یہ بہت ہی دلچسپ حقیقت ہے کہ رمضان کا صرف دینی پہلو نہیں ہے بلکہ اس کا سماجی پہلو بھی ہے، اگر ذکر، تلاوت، استغفار، جنت کی طلب، دوزخ سے پناہ، محدود وقت تک کھانے، پینے اور فطری ازدواجی تعلق سے رکنا، تراویح، قرآن شریف سننا سنانا اور پھر آخر عشرہ میں اعتکاف جیسے اعمال و اشغال اس کے دینی پہلو ہیں، تو سحری و افطار کرانا، گالی گلوج، غیبت سے پرہیز، صدقہ، خیرات، ضرورت مندوں کا خیال، ماتحتوں کے ساتھ بہتر سلوک اور آسانیاں فراہم کرنا جیسے اعمال اس کے اہم سماجی پہلو ہیں۔
انہیں میں سے سحر و افطار ایسے اعمال ہیں جو دینی حیثیت کے اعتبار سے باعث برکت ہیں تو ان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں خود کے علاوہ دوسروں کو بھی شریک کیا جائے اور ثواب دارین حاصل کیاجائے، ذیل میں ان 2 اہم عبادتوں پر احادیث کریمہ کے حوالہ سے روشنی ڈالی جا رہی ہے۔
سحری کی فضیلت:
حضرت انسں رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔
(صحیح بخاری و مسلم)
سحری میں برکت کا ظاہر تو یہ ہے کہ اس کی وجہہ سے روزہ دار کو تقویت حاصل ہوتی ہے اور دوسرا ایمانی اور دینی پہلو یہ ہے کہ اگر سحری کھاناے کا رواج نہ رہے یا امت کے ارکابر اور خواص سحری نہ کھائیں تو اس کا خطرہ ہے کہ عوام اسی کو شریعت کا حکم یا کم ازکم بہتر سمجھنے لگیں اور اس طرح شریعت کے مقررہ حدود میں فرق پڑجائے۔
(حجۃ البالغہ)
مسند احمد میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مروی ہے کہ
السحور كله بركة فلا تدعوه، ولو أن يجرع أحدكم جرعة من ماء، فإن الله عز وجل وملائكته يصلون على المستحرين
سحری میں برکت ہے اسے ہرگز نہ چھوڑو، کیوں کہ سحری میں کھانے پینے والوں پر اللہ تعالیٰ رحمت فرماتا ہے، اور فرشتے ان کیلئے دعائے خیر کرتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ روزہ دیگر امتوں پر فرض تھا، مگر اہل کتاب کے پہلا سحری کا ثبوت نہیں ملتا ہے، اس فرق کو ظاہر کرنے کیلئے بھی سحری کھانا مستحب قرار دیا گیا ہے، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ:
ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری کھانا ہے۔
(صحیح مسلم)۔
سحری کا سنت وقت:
عن أنس بن مالك عن زيد بن ثابت قال: تسحرنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثم قام إلى الصلاة، قلت: كم كان بين الأذان والسحور؟ قال: قدر خمسين آية
حضرت انسؓ، زید بن ثابتؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی اور پھر جلد ہی آپ فجر کی نمازکیلئے کھڑے ہوگئے، حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے دریافت کیا کہ سحری کھانے اور فجر کی اذان کے درمیان کتنا وقفہ رہا ہوگا، انہوں نے فرمایا، پچاس آیتوں کی تلاوت کے بقدر۔
(متفق علیہ)
صحت مخارج اور قواعد کے لحاظ سے پچاس آیتوں کی تلاوت میں پانچ منٹ سے کم وقت صرف ہوتا ہے، اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سحری اور اذان کے درمیان صرف چار پانچ منٹ کا فصل تھا
(معارف الحدیث جلد چہارم)۔
ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
اللہ تعالیٰ کا ارشادہ ہے کہ اپنے بندوں میں مجھے وہ بندہ زیادہ محبوب ہے جو روزہ کے افطار میں جلدی کرے (یعنی غروب آفتاب کے بعد بالکل دیر نہ کرے)۔
اسی طرح بخاری شریف میں حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک میری امت کے لوگ افطار میں جلد کرتے رہیں گے وہ خیر پر رہیں گے۔
اسی مضمون کی حدیث مسند احمد میں حضرت ابوذر غفاریؓ سے مروی ہے جس میں یہ اضافہ ہے :"واخرو السحور" یعنی سحری میں تاخیر کرتے رہیں گے۔
افطار کی فضیلت:۔
جہاں حدیث میں افطار کی فضیلت آئی ہے وہیں افطار کرانے کی بھی فضیلت ہے، مذکورہ بالا احادیث میں افطار کرنے کو خیر و رحمت کا باعث قرار دیا گیا ہے، وہیں حضرت زید بن حارثؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جس کسی نے روزہ دار کو افطار کرایا، یا کسی مجاہد کو سامان دیا تو اس کے روزہ دار اور مجاہد کے مثل ہی ثواب ملے گا
(شعب الایمان للبیہقی و شرح السنہ للبغوی)
اس کیلئے علاوہ بھی متعدد حدیثوں میں یہ فضیلتیں بیان کی گئی ہے۔
(1) روزہ افطار کرانے والے کے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔
(2) روزہ افطار کرانے والے کو جہنم سے نجات کا پروانہ دیا جاتا ہے۔
(مسلم شریف وغیرہ)۔
لیکن روزہ افطار کرانے کی ہر شخص میں سکت نہیں ہے، اس کا بھی حل ایک روایت میں موجود ہے۔ حضرت سلمان فارسی فرماتے ہیں "یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر شخص میں روزہ افطار کرانے کی سکت نہیں ہے"
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "یہ اجر، ان لوگوں کیلئے بھی ہے جو ایک گھونٹ دودھ، ایک عدد کھجور حتی کہ ایک گھونٹ پانی سے بھی کسی کو افطار کرادے"۔
اگر مسلمانوں میں کوئی صاحب ثروت شخص طلباء، علماء اور مدارس کے سفراء کیلئے افطار و سحر کا نظم کرتے ہیں تو یہ بڑا ہی ثواب کا عمل ہے، ایک تو افطار کا ثواب ، دوسرا اکرام علماء اور تیسرا علم دین کی قدرو قیمت۔
افطار میں کیا کھانا چاہئے یہ بھی حدیث میں مذکورہ ہے چنانچہ روایت ہے :
عن سلمان بن عامر عمها قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم
إذا كان أحدكم صائما فليفطر على التمر فإن لم يجد التمر فعلى الماء فإن الماء طهور
جب تم میں سے کسی کا روزہ ہوتو وہ کھجور سے افطار کرے، اگر کھجور نہ پائے تو پھر پانی سے ہی افطارکرے، اس لئے کہ پانی کو اللہ تعالیٰ نے طہور بنایا ہے۔
(مسند احمد)
اہل عرب کیلئے کھجور بہترین غذا ہے، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب دی، اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے افطار کرنا بہتر ہے، پانی کی یہ مبارک خصوصیت بتائی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو طہور فرمایا ہے۔ اس سے افطار کرنے میں ظاہر و باطن کی نیک فالی بھی ہے۔
ترمذی میں حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز سے قبل چند تر کھجوروں اور روزہ افطار فرماتے تھے، اگر تر کھجوریں بروقت موجود نہ ہوتیں تو خشک کھجوروں سے افطار فرماتے تھے اور اگر یہ بھی نہ ہوتیں تو چند گھونٹ پانی پی لیتے تھے۔
(سنن ابی داؤد ایضا)
The proper spirit of Sehar and Iftar in ramadan
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں