عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر - سیاسی تنازعات کی شروعات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-06

عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر - سیاسی تنازعات کی شروعات

عشرت جہاں کے دہشت گردوں سے مبینہ تعلقات کے الزامات پر پیدا شدہ تنازعہ کو ایک سیاسی رنگ دینے کی کوشش کے طورپر کانگریس کے جنرل سکریٹری ڈگ وجے سنگھ نے آج وزارت داخلہ سے اس مسئلہ پر وضاحت کرنے کی خواہش کی کہ عشرت جہاں کے پاکستان میں سرگرم دہشت گرد گروپ لشکر طیبہ سے آیا کوئی روابط تھے؟ مسٹر ڈگ وجئے سنگھ نے مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے سے ملاقات کے بعد اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے مرکزی وزارت سے اس مسئلہ پر وضاحت کی خواہش کی ہے کہ آیا 26/11 دہشت گرد حلموں کے ملزم ڈیویڈ ہیڈلی نے فی الواقعی کہا تھا کہ عشرت جہاں کے دہشت گردوں سے کوئی روابط تھے۔ اگرچہ اس حملہ سے بہت پہلے یعنی 9 سال قبل عشرت جہاں ایک فرضی انکاونٹر میں ہلاک کی جاچکی تھی۔ مسٹر ڈگ وجئے سنگھ نے کہاکہ سنٹرل بیورو آف انٹیلیجنس(سی بی آئی)، نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے) اور انٹلیجنس بیورو( آئی بی) اس مسئلہ پر ایک دوسرے سے متضاد و مختلف بیانات دئیے ہیں۔ مسٹر ڈگ وجئے سنگھ نے کہاکہ این آئی اے کچھ کہتی ہے۔ آئی بی کچھ کہتی ہے اور سی بی آئی کچھ اور کہتی ہے۔ چنانچہ اس بات پر وضاحت ہونی چاہئے کہ یہ تمام سرکاری ایجنسیاں آخر کیا کہہ رہی ہیں۔ اس ضمن میں کہانیاں شائع کرنے والے میڈیا کے ذرائع کی تحقیقات بھی ہونی چاہئے کیونکہ یہ سب ملک میں سنسنی پھیلارہی ہیں۔ ہیڈلی نے ممبئی میں26/11 حملہ کے منتخب ٹھکانوں کا خفیہ جائزہ لیا تھا اور ممبئی دہشت گرد حملوں کی تحقیقات کے ایک حصہ کے طورپر این آئی اے نے 2010ء میں ہیڈلی سے پوچھ گھچ کی تھی جو امریکی تحویل میں ہے۔ میڈیا رپورٹس نے ابتداء میں کہا تھا کہ ہیڈلی نے لشکر طیبہ کے کمانڈر ذکی الرحمن لکھوی سے انکشاف کیا تھا کہ اس (ہیڈلی) کو بتایا گیا تھا کہ 2005ء کے دوران ہندوستان میں ایک دہشت گرد حملے کا منصوبہ ناکام ہوگیا تھاکیونکہ عشرت جہاں اور دیگر افراد ہلاک ہوگئے جنہیں اس (حملہ) کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ یہ اطلاعات ہیڈلی کی طرف سے آئی بی کو مبینہ طورپر دئیے گئے بیان کے طورپر منظر عام پر آئی تھیں جس کی دستاویزات چند میڈیا اداروں کو دستیاب ہوئی تھیں لیکن این آئی اے کی رپورٹ میں عشرت کے بارے میں2فقرے حذف پائے گئے۔ این آئی اے کے ذرائع نے کہاکہ ہیڈلی کے تبصرے قابل بھروسہ نہیں ہوسکتے اور 26/11 حملہ سے ہٹ کر کسی دوسرے واقعہ میں قانونی طورپر قابل قبول نہیں ہوسکتے کیونکہ دوسرے ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کو قابل اعتبار تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بعدازاں وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے نے کہاکہ وہ ان رپورٹس کی تنقیح کریں گے جن میں کہا یا تھا کہ ہیڈلی نے این آئی اے سے کہا تھا کہ عشرت کے لشکر طیبہ سے روابط ہیں۔ مسٹر شنڈے نے کہاکہ کانگریس کے جنرل سکریٹری نے درخواست کی تھی کہ عشرت پر ہیڈلی کی جانب سے این آئی اے کو دئیے بیان کا جائزہ لیا جائے۔ مسٹر شنڈے نے کہاکہ "ڈگ وجئے سنگھ نے مجھ سے ملاقات کی۔ مجھے ان کی طرف سے اٹھائے گئے مسئلہ کا جائزہ لینے دیجئے۔ متعلقہ ایجنسیوں سے بات چیت کرنے دیجئے"۔

عشرت جہاں فرضی انکاونٹر کیس میں سی بی آئی "تمام زاویوں"سے تحقیقات کررہی ہے جس میں چند گواہوں کے ان بیانات میں کئے گئے اس دعویٰ کی تحقیقات بھی شامل ہیں کہ انٹلیجنس بیورو کے معاون یونٹس اور گجرات پولیس کی طرف سے کئے گئے اس فرضی انکاونٹر کے پس پردہ سیاسی سازش کارفرما ہے۔ سی بی آئی کے ڈائرکٹر رنجیت سنہا نے کہاکہ "ہم ا س سے متعلق تمام زاویوں پر تحقیقات کررہے ہیں"۔ مسٹر سنہا سے پوچھا گیا تھا کہ آیا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ڈی ایم گو سوامی کی طرف سے مجسٹریٹ کو دئیے گئے اس بیان کی بھی تحقیقات کی جائیں گی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ڈی آئی جی کرائم برانچ ڈی جی ونجارا نے اس انکاونٹر کیلئے سیاسی قیادت سے اجازت حاصل کی تھی۔ جنگلات اور جنگلی جانوروں پر جرائم کے موضوع پر منعقدہ انٹرپول کانفرنس کے موقع پر سنہا یہاں اخباری نمائندوں سے بات چیت کررہے تھے۔ انہوں نے کہاکہ عشرت جہاں فرضی انکاونٹر کیس کی تحقیقات میں سی بی آئی، بشمول این آئی اے مختلف تحقیقاتی اداروں سے تعاون حاصل کررہی ہے۔

عشرت جہاں فرضی انکاونٹر کیس میں سی بی آئی کی تحقیقات پر سخت اعتراض کرتے ہوئے انٹلیجنس بیورو نے وزارت داخلہ کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے احتجاج کیا ہے۔ آئی بی کا کہنا ہے کہ اس کے ایک عہدیدار کا تعاقب کیا جارہا ہے اس کے نتیجہ میں انٹلیجنس بیورو کے عہدیداروں کے حوصلہ پست ہوگئے ہیں۔ آئی بی کے ڈائرکٹر آصف ابراہیم نے اپنے مکتوب میں کہاکہ مبینہ فرضی انکاونٹر کیس میں جو گجرات میں پیش آیا اسپیشل ڈائرکٹر راجندر کمار کے خلاف مقدمہ چلانے سی بی آئی کی کوششوں سے آئی بی عہدیداروں کے حوصلے پست ہوگئے ہیں۔ یہ اقدام تباہ کن ثابت ہوگا۔ اس کے نتیجہ میں ملک کی داخلی سکیورٹی خطرہ میں پڑ جائے گی۔ آصف ابراہیم نے وزارت داخلہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مسئلہ میں فوری مداخلت کریں اور سی بی آئی کو لگام لگائیں۔ آصف ابراہیم کا کہنا ہے کہ راجندر کمار نے عشرت کے تعلق سے سے صرف اطلاع فراہم کی تھی۔ انکاونٹر سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ آئی بی عہدیدارکے خلاف مقدمہ دائر کرنے کیلئے سی بی آئی کے پاس ٹھوس شواہد موجود نہیں ہے۔ اس کے برعکس سی بی آئی کا کہناہے کہ انٹلیجنس بیورو کے اسپیشل ڈائرکٹر راجندر کمار نے انکاونٹر میں نہ صرف کلیدی رول ادا کیا تھا بلکہ عشرت کو اپنی تحویل میں رکھتے ہوئے انہیں گجرات پولیس کے حوالہ کردیا اور ان کے قتل کیلئے ہتھیار بھی فراہم کئے۔ آئی بی کا یہ مکتوب حال ہی میں سبکدوش ہونے والے معتمد داخلہ آر کے سنگھ کو موصول ہوا ہے۔ اب یہ متکوب وزارت عظمی کے دفتر کے حوالہ کردیاگیاہے۔ سی بی آئی راست وزیراعظم کی نگرانی میں ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر وہ اس کیس کی تحقیقات کررہی ہے۔ انٹلیجنس بیورو نے اپنے مکتوب میں کہا ہے کہ امریکہ کی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی کی رپورٹ میں عشرت جہاں کانام شامل تھا۔ کہا گیا تھا کہ وہ خودکش بم بردار تھیں۔ ملک کے ممتاز قانون اے ٹی ایس تلسی نے اس تمام تنازعہ پر واضح انداز میں کہاکہ عشرت جہاں دہشت گرد ہو یا نہ ہو کسی بھی صورت میں پولیس کو اس کے قتل کا اختیار حاصل نہیں تھا۔ یہ ایک وسیع تر سیاسی سازش ہے جس کے تحت اس لڑکی کو ہلاک کیاگیا۔

ishrat jahan fake encounter political controversy

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں