ہندوستان اور بیرونِ ہند اردو کے فروغ میں میڈیا کا کردار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-30

ہندوستان اور بیرونِ ہند اردو کے فروغ میں میڈیا کا کردار

Role of urdu media
ہندوستان اور بیرونِ ہند اردو کے فروغ میں میڈیا کا کردار، یہ ایک ایسا وسیع اور عریض موضوع ہے کہ اس کیلئے ایک آدھ مقالہ یا سیمینار کافی نہیں۔ظاہر ہے اس موضوع کے ساتھ انصاف کرنا ہو تو صرف اشاروں کنایوں میں بات کی جا سکتی ہے یا پھر چند بنیادی نقطوں پر روشنی ڈال کر صرف اردو کے فروغ میں میڈیاکے کردار پر گفتگو کی جاسکتی ہے چہ جائیکہ اس موضوع کا بھی احاطہ اس مختصر سے وقت میں جس کی مجھے اجازت دی گئی ہے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
ہندوستان میں فروغِ اردو زبان میں صحافت کا کردار یقیناًبہت اہم رہا ہے لیکن صحافت کے کردار سے پہلے تاریخِ صحافت پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے چلیں۔تاریخِ سحافت بالعموم انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ کی طرح قدیم ہے۔صحافت کا میدان کافی وسیع ہے۔ پہلے اس میں ماھنامے ، پندرہ روزہ ، ہفت وار ، اور روزناموں کے علاوہ اسی قسم کی دوسری تحریریں شامل تھیں لیکن آج کے ارتقائی دور میں صحافت کے حدود میں ریڈیو ، ٹیلی ویزن اور انٹرنٹ کے ذرائع ابلاغ بھی شامل ہو گئے ہیں۔ صحافت ہر دور میں اپنے سماج اور زمانے کی بھرپور عکاسی کرتی رہی ہے اور انسانی زندگی سے اسکا تہذیبی رشتہ ہمیشہ مضبوط رہا ہے ۔ مطبوعہ صحافت سے قبل مختلف طرز کے نشریاتی ذرائع اور پھر قلمی خبر نامے مروج رہے ۔ چین وہ پہلا ملک ہے جس نے چودھویں صدی عیسویں میں سب سے پہلا اخبار نکال کر مطبوعہ صحافتی تاریخ کا سنگِ بنیاد رکھا، جبکہ ہندوستان میں صحافت کا آغاز اٹھارویں صدی عیسویں میں ہوا۔بنگال گزٹ ، انڈین گزٹ اور بمبئی ہیرالڈ اسی دور میں معرضِ وجود میں آچکے تھے۔ فارسی کے بعد اردو میں بھی صحافت کا آغاز ہوا اور بہت جلد اس نے ادب کی ایک مستقل اور اہم صنف کی شکل اختیار کرلی۔ بقولِ ڈاکٹر تنویر علوی ''علم کے دوسرے شعبوں سے قطع نظر اخبارات اور خاص طور پر اردو اخبارات کا مطالعہ زبان کی تہذیبی اہمیت کو سمجھنے اور اسکی ادبی تاریخ مرتب کرنے کیلئے غیر معمولی اہم ہے، اردو نثر کے مراحل تمام تر نہیں تو بہت کچھ اخبارات کی خاموش خدمت کے وسیلے سے طئے ہوے ہیں'' تحقیق کے مطابق اردو صحافت کا آغاز 1822 عیسویں میں جام ِ جہاں نما کی اشاعت سے ہوا اور ڈاکٹر شہناز انجم کے خیال میں '' اردو نثر فورٹ ولیم کالج کی منصوبہ بند کوشش کے باوجود تصنع اور تکلف کا پردہ چاک نہ کرسکی لیکن پریس کی ترقی اور اخبارات کی اشاعت کے ذریعے سادگی اور مقصدیت کی طرف مائل ہو گئی اور اس میں معیاری لب و لہجہ کا عکس اور نئی زندگی کی آہٹیں سنائی دینے لگیں''
1835ء میں جب اردو کو سرکاری اور عدالتی حیثیت حاصل ہو گئی تو اردو کا دوسرا اخبار اخبار ِ دہلی جو آگے چل کردہلی اردو اخبار اور پھر اخبار الظفر ہو گیا شائع ہوا جسکا سن ِ اشاعت بعض حوالوں سے1837 ء بھی بتایا جاتا ہے اس تاریخی اخبار کے ناشر مولوی محمد حسین آزاد کے والد ِ بزرگوار مولوی محمد باقر تھے ۔ اسکے علاوہ دہلی سے شائع ہونے والے دیگر ہفتہ روزہ اخبارات سیدالاخبار اور فوائد الشائقین کے ساتھ بنارس سے بنارس گزٹ اور آگرہ سے1846ء میں صدر الاخبار بھی شایع ہوے۔بہرحال جام ِ جہاں نما سے قومی آواز،انقلاب ، منصف ،سیاست اور اعتماد تک مطبوعہ اردو صحافت کی طویل ترین فہرست ہے جسکا احاطہ مقصود ہے نہ ممکن،لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتاہے کہ صحافت نے ہندوستان اور بیرون ہند ، اردو کے فروغ کے لئے بیش بہا خدمات انجام دیں چاہے وہ ذرایع ابلاغ ریشمی رومال پر لکھے گئے پیغامات کی صورت میں ہو،الہلال ،البلاغ کے اثاثوں کی شکل میں یاچاہے دیگر جرائد و رسائل کی یا ریڈو ،ٹی وی چینلز اور انٹرنٹ کی شکل میں۔ یہاںیہ نقطہ واضح کرتا چلوں کہ صحافت کو اگر زبان و ادب کی خدمت کرنا ہو تو سیاست سے الگ رہنا ہوگا ورنہ سیاست کی عاشقی میں صحافت کی سیادت و عزت کے بھی لالے پڑسکتے ہیں۔اس مقفی جملے میں کہیں کسی اخبارکا نام لینا مقصود نہیں بلکہ یہ کہنا تھا کہ نظریات اور پھر سیاسی نظریات کا لیبل چسپاں کرکے اردو کے فروغ میں حصہ لینا نتائج کے گراف کو زوال کی طرف لے جا سکتاہے تاہم یہ اس حقیقت کا اعتراف کرنا ضرور ی ہے کہ حیدرآباد کے روزنامہ سیاست نے اردو کے فروغ اورتحقیق و تالیف کے باب میں ہندوستان بھر میں نمایاں کردار ادا کیاہے۔
بیرون ہند اردو کے فروغ میں میڈیانے کیا کردار ادا کیا ہے اسکا جائزہ لینا ہو تو اپنے پڑوسی ملک پاکستان کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا،جہاں حکومتی سطح پر اردو کی سرپرستی ہوئی اور پاکستان میں اردو کو ملک کی سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا، اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اردو کسی خطہ ،ملک یا کسی قوم کی زبان ہے،اردو کا مادرِوطن ہندوستان ہے، اور پھر اردو نے جب باہر قدم رکھا تو پھلتی پھولتی ہی رہی ،پاکستان میں اردو کے فروغ کیلئے جتنا کچھ کام ہوا ہے ،اس میں یقیناًا ردو کے شعراء و ادباء کا کردار کلیدی رہا ،جنھوں نے اردو صحافت کے ذریعے زبان و ادب کے فروغ میں نمایاں خدمات انجام دیں۔اردو کے جرائد و رسائل جسقدر پاکستان سے شائع ہوتے ہیں انکا شمار بھی مشکل ہے،اردو تحقیق و تالیف اس وقت میرا موضوع نہیں ہے تاہم اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اردو کے فروغ میں تحقیق و تالیف کا جو کام وہاں ہوا وہ یقیناًقابلِ ستائش ہے۔اردو کے فروغ میں اشاعتی صحافت یعنی’ پرنٹ میڈیا‘ کے علاوہ ریڈیو، ٹی وی اور انٹرنٹ کے ذرائع ابلاغ نے بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔اردو کی نئی بستیوں میں وہ تمام علاقے شامل ہیں ، جہاں برِصغیر سے تعلق رکھنے والے اردوداں افراد تلاش معاش یا تعلیمی سلسلوں کے سبب رہائش پذیر ہوئے ،اردو نے ان بستیوں میں اپنے ڈیرے ڈال دئیے اور پھر یورپ اور امریکہ سے اردو کے جرائد و رسائل کی اشاعت ہوئی اور ان بستیوں میں بھی اردو کو اپنے قاری مل گئے۔اردو سمیناروں اور عالمی کانفرنسوں نے بھی ان علاقوں میں صحافت کو مزید حوصلے بخشے ۔چناچہ آئے دن بڑے پیمانوں پر اردو کی محافل سجائی جانے لگیں۔نہ صرف یہ بلکہ وہاں کی یونیورسٹیوں میں بھی اردو پڑھائی جانے لگی اور اردو چیئرز کا قیام عمل میں آیا۔انہی کوششوں کے حوالے سے شمالی مشرقی یورپ کے ایک شہر کوپن ہیگن سے’ ہمعصر‘ نامی جریدے کا اجرا ء بھی ہوا اور اسکے مدیر اعلیٰ نصر ملک نے ڈینش ادب کو اردو میں منتقل کرنے کا بیڑا اُٹھالیا،چناچہ ہمعصر ڈاٹ کوم کے نام سے ہی ویب سائٹ کا اجرا بھی ہوا، جس پر آپ ڈینش ادب کے اردو تراجم سے مستفید ہو سکتے ہیں۔وائس آف امریکہ اردو سروس اور بی بی سی اردو سروس کے علاوہ انٹرنٹ کی سب سے بڑی اور اولین ویب سائٹ ’’اردوستان ڈاٹ کوم‘‘ کا آغاز بھی 1997ء میں امریکہ کے ایک شہر سے ہی ہوا جسکو اردو کے ایک ہندوستانی عاشق کاشف ہدا نے لانچ کیا ۔اردوستان ڈاٹ کام اردو میڈیا کا ایک ایسا ذریعہ ثابت ہوئی کہ ابتداء میں جن لوگوں نے اردوستان کو اپنا ذریعہ ابلاغ بنایا ،آگے چل کر ان میں سے اکثر لوگوں نے دیگر نئی ویب سائٹس کا آغاز کرکے انٹرنٹ میڈیا کو مزید تقویت بخشی۔یقیناًانٹرنٹ اردو میڈیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے ،جس نے اردو کے فروغ میں وہ کام کیا جو کسی ادارے کے بس کا نہیں تھا۔یہ اور بات ہے کہ اس کی ابتداء رومن اردو رسم الخط سے ہوئی لیکن رفتہ رفتہ انپیج اور پھر یونی کوڈ کی سہولت نے اسکی یہ مشکل بھی دور کردی اور اب اردو کی اکثر ویب سائٹس یونیوکوڈ کا استعمال کرکے اردو کے فروغ میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کررہی ہیں۔
اردو کی عرب بستیوں نے بھی کسی کو پیچھے نہیں چھوڑا ،ابتداء میں اردو جرائد و رسائل ہندوستان اور پاکستان ہی سے منگوائے جاتے تھے ،لیکن قارئین کا سروے کرنے کے بعد یہاں کے اشاعتی اداروں نے فیصلہ کیا کہ اردو زبان میں بھی انہی ملکوں سے جرائد نکالے جائیں تاکہ اردو قاری کو ملکی معاملات اور قوانین سمجھنے میں بھی سہولت ہو اور انکا ذوقِ زبان و ادب بھی تسکین پاسکے ،چنانچہ خلیج سے بھی اردو اخبارات کا اجراء ہوا اور پھر سعودی عرب نے بھی پہلے اردو اخبار یعنیانگریزی اخبار عرب نیوز کی ذیلی اشاعت کے طور پر اردو نیوز کے اجرا ء کا اعلان کیا۔اردو نیوز سے پہلے بھی اردو اخبار ایام حج میں شایع ہونا شروع ہوگئے تھے لیکن انکا عرصہ اشاعت ایا م حج تک ہی محدود تھا،اس وقت تک ریڈیو میڈیا کے طور پر سعودی ریڈیو کی اردو سروس اہل اردو میں کافی مقبول ہو چکی تھی،جس پر کلاسیکی اردو ادب ،مشاعرے ، حج اور دیگر ذرائع سے سعودی عرب آنے والی نامور شخصیتوں کے انٹرویو اور اردو میں مذہبی پروگرام کے ساتھ ہی تازہ خبریں بھی پیش کی جاتی تھیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ڈش انٹینا کے رواج پاتے ہی عرب ملکوں میں اردو چینلزکے شائقین کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا،اچھے اور بُرے اثرات سے قطع نظر ٹی وی چینلزنے بھی اردو کے فروغ میں حصہ لیا اور اہل اردو کے علاوہ دیگر زبان و تہذیب سے تعلق رکھنے والوں کی زبانوں سے بھی اردو نغمے سنائی دینے لگے۔سعودی عرب میں قیام کے دوران گذشتہ دو دہائی قبل جب مجھے مصر اور اردن جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں بھی نام نہاد ہندی فلموں جنکی زبان نہ شدھ ہندی ہوتی ہے نہ فصیح اردو ،اردو ٹی وی کے شائقین کا اندازہ اس بات سے ہوا کہ کئی مقامی لوگوں نے مجھ سے امیتابھ بچن اور ہیمامالنی کے بارے میں دریافت کیا اورانکی فلموں کے گانے بھی سنائے ۔
اردوزبان و ادب انٹرنٹ کے ذریعے سارے عالم میں فروغ پارہا ہے، چاہے وہ اردو کی ویب سائٹس ہوں یا آن لائن جرارئد و رسائل،سب ہی اردو کے فروغ میں اپنے حصے کی شمع جلا رہے ہیں۔خلیجی ملکوں میں مقیم اردو کے شعراء و ادبا ء کا ایک بہت بڑا طبقہ اردو کی انہی ویب سائٹس سے وابستہ ہے ، کہیں یاہو گروپس کی شکل میں،کہیں گوگل گروپس کے ساتھ ، تو کہیں اپنی اپنی ادبی ویب سائٹس بنا کر اپنی نگارشات کو اردو کے قاری تک پہنچانے کیلئے انٹرنٹ کو ذریعہ ابلاغ بنائے ہوئے ہیں۔راقم الحروف نے اپنے دیرینہ انٹرنٹ دوست،سالم باشوارکے تعاون اور محترم عبداللہ ناظر کے مشورے سے خلیج میں مقیم شعراء وادبا ء کی نمائندگی کیلئے سعودی عر ب سے پہلی اردو ویب سائٹ اردو گلبن ڈاٹ کوم، کا آغاز 27 اپریل 2006کوکیا جسکے ذریعے نہ صرف خلیج میں مقیم قلمکاروں کا آپس میں تعارف ہوا بلکہ سعودی عرب کے چپہ چپہ میں مقیم اردو کے شائقین بھی ایک دوسرے سے مستفید ہونے لگے۔نئے لکھنے والوں کو وہ حوصلے ملے کہ جنکا اندازہ ویب سائٹس کے آغاز سے پہلے کبھی نہیں تھا۔گزشتہ سال 2007ء کے اواخر میں انگریزی جریدہ سعودی گزٹ کی انتظامیہ نے بھی ایک ہفت روزہ جریدہ ’آواز‘ کی اشاعت کا آغاز کیا، اور بہت کم عرصہ میں ’آواز‘ اردو حلقوں میں پسند کیا جانے لگا۔
اپنے موضوع کو سمیٹتے ہوئے آخر میں یہی عرض کروں گا کہ میڈیا نے چاہے وہ کسی شکل وصورت میں ہو اردو کے فروغ کیلئے ہندوستان اور بیرونِ ہند وہ کارہاے نمایاں انجام دئیے ہیں جسکی تاریخ سنہرے حرفوں میں لکھے جانے کے قابل ہے۔اسلئے کہ صحافت کارِ پیمبری ہے اور جبتک صحافت سچائی کے ساتھ حقائق کی پردہ پوشی نہ کرتے ہوئے اپنے اصولوں پر گامزن رہے گی، فروغ اردو کے ساتھ ساتھ قوموں کی فکری نشونما بھی کرتی رہے گی۔

مہتاب قدر

Media's Role in Promoting urdu in India and Outside

1 تبصرہ: