عبادت ہو مگر اخلاص کے ساتھ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-30

عبادت ہو مگر اخلاص کے ساتھ

Worship with sincerity
خواہ نمازہو یا روزہ، زکوۃ ہو یا حج، تلاوت قرآن ہو یا تسبیح و تہلیل ان سب میں اپنے رب کے آگے جھکنے کا معنی و مفہوم پایا جاتاہے، انسان اور رب میں جتنا شدید تعلق ہوگا اتنا ہی اس جھکنے میں لذت محسوس ہوگی اور وہ سارے مصائب کو برداشت کرکے بھی قلبی مسرت محسوس کرے گا، عبدات کی مقدار زیادہ ہو، لیکن حضوری کی یہ کیفیت طاری نہ ہوتو ظاہر کی کثرت کے باوجود عبادت بے اثر اور بے فیض ہوگی، لیکن کوئی بندہ اپنے رب میں اتنا محو ہوجائے کہ اس کی عظمت و جلال کو گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو، خدا کی یاد اور اس کے تصور میں اتنا گم ہوجائے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے قریب محسوس کرنے لگے، اس کیفیت کے ساتھ جو عبادت انجام دی جاتی ہے، وہ مقدار میں اگرچہ کم ہوتا ہم معنوی قوت اور فیضان کے اعتبار سے وہ غیر معمولی ثابت ہوتی ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ کبھی کبھی دو سجدے بھی انسان کی زندگی میں انقلاب پیدا کردیتے ہیں، بندہ اپنے رب کو راضی کرنے کیلئے جب دو رکعت نماز اداکرتا ہے ، اس کی حمد و ثناء بیان کرتا ہے، ندامت کے آنسو بہاتا ہے تو خدا کی رحمت جوش میں آتی ہے اور حضوری کی اس کیفیت کے سبب اس کی زندگی کے سارے گناہوں کو معاف کردیتا ہے، اس کے برعکس بے توجہی سے جو نماز ادا کی جاتی ہے درحقیقت وہ ایک محض رسم ہے، جس کے پورا کرنے کے بعد ذمہ سے نماز تو ساقط ہوجاتی ہے مگر وہ نماز بے فیض اور بے اثر رہتی ہے، اس طرح ہزاروں سجدے بھی ادا کرلئے جائیں زندگی میں ان سے کوئی بہتر انقلاب برپا نہیں ہوسکتا۔

عبادت کا یہ وصف صرف نماز کی حد تک ہی نہیں، بلکہ عبادت اور بندگی کے عنوان سے جو بھی عمل کیا جائے ، تمام میں مطلوب ہے، اسی کی تقویٰ ہی مطلوب و مقصود ہے اور ساری عبادتیں تقویٰ پیدا کرنے کیلئے کی جاتی ہیں، جیسے روزہ ایک اہم ترین فریضہ ہے، اس کو فرض کرنے کا مقصد قرآن نے تقویٰ بیان کیا ہے: مفہوم :
"اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کردئیے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروؤں پر فرض کئے گئے تھے، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی"۔

روزہ کے حال میں ایک شخص صرف اللہ کے خوف سے بھوک وپیاس برداشت کرتا ہے، رمضان کے مہینے میں خدا کے استحضار کی کیفیت اتنی شدید ہوجاتی ہے کہ پیاس سے زبان خشک ہورہی ہے بھوک کا شدت سے احساس ہے، وہ تڑپ رہا ہوتا ہے، مگر دل گوارا نہیں کرتا کہ تنہائی میں پانی کا ایک قطرہ حلق سے اتارلے، یہاں کون سی ایسی طاقت ہے جو اسے بند کرے میں بھی کھانے پینے سے روک رہی ہے، وہ تنہائی میں کچھ کھاپی لے تو کوئی شخص اسے دیکھنے والا نہ ہوگا مگر اپنے رب کی یاد میں وہ سارے جتن برداشت کرتا ہے اور وہ یقین کرتا ہے کہ میرے کھانے پینے کا اگرچہ کوئی نہیں دیکھ رہا ہے، مگر میرا رب دیکھ رہا ہے، اس سے کوئی شئی مخفی نہیں ہے، اس کے ڈر و خوف سے ایک ایک مہینہ بھوکا پیاسا گزارا جاتا ہے، اس کا مقصد تقویٰ یعنی خوف خدا کا مزاج پیدا کرنا ہے اور ایک مسلمانوں کیلئے یہی سرمایہ حیات ہے، یہ تقویٰ جتنا زیادہ ہوگا اسی قدر اصول اسلام کی اتباع آسان ہوگی، اس کی زندگی شریعت اسلامی کے محور پر گردش کرے گی، معاملات کاروبار، اخلاق و زبان اور دوسرے شعبہ حیات میں رب کا گہرا تصور رہنے سے اسے ٹھیک طرح انجام دے گا اور جب کسی کو گرفت کا احساس نہ ہو اور وہ اپنے آپ کو آزاد سمجھے تو ظاہر ہے کہ اس کے عمل میں روحانیت پیدا نہیں ہوگی، وہ اپنی طبعیت اور نفس کی اتباع کرتے ہوئے زندگی گزارے گا، اس لئے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی بندگی کی جائے، مگر اس طرح کہ گویا وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، اور ہم اس کے سامنے ہیں اور ہم کو وہ دیکھ رہا ہے، ہماری نقل و حرکت سے وہ اچھی طرح واقف ہے۔

نماز جو اہم ترین عبادت ہے، اس کیلئے بطور خاص یہ تاکید کی گئی ہے:۔
" اللہ کے آگے اس طرح کھڑے ہو جسے فرماں بردار غلام کھڑے ہوتے ہیں"۔
(البقرۃ : 238)
اس سے مراد خشوع اور خضوع ہے، یعنی دل و دماغ اللہ کی ذات میں محو ہوں اور تمام اعضاء پر سکوت طاری ہو، گویا دل و دماغ کے ساتھ یہ اعضاء بھی خدا کو سجدہ ریز ہیں اور زبان حال سے خدا کی عظمت کا اعتراف و اقرار کررہے ہیں، اس کیفیت سے جو نماز اد کی جاتی ہے وہ پُر تاثیر اور روح کو بالیدگی بخشنے والی ہوتی ہے۔ ایسی ہی نماز انسان کو برائی، بے حیائی اور بُرے کاموں سے محفوظ رکھتی ہے، ایک دن اور رات میں پانچ وقت اگر اس طرح مکمل استحضار کے ساتھ نماز ادا کی جائے تو کوئی وجہہ نہیں کہ قلب و ذہن پاک و صاف نہ ہوں اور ان کے وجود پر خدا کا خوف طاری نہ ہو، لیکن یہ آج ہمارا اور آپ کا مشاہدہ ہے کہ بعض مسلمان نماز کے پابند ہوتے ہیں، مگر پھر بھی ان کے معاملات صاف نہیں، ان کی زبان بہتر نہیں، ان کے اخلاق اچھے نہیں، برائی اور بے حیائیوں سے کوئی نفرت نہیں پائی جاتی، حالانکہ نماز کا یہ لازمی اثر ہونا چاہئے کہ ان کے دل کی اندرونی کیفیت تبدیل ہوجائے۔

نماز اور دیگر عبادات کے انقلاب آفرین نتائج حاصل اس لئے نہیں ہورہے ہیں کہ ان کو اخلاص و للہیت، مطلوب استحضار اور خدا کی ذات میں محو ہوکر ادا نہیں کیا جاتا، محض ایک رسم کے طورپر ادا کرلیا جائے، نماز مسجد میں ادا کرتے ہیں اور ہماری توجہ ساری دنیا میں گردش کررہی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ساری زندگی نماز پڑھنے کے باوجود زندگی پر سچے مسلمان ہونے کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا، اس کی زبان، اخلاق و کردار، چال اور روش میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، بازاروں میں معاملات کرتے ہوئے دیکھیں تو مسلم اور غیر مسلم کے کاروبار میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا، سود،رشوت، جھوٹ، دھوکہ دہی، دغا بازی ، وعدہ خلافی یہ قابل نفرت چیزیں اب مسلمانوں کا شعار ہیں۔

مختلف صحابہ کرامؓ کے فنافی اللہ کے واقعات صحیح سند کے ساتھ کتابوں میں مذکور ہیں، ان کے پائے استقامت، قومت ایمانی اور جذبہ عمل کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے، اگر تاریخی تسلسل نہ ہوتا تو ان کا یقین بھی دشوار ہوجاتا، رسول اکرمؐ نے ایسے اسلامی سپاہیوں کا یقین بھی دشوار ہوجاتا، رسول اکرمؐ نے ایسے اسلامی سپاہیوں کو تیار کیا جو رات میں کھڑے ہوکر اللہ کا یاد کرتے اور دن میں نظام حق کے قیام اور اقامت دین کی کوشش کرتے، وہ مضبوط ایمان کے ساتھ چلتے رہے، مخالفتوں کے طوفان گذرے، اغیار اور دشمنوں کے چلینجوں کا مقابلہ کیا، بالآخر اسلام کا نظام جاری ہوا، امن و انصاف کا دور آیا، اسلامی عدالت قائم ہوئی اور روئے زمین پر اللہ کا قانون جاری ہوا، اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے ان کلئے دنیا ہی میں مغفرت کا اعلان کردیا۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ کیا ہم نے بھی کوئی اس طرح کا عمل کیا ہے، ہماری عبادت اور بندگی میں روحانیت پائی جاتی ہے یا نہیں؟ آج ہی اس کے لئے تیار ہوجائیے اور اپنے قلب وذہن کو عبودیت و بندگی میں اس طرح محو کیجئے کہ اس کی تاثیر زندگی کے ہر گوشے میں دکھائی دینے لگے۔

Worship with sincerity. Article: Mufti Tanzeem Alam Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں