حیدرآباد بھی ہمہ جہتی اور ہمہ لسانی شہر میں تبدیل - کاسموپالیٹن کلچر عام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-17

حیدرآباد بھی ہمہ جہتی اور ہمہ لسانی شہر میں تبدیل - کاسموپالیٹن کلچر عام

hyderabad cosmopolitan city
400 سالہ قدیم تاریخ کا حامل شہر حیدرآباد وقت کے ساتھ ساتھ اپنی جغرافیائی، ثقافتی، روایتی ، آبادیاتی، معاشی، علاقائی اور لسانی ہئیت ترکیبی کے ایک عبوری دور سے گذر رہا ہے۔ اس شہر پر مختلف علاقائی گروپس کے دعوے اور جوابی دعوؤں کا سلسلہ جاری ہے۔ آبادی میں اضافہ اور دیگر علاقوں سے عوام کی آمد کے سبب دیگر میٹرو پولٹین شہروں کی طرح حیدرآباد بھی ایک ہمہ جہتی اور ہمہ لسانی شہر میں تبدیل ہوچکا ہے، جہاں بیک وقت مختلف تہذیب و ثقافت سے وابستہ کئی مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں۔ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ سوشیل سائنسس اور برٹش ڈپٹی ہائی کمیشن حیدرآباد کی جانب سے آج منعقدہ ایک ورکشاپ میں مقررین نے ان خیالات کااظہار کیا۔ ورکشاپ کا موضوع "حیدرآباد تا سائبر آباد بدلتی تہذیب، مذاہب اور شہری آبادی" تھا۔ پروفیسر ارجن اپاؤ رائے (نیویارک سٹی) نے افتتاحی خطاب کیا۔ جس میں انہوں نے ممبئی اور حیدرآباد میں بدلتی صورتحال، مختلف تہذیب و ثقافت کے یکجا ہونے پر سیر حاصل کلچر دیا۔ انہوں نے کہاکہ ہر شہرکی اپنی علیحدہ شناخت ہوتی ہے اور وہاں کے عوام اپنی ضروریات اور سہولتوں کے لحاظ سے توقعات وابستہ کرتے ہیں۔ موجودہ حالات میں مختلف مذاہب اور تہذیبوں سے وابستہ افراد کی بڑے شہروں میں آمد کے سبب کاسمو پولٹین کلچر عام ہوچکا ہے۔ مقررین نے کہا کہ حیدرآباد اپنی 400 سالہ تاریخ کے سبب دیگر میٹرو پولٹین شہروں چینائی، ممبئی، کولکتہ اور بنگلورو سے بھی قدیم ہے۔ اس شہر سے کئی بڑے حکمرانوں کی تاریخ وابستہ ہے، یہ اپنے دور کا سب سے دولت مند شہر تھا۔ یہاں کی مشترکہ تہذیب جو دکنی تہذیب کے نام سے مشہور ہے اس کی ملک بھر میں علیحدہ شناخت ہے۔ حیدرآباد کی خصوصیت ہے کہ یہاں آزادی کے وقت ہی تمام انفراسٹرکچر سہولتیں دستیاب تھیں جن میں وسیع سڑکیں، زیر زمین ڈرینج سسٹم، پبلک ٹرانسپورٹ، ریلوے اور پانی کی سربراہی کے لئے ذخائر آب شامل ہیں۔ حالانکہ برطانوی حکمرانوں نے کبھی بھی اس شہر پر حکومت نہیں کی۔ پروفیسر ارجن اپا دو رائے نے اپنے لکچر میں ممبئی کے ہمہ جہتی سماج کا وسیع تر احاطہ کیا۔ وہ ممبئی کی مختلف غیر سرکاری اور خواتین کی تنظیموں کے ساتھ غریبوں کیلئے امکنہ کی فراہمی کی مہم میں حصہ لے چکے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ ممبئی میں مقیم غریب طبقہ ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتا ہے اور وہاں آندھراپردیش بالخصوص تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی موجود ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وہاں بیک وقت کئی زبانیں سنی جاسکتی ہیں لئیکن مقامی سہولت اور ضروریات کیلئے مراٹھی زبان کا جاننا ضروری ہے۔ پولیس، بلدیہ اور کلکٹریٹس میں کسی کام کی تکمیل کیلئے مراٹھی سے واقفیت ضروری ہے۔ انہوں نے بتایاکہ ممبئی میں زبانوں کے ساتھ ساتھ عوام میں خواندگی کی نوعیت بھی علیحدہ ہے۔ پروفیسر پادو رائلے نے مختلف زبان، علاقے، تہذیب اور مذاہب کی اجتماعیت کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ان تمام کی موجودگی کے باوجود ممبئی کی علیحدہ شناخت برقرار ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلم انڈسٹری کبھی ممبئی سینما کی حیثیت سے جانی جاتی تھی لیکن اب سے بالی ووڈ کہا جانے لگا ہے۔ فلم انڈسٹری پر بھی مختلف مذاہب اور کلچر کا دیکھا جارہا ہے۔ ہر علاقہ سے تعلق رکھنے والی شخصیتوں نے اپنے علاقہ کی زبان کو ہندی میں شامل کردیا ہے۔ پروفیسر اپا یادو رائے نے مختلف ڈائرکٹرس، مکالمہ نگار، پروڈیوسرس، گیت کار اور اداکاروں کا حوالہ دیت یہوئے کہاکہ ان میں بیشتر کا تعلق شمالی ہند کی ریاستوں سے ہے لیکن فلم انڈسٹری پر انہوں نے اپنی شناخت بنائی ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں جاوید اختر، مجروح سلطان پوری اور خان ایکٹرس کا تذکرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ممبئی اور حیدرآباد جیسے بڑے شہر لازمی کاسموپولٹین سسٹم کے ساتھ پھیل رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ حیدرآباد کی ترقی منصوبہ بند اندازمیں ہوئی ہے اور یہاں ماحولیات اور دوسرے شعبوں میں دیگر شہروں کے مقابلہ کافی تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے۔ برطانیہ کے ڈپٹی ہائی کمشنر متعینہ حیدرآباد اینڈرو مائیک الیسٹر نے خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ حیدرآباد اور برطانیہ کے روابط کی ایک قدیم تاریخ ہے۔ حیدرآباد میں کئی مقامات پر برطانوی طرز تعمیر کی نشانیاں آج بھی موجود ہیں جن میں کنٹونمنٹ سکندرآباد کا علاقہ سرفہرست ہے۔ انہوں نے بتایاکہ گذشتہ 10برسوں سے برٹش ہائی کمشن کا تجارتی دفتر حیدرآباد میں کام کررہا تھا لیکن گذشتہ سال اسے ہائی کمیشن میں تبدیل کیا گیا۔ انہوں نے مختلف تاریخی عمارات بشمول معظم جاہی مارکٹ، اسمبلی کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ان کے طرز تعمیر میں برطانوی طرز تعمیر کی جھلک ملتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ لندن کی طرح حیدرآباد بھی مختلف مذاہب، تہذیب اورزبانوں کا مرکز ہے۔ یہاں کی تہذیب اور خاص طورپر مہمان نوازی اپنی مثال آپ ہے۔ پروفیسر لکشمی لنگم ڈپٹی ڈائرکٹر ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشیل سائنسس حیدرآباد نے صدارت کی۔ انہوں نے بتایا کہ حیدرآباد کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کیلئے یہاں اسٹڈی سنٹر کے قیام کی تجویز ہے۔ انہوں نے آندھراپردیش حکومت کے اشتراک سے جاری مختلف پراجکٹس کی تفصیلات پیش کی۔ دو روزہ ورکشاپ میں حیدرآباد کی مختلف یونیورسٹیز کے اسکالرس اور تاریخ داں مختلف موضوعات پر مقالے پیش کریں گے جن میں حیدرآباد کی شادیاں، ایرانی چائے، ثقافتی ورثہ، ریسیڈنشیل کامپلکس، میڈیا، رئیل اسٹیٹ، یمن کے حضرمی خاندانوں کی سکونت، دکنی تہذیب اور دیگر موضوعات شامل ہیں۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں