سورج طلوع ہونے تک ____فضا اسلام اور مسلمانوں کو لے کر خوفناک حد تک خراب ہوچکی تھی۔
سن 2002 تک صورت حال اتنی بھیانک ہے کہ آج کا مسلمان گویا بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے۔۔۔ بُش سے مودی تک سب ایک ہی زبان بول رہے ہیں۔۔۔ اسلام کو ختم کردو۔ مسلمانوں کو مارڈالو۔
اسلام، اسلام اور مسلمان
امریکہ سوچتا ہے کہ وہ تانا شاہ بن چکا ہے۔ یعنی ایسی طاقت جس پر فتح حاصل نہیں کی جاسکتی۔۔۔ ایسی طاقت جسے کسی کے بھی خلاف استعمال کرسکتے ہیں____ شعلوں میں گھرے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی طرف اچانک اپنے چھوٹے سے کیمرے کا رخ کرنے والے کے ہونٹوں سے ایک لفظ نکلا تھا۔۔۔ شِٹ____ جلتے اور دھوئیں اگلتے ٹاور کی تصویر اپنے اپنے ٹی وی اسکرین پر جس کسی نے بھی دیکھی ہو، اس نے یہ لفظ ضرور سنا ہوگا۔۔۔ یہ لفظ امریکہ کی اب تک کی غیر مفتوح طاقت پر ایک ایسا غیر جانبدارانہ تبصرہ ہے، جس پر امریکہ کو غور ضرور کرنا چاہئے۔ پہلی بار امریکی عوام کو بھی اس بات کا احساس ہوا____ کہ وہ بھی دوسرے ملکوں کے لوگوں کی طرح ہی معمولی انسان ہیں۔ جن پر حملے ہوسکتے ہیں۔
امریکہ جس کی 'فرعونیت' جاپان، کیوبا، ویت نام، نکرگوا، سومایہ، کوریا، عراق۔۔۔ فلسطین سے نکل کر افغانستان تک پھیل گئی تھی____ ورلڈ ٹریڈ سینٹرپر حملے کے بعد اسی امریکہ کا سروے کیجئے تو اُسامہ اور اینتھریکس کے خوف نے اس کی اصلیت کو ظاہر کردیا ہے۔اس کی طاقت کے چیتھڑے اڑچکے ہیں۔ امریکہ جو دوسرے کے گھروں میں سیندھ لگاتا پھرتا تھا اور دوسرے ملکوں میں ہونے والی ہر کارروائی کے بعد اس کی پہلی یہی تنقید ہوتی تھی کہ مجھے پہلے ہی سے سب کچھ پتہ تھا____ اس کی خفیہ ایجنسیوں کی پول بھی کھل چکی ہے۔
بُکر انعام یافتہ اروندھتی رائے نے اپنی ایک کتاب میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ امریکہ کے فوجی اور معاشی مرکز ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹاگن پر حملے کیوں ہوئے۔ آزادی کا نشان اسٹیچو آف لبارٹی کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟ یعنی یہ غصہ جمہوریت کی مخالفت میں نہیں ہے۔ بلکہ امریکی عوام کو سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا ان سے نفرت نہیں کرتی۔۔۔ وہ امریکی حکومت کے طرز عمل سے نفرت کرتے ہیں۔
دیکھا جائے تو یہی بات اسلام پر عائد ہونی چاہئے۔۔۔ دہشت گردی کی مخالفت ضرور ہونی چاہئے۔ لیکن اسلام کی نہیں۔ مذہب، عقیدے سے وابستہ ایسا خزانہ ہے جس پر کھلے حملہ سے صورت حال بھیانک ہوسکتی ہے۔۔۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ باقی ملکوں کو بھی یہ بات اب سمجھ لینی چاہئے۔

***
بھاجپا یہ بھول گئی ہے کہ اس کی سیاست نہ صرف مسلم مخالف ہے بلکہ وہ ملک کی تہذیبی اور ملی جڑوں کو بھی کھوکھلا کررہی ہے۔ ایک تہذیب یافتہ دور میں جہاں سائنسی فتوحات کی کہانیاں روشن ہیں، دنیا ایک نئے ارتقائی انقلاب کا سامنا کررہی ہے، اور ایسے میں بھاجپا کی سیاست مذہب کی بنیاد پر جس فرقہ وارانہ تنگ نظری کو بڑھاوا دے رہی ہے، اس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اپنے دور اقتدار میں انڈیا شائننگ کا نعرہ دینے والی یہ پارٹی اس ملک کو کہاں لے جارہی ہے؟ امت شاہ کو اتر پردیش کی کمان سونپ کر بھاجپا نے یہ اشارہ تو دے ہی دیا ہے کہ اب لڑائی کی سمت وہی ہوگی جو 1990 میں تھی۔ اڈوانی جی کی رتھ یاتراؤں نے نفرت،دہشت اور فسادات کے منہ کھول دیئے تھے۔ بھاجپا اگلے انتخاب کی تیاری میں پورے ملک میں فساد برپا کرکے فتح حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ ابھی حال میں چوتھی دنیا نے بھی اپنی کور اسٹوری میں تحریر کیا تھا کہ بھاجپا پورے ملک میں فساد کرانے جارہی ہے۔ ابھی حال میں لکھنؤ میں ہونے والے شیعہ سنی دنگے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہوسکتے ہیں۔ ابھی حال میں سبرامینم سوامی کا ایک شرانگیز بیان آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مسلمانوں کی ملت کو تقسیم کرکے ووٹ بینک پر قبضہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ غور کرنا ضروری ہے کہ اس بیان کے ایک ہفتہ کے اندر ہی لکھنؤ میں فساد ہوگیا۔ اترپردیش کے لیے اب یہ فسادات عام ہوچکے ہیں۔ مختلف جگہوں سے مسجد کی دیوار گرانے، نفرت بھرا ماحول پیدا کرنے کی خبریں بھی عام ہوچکی ہیں۔ گجرات مسلم کلنگ کا ماسٹر مائنڈ امت شاہ مودی کے اشارے پر اس کام کو خوش اسلوبی سے انجام دے رہا ہے، جسے کبھی وہ گجرات میں انجام دے چکا تھا۔ اوربطورایڈ منسٹریٹر، مودی بھی اس کے فن کا لوہا مانتے ہیں۔ امت شاہ سے ٹکر لینے کے لیے سماج وادی پارٹی بھی اکثریتی ووٹ بینک کو کھونا نہیں چاہتی۔ امت شاہ کے آنے سے قبل ہونے والے دنگے اس بات کے گواہ ہیں کہ اکھیلیش کی حکومت دوطرفہ سیاست کے درمیان تقسیم ہوچکی ہے۔ ایک طرف وہ مسلم اقلیتوں کا ووٹ بینک بھی سنبھال کر رکھنا چاہتے ہیں اوردوسری طرف اکثریتی طبقے کو ان فسادات کی روشنی میں یہ پیغام دینے کی کوشش بھی کررہے ہیں کہ سماج وادی پارٹی تو آپ کے ساتھ ہے۔ اور اسے صرف مسلمانوں سے منسوب کرنا غلط ہے۔ امت شاہ اور اکھیلیش کی اس سیاست میں تلوار صرف اور صرف مسلمانوں پر لٹک رہی ہے۔
کہتے ہیں تاریخ ہربار اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو ایک بار پھر دہرانے جارہی ہے۔ اور اسی لیے بھاجپا کے اس دوراقتدار کو دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی، جس نے ہندستان کے مسلمانوں سے اس کا سکھ چین اور امن چھین لیا تھا۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

سن 2003
سن 2003ء کی آندھی گزر چکی ہے۔۔۔ نئی الفی کی شروعات نے زخم پر زخم دیئے جانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ جاری ہے۔۔۔ گجرات حادثہ اور مودی کے 'جشن' کا طوفان ابھی تھما نہیں ہے۔ مسلمانو ں کو پریشان یا مشتعل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں، یہ محاسبہ کا دور ہے۔۔۔ خوش فہمیوں کے جنگل سے باہر نکل کر ہمیں آنے والے وقت کو سمجھنا ہے۔۔۔ گجرات کی فتح سے توگڑیا جیسے جاہلوں کو حوصلہ ملے گا، اس میں شک نہیں۔۔۔ ہمیں، انہی لوگوں کے درمیان سے راستہ بنانا ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اچھے لوگوں سے دنیا کبھی خالی نہیں ہوئی ہے۔۔۔ ہم سچے اور کھڑے ہیں تو لوگ ہماری حمایت میں ضرور آگے بڑھیں گے۔۔۔
ارن دھتی رائے اور کچھ نئے پہلو
اردو میں تاریخی ناولوں کی ایک بڑی دنیا ہے۔ مغل بادشاہوں سے لے کر ان کے عروج،ان کے زوال، میر جعفر، میر قاسم اور سراج الدولہ تک____ تاریخی ناولوں کی کمی نہیں۔ (ابھی حال میں مصطفی کریم کا ناول "طوفانوں کی آہٹ" اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے)یہاں ایسے تاریخی ناولوں کا تذکرہ میں نے جان بوجھ کر کیا ہے۔ ایسے ناولوں کے سہمے سہمے ہوئے ہندو کردار بار بار ایک محدود دائرہ کھینچ کر میرے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ چاہے اکبر بادشاہ کے دربار سے نکلے ہوئے کردار ہوںیا سراج الدولہ کے قریبی۔۔۔ مجھے چاپلوسی میں ڈوبے، ان کرداروں کو بار بار پڑھتے ہوئے الجھن سی محسوس ہوئی ہے۔
مدتّ مدید کی تھکن اُڑھنے کے بعد، ایک انتہائی مہذب دنیا میں پہنچنے تک، توگڑیا اور مودی جیسوں کی "نگہبانی" میں ایسا لگتا ہے جیسے ایک بار پھر وہی پرانی کہانی شروع ہوگئی ہے۔ یہ جنگ اب صرف دو لوگوں کے درمیان ہے۔ ایک تاناشاہ ہے اور دوسرا مظلوم و محکوم۔۔۔ ایک طرف اقلیت ہے تو دوسری طرف اکثریت۔ طاقتور اور کمزور کی لڑائی میں تمام دلیلیں، قائدے قانون، اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد، سب کچھ جیسے طاق پر رکھا جاچکا ہے۔گلوبلائیزیشن کے اس عہد میں، سامراج واد کی آڑ میں اب یہی کھیل بُش اور بلئیر مل کر کھیل رہیں ہیں۔
13/مئی 2003ء نیویارک کے ریور سائڈ چرچ میں ارن دھتی رائے نے جو بیان دیا وہ خاصا اہمیت کا حامل ہے۔

"ہم وقت کے ایسے دوڑ سے گزر رہے ہیں جب ہمیں یہ جاننے کے لئے بھی ایک دور میں شامل ہونا پڑرہا ہے کہ کتنی تیزی سے ہماری آزادی چھینی جارہی ہے۔ ایسے دور میں کچھ وقت کے لئے ہی سہی، اس دوڑ سے الگ ہونے اور اس طرح کے تمام واقعات، حادثات سے مکمل 'پولیٹیکل' تھیسس لے کر لوٹنے کا جوکھم چند لوگ ہی اٹھاسکتے ہیں۔ میں آج کی رات بھلا آپ کو کیا تحفہ دے سکتی ہوں۔ ہم ایک مشکل دور سے دوسرے مشکل دور کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جنہیں سیٹلائٹ اور ٹی وی میڈیا لگاتار ہمارے دماغوں میں بھرنے کا کام کررہی ہے۔ لیکن ہمیں اپنی زمین کے بارے میں غور کرنا ہے ، سوچنا ہے____ ہم جنگ کے ملبے سے ہوتے ہوئے تاریخ کے دروازے میں داخل ہوتے ہیں۔ کتنے شہر ختم ہوگئے____کھیت سوکھ گئے، جنگل کٹتے جارہے ہیں کتنی ہی ندیاں تاریخ کا حصہ بنتی جارہی ہیں۔ کتنی ہی عظیم الشان لائبریریوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے گئے۔۔۔ تو بھلا آج کی رات میں آپ کو کیا تحفہ دے سکتی ہوں۔ دولت، جنگ، سامراج، نسل کشی اور جمہوریت کے بارے میں کچھ منتشر خیالات۔۔۔ کچھ ایسی فکر جو پتنگوں کی طرح میرے دماغ کے ارد گرد گھومتی ہیں اور مجھے راتوں کو جگائے رکھتی ہیں۔ ممکن ہے میری بات آپ کو اچھی نہیں لگے، ممکن ہے مہذب دنیا کو یہ پسند نہیں آئے کہ ایک بھارتی شہری یہاں آکر امریکی سامراج واد پر تنقید کرے۔ میں اپنے بارے میں نہ کوئی پرچم لہرانے آئی ہوں، نہ ہی کوئی حب الوطنی کا گیت گانے۔۔۔ میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ ہر ملک، ہر صوبہ اور ہر ریاست کی مرتی ہوئی آتما پر آج ظلم اور دوغلے پن کا راج ہے____ لیکن جب ایک ملک صرف ایک ملک نہ رہ کر سامراج بن جائے تو تحریک کا معیار ڈرامائی طریقے سے بدل جاتا ہے____ میں بتانا چاہتی ہوں کہ آج میں____ امریکی سامراج کے، ایک غلام کی حیثیت سے بول رہی ہوں____ ایک ایسا غلام جو اپنے بادشاہ کا قصیدہ نہیں پڑھنا چاہتا بلکہ اس کے ظلم کے خلاف احتجاج کرنا چاہتا ہے۔"
____ ارن دھتی رائے

حقیقتاً جب ایک ملک،ایک ملک نہ رہ کر، عظیم الشان سامراج بن جائے تو تحریک کا معیار ہی ڈرامائی انداز سے تبدیل ہوجاتا ہے۔ مجھے کچھ یہی حال اپنے یہاں مسلمانوں کا نظر آتا ہے۔منطق مت دیجئے____ ابھی حال میں ہندی کے مشہور رسالہ "کتھا دیش"میں، دیئے گئے ایک انٹرویو میں مشہور ہندی افسانہ نگار پرینود نے اس دکھ کو گہرائی سے محسوس کیا ہے۔۔۔
"آپ اقلیت میں ہوتے تو جانتے کہ اقلیت میں ہونا کیا ہوتا ہے۔"

جی ہاں!۔۔۔بہت بھیانک____ جیسے کسی بھی موسم میں ترشول لئے سنگھیوں کا آپ کی پیشانی پر مسلمان ہونا پڑھ لیا جانا۔۔۔ بسوں میں اردو کتابوں چھپاتے ہوئے۔۔۔پاکستان پر بار بار غیرضروری طریقوں سے اپنا بچاؤ کرنا____ ہندوپاک کرکٹ کا میچ ہویا کہیں بھی ہونے والا فدائین حملہ۔۔۔ آپ نہیں جانتے کہ اقلیت میں ہونا کیا ہوتا ہے؟ آپ نہیں جانتے کہ غلام ہونا کیا ہوتا ہے؟ ارن دھتی نیویارک کے ریورس سائیڈ چرچ میں غلام بن گئی تھیں، مسلمان گودھرا سے پیدا شدہ سچ کے بعد کچھ ایسا ہی محسوس کررہے ہیں۔
تقسیم ایک پڑاؤ تھا۔۔۔ اب ایک اہم پڑاؤ گودھرا بن گیا ہے۔مسلمان آنے والے وقت میں بھی اس پڑاؤ سے گزرے بغیر آگے نہیں جاسکتے۔۔۔ مہیش مانجریکر کی حالیہ فلم "پران جائے پر شان نہ جائے" میں ایک مسلم غریب کردار ایک ہندو کے منہ سے بار بار پاکستانی کہے جانے پر چیختا ہے۔۔۔ "سالے ۔۔۔ورلڈ ٹریڈٹاور میں ہوائی جہاز گھستا ہے تب بھی یہاں آکر ہم سے پوچھتے ہو جیسے ہم نے ہی گھسایا ہے۔"
اصلیت یہی ہے کہ آپ اقلیت میں ہوتے تو جانتے کہ اقلیت ہونا کیا ہوتا ہے۔ تقسیم کے بعد سے لے کر اب تک میں نے پتہ نہیں اپنے کتنے مضامین میں اس لفظ اقلیت کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا ہے۔مجھے شروع سے ہی اقلیتی کمیشن جیسے اداروں سے خداواسطے کا بیر رہا ہے۔ میری اپنی منطق تھی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 20کروڑ سے کم نہیں اور اتنی بڑی آبادی اقلیت نہیں ہوسکتی۔ اسے دوسری بڑی اکثریت کا نام دینا چاہئے۔مجھے احساس تھا کہ محض دوسری بڑی اکثریت کے اعلان کے انجکشن سے، ہمارے بہت سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن شائد میں غلطی پر تھا۔
گودھرا کانڈ کے بعد جیسے ساری حقیقتیں بدل گئی۔ مودی کا ہندوتو چمکا۔۔۔ گجرات ہندوتو کی پہلی لیبارٹری بنا۔۔۔ وی ایچ پی، بجرنگ دل جیسی ہندو تنظیموں کی نفرتیں کھل کر سامنے آئیں۔۔۔ توگڑیا کا ترشول گھر گھر پہنچا۔۔۔ ملک میں اس سے پہلے بھی فسادہوتے رہے لیکن نفرت کی ایسی کہانی کا جنم پہلی بار ہوا تھا۔۔۔ کیا تاریخ خود کو دھرا رہی تھی؟ تہذیبوں کی تاریخیں بدلی تھی۔۔۔ نئی دنیا میں مہذب ہونے کا ایک ہی مطلب تھا۔۔۔ طاقتور ہونا__ ہم نے یہ بھی جانا کہ اصول ،قائدے قانون اقلیتوں کے پاس نہیں ہوتے__ طاقتوروں کے پاس ہوتے ہیں۔ ہزاروں چشم دید گواہوں کے باوجود مودی یا توگڑیا پر کوئی پوٹا کوئی قانون نافذ نہیں ہوتا__ چاروں طرف بارش کی طرف برستے ہوئے مکالمے ایک نئی نفسیاتی کہانی کا سبب بن جاتے ہیں جس کے پہلے صفحے پر لکھا ہوتا ہے__ کہ "آپ کو بزدل بن کر جینا ہے"۔۔۔ یہی نفسیات ارن دھتی کو نیویارک میں غلام بنا دیتی ہے اور اسی نفسیات سے گزرتے ہوئے مسلمان بدلے بدلے سے ماحول میں خود کو غلامی کے گہرے کنویں میں قید محسوس کرتا ہے۔

***
Zauqui2005[@]gmail.com
موبائل : 09310532452 , 09958583881
مشرف عالم ذوقی

A diary of 2002 - BJP, America & the muslims. Article: Musharraf Alam Zauqi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں