آخر مودی کی زبان پروہ خوفناک سچ آ ہی گیا ، جسے وہ انٹرویو میں نہ بھی کہتے ،تب بھی اسکی سچائی سے ساری دنیا واقف تھی ۔۔۔ وہ میڈیا جو آج اس ناپاک گفتگو کے بعد بھی مودی کو ہیرو بنا رہا ہے، اسکے پاس گجرات فسادات کے فوٹیج آج بھی موجود ہونگے ۔۔۔ گجرات بیکری، معصوم بچوں تک کو جلا دینا ، حاملہ عورتوں کے ساتھ عصمت دری ۔۔۔ حیرت ہے ، مودی خود کو "راشٹرا وادی ہندو" ثابت کر رہے ہیں۔ کیا ایک راشٹریہ وادی ہندو یہی کرتا ہے جو مودی نے کیا ؟
۔۔۔ مودی نے اپنے انٹرویو میں کتے کے بچے کا حوالہ دیا ہے ۔۔۔ میری اس کہانی میں بھی ایک ایسا ہی حوالہ آیا ہے۔ مودی کے آج کے بیان کو سامنے رکھتے ہوئے اس کہانی کو پڑھئے ۔۔۔ تو خوفناک گجرات کا وہ سچ سامنے آ جائے گا جس سے رونگٹے کھرے ہو جائیں گے!
- مشرّف عالم ذوقی
میں اُسے تین چار دنوں سے دیکھ رہی تھی۔ کب، کہاں۔۔۔ شاید یہ سب سلسلہ وار بتا پانا میرے لیے ممکن نہیں ہے یا پھر آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میں ایک ایسے نفسیاتی خوف کا شکار ہوں، جس کی وجہ سے کچھ بھی بتا پانے میں قاصر ہوں۔ راتوں کو اچانک انجانے خوف سے میری آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ پھر لگتا ہے کسی اجنبی سڑک یا بس میں ہوں۔ پھر لگتا ہے پولس کی ایک وین میرے سامنے یا بس کے آگے آکر رکتی ہے۔ چاروں طرف پولس والے پوزیشن لیے۔۔۔ پھر سڑک پر گول گول دائروں کے درمیان پڑی ایک خون سے سنی ہوئی لاش۔۔۔ ان کاؤنٹر یا فرضی مڈبھیڑ کی ایک کہانی۔ عہدے اور ترقی کا خواب دیکھنے والے اپنی بہادری کی رپورٹ حکومت تک پہنچانے میں مصروف۔۔۔
نہیں، شاید اب یہ سب آپ کو بتانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے کہ میں کون ہوں اور کہاں رہتی ہوں۔ میں اسی قوم کی ایک اقلیت لڑکی ہوں، اعداد شمار کے مطابق، جنہیں اب 20-25 کروڑ سے کم شمار کرنا ایک بھول ہی کہی جا سکتی ہے۔ میں یہ بھی نہیں جانتی کہ ہمارے رہنماؤں، سیاسی لیڈروں نے اتنی بڑی آبادی، جو کسی ملک کی آبادی سے بھی زیادہ ہے، ہوتے ہوئے بھی ہمیں اقلیت ہونے کی ذہنیت میں کیوں قید کر رکھا ہے۔۔۔ جانے دیجئے، میں سیاسی کھیلوں کے اس چکر میں نہیں پڑنا چاہتی۔ میں تو صرف اس خواب کی طرف آنا چاہتی ہوں، جس نے مجھے یکایک چونکا دیا تھا۔
سفید، میلے کرتے پائجامے میں۔ چپّل ٹوٹی ہوئی۔ آنکھوں پر ایک بیحد پرانے قسم کا چشمہ۔۔۔ آنکھیں ایسی کہ خطرناک نظر آنے والے گدھوں کی آنکھوں میں بھی وہ چمک نہ ہو۔ مگر اس وقت اس چمک کی جگہ ایک گہری سنجیدگی نے لے لیا تھا۔
وہ میرے کمرے میں تھا۔ لکھنے والی میز پر۔ میری اجازت کے بغیر۔ کاغذ بکھرے پڑے تھے۔ سگریٹ پی پی کر اس نے اپنے دانت سیاہ، اور انگلیوں کو زرد کر لیا تھا۔ بال بکھرے تھے، جس میں کنگھا کرنے کی ضرورت اس نے بالکل بھی محسوس نہ کی تھی۔
میں اسے گذشتہ تین دن سے دیکھ رہی تھی۔ پہلے دن تو میں ڈر ہی گئی تھی۔ میرے کمرے میں ایک مرد۔۔۔ میں نے ڈر کر تھوڑا کانپتے ہوئے پوچھا تھا۔
"کون ہو تم۔۔۔؟"
"آہ۔۔۔ مسٹیک ہوگیا" وہ بہت آہستہ سے بولا۔
"کیا لکھ رہے ہو۔۔۔"
اس نے میری طرف نگاہ مرکوز کی۔۔۔"کچھ لکھنا چاہتا ہوں، مگر ۔۔۔ میرے لفظ کھو گئے ہیں۔ یاد ہے ایک زمانہ تھا جب میں ہر دن آرام سے ایک کہانی لکھ دیتا تھا۔
"بنو مت۔ ہر دن ایک کہانی ۔۔۔ ایسا صرف ایک مہینے ہی ہوا تمہارے ساتھ۔ سگریٹ اور شراب کے پیسے نہیں ہوتے تھے تمہارے پاس۔ تم ایک کہانی لکھتے تھے۔ میگزین کے مدیر کو دیتے تھے۔اور پیسہ لے کر شراب کی ایک بوتل لے آتے تھے۔ تم ۔۔۔ تمہیں تو اپنی پیاری بیوی کی بھی کوئی فکر نہیں تھی۔۔۔"
لیکن شاید جیسے اس نے میرا سوال سنا ہی نہیں۔ وہ کہیں اور دیکھ رہا تھا۔۔۔ " میرے پاس لفظ ہی لفظ تھے۔ تب بھی جب ٹوبہ ٹیک سنگھ، ٹھیک نومینس لینڈ پر اپنی آنکھیں بند کرنے والا تھا۔۔۔ اور ۔۔۔ وہ بھیانک ٹھنڈا گوشت" ۔۔۔ شاید مجھے سب کچھ یاد رہا ہے۔۔۔ وہ قیامت کی دوپہر۔۔۔ جب ڈاکٹر کی آواز پر وہ لڑکی اپنی شلوار کا ازار بند" کھولنے لگی تھی۔ نہیں تب بھی میرے پاس لفظ تھے۔۔۔
"اور اب۔۔۔"
لیکن میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ غائب تھا۔۔۔
میں اس رات اس ڈراؤنے خواب سے بری طرح چونک گئی تھی۔
**
چلئے اپنا نام بھی بتا دیتی ہوں۔ کوثر بی یا جو بھی نام آپ کو پسند ہو، آپ خود کیوں نہیں رکھ لیتے۔ میں پیدا ہوئی تب بھی باہر شعلے بھڑک رہے تھے۔۔۔ بڑی ہوئی تو یہ شعلے تب بھی رہ رہ کر بھڑک جاتے۔ باہر کی وحشت اور دہشت کے گھنگھرو کچھ اتنے بے سرے تھے کہ بچپن میں ہی کتابیں دوست بن گئیں اور کتابوں کو پڑھتے ہوئے نہ چاہتے ہوئے بھی اس بڑی بڑی خطرناک آنکھوں والے منٹو سے میری دوستی ہوگئی۔۔۔ مگر میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ دبلا پتلا بیمار سا دیکھنے والا ادیب کبھی اس طرح میرے اور میرے خواب کے درمیان بھی آسکتا ہے۔
نہیں، اس دن کا حوالہ دینا ضروری ہے۔ شہر میں ایک بار پھر دہشت کے گدھ منڈرا رہے تھے۔۔۔ اقلیتوں کے محلے میں پولس جیپوں کی آمود و رفت بڑھ گئی تھی۔ دو تین سال قبل ہونے والے حادثے لوگوں کو اب بھی یاد تھے۔ حادثے، شکل بدل کر ایک بار پھر زندہ تھے۔ میں کوئی صحافی نہیں اور وہ سب تو آپ ٹی وی پر چینلوں پر دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ بس مجھے اتنا یاد ہے، اس صبح تیز بارش ہوئی تھی۔۔۔ ہم سہمے ہوئے گھر میں نظر بند تھے۔۔۔ اپنے ہی گھر میں پرائے ہونے کا احساس کیسا ہوتا ہے، آپ سمجھ سکتے ہیں۔ اس دن شام کو کھانا ہم لوگوں نے جلدی کھا لیا تھا۔ ٹی وی پر فرضی مٹھ بھیڑوں کی کہانیوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔۔ اس لیے سب سونے چلے گئے تھے۔ میں کمرے میں آگئی۔۔۔ کھڑکی بند کی اور بستر پر خاموش سی لیٹ گئی۔
نہیں، آہ، اس بھیانک خواب کے لیے میں آپ سے معافی چاہتی ہوں۔ لیکن اس رات منٹو ایک بار پھر میرے کمرے میں تھا۔ اور یہ کوئی میری آنکھوں کا وہم نہیں تھا۔
" چلو باہر گھومنے چلتے ہیں۔۔۔"
"پاگل ہو۔۔۔ باہر۔۔۔ کرفیو جیسا سنّاٹا ہے۔"
"جانتا ہوں۔ ماحول اچھا نہیں۔۔۔"
"پھر پولس پکڑ لے گی۔"
"پکڑے گی نہیں۔۔۔" وہ ہنس رہا تھا۔۔۔ " ان کاؤنٹر کر دے گی۔۔۔"
" سب جانتے ہو تم ۔۔۔ پھر بھی باہر گھومنے ، سیر کرنے کی بات۔۔۔"
وہ اچانک سنجیدہ ہوگیا۔۔۔ " کچھ نہیں ہوگا۔ میل دو میل کا چکر لگا کر واپس آجائیں گے۔۔۔"
"میل۔ دو میل۔۔۔ پیدل؟"
"شی۔۔۔ ایک گاڑی لے آیا ہوں۔ چرا کر ۔۔۔" وہ ہنس رہا تھا۔ "یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ میں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے لیے بھی ڈرائیونگ کی تھی۔"
"جانتی ہوں اور ان کی گاڑی کو ٹکّر دے ماری تھی۔۔۔"
منٹو ہنس رہا تھا۔ " فکر مت کرو۔ اس بار احتیاط سے چلاؤں گا"۔
میں نے گھڑی دیکھی۔ رات کے تین بج چکے تھے۔ سڑک ویران تھی۔ میں نے کھڑکی کھولی۔۔۔ زمین اب بھی گیلی تھی۔ پتہ نہیں بیالیس۔ تینتالیس سال کے اس ڈبلے پتلے ادیب میں،وہ کیسی کشش تھی کہ میں اس کے ساتھ چل پڑی۔ بارش سے بھیگی سڑک ، کتّوں کے بھونکنے اور رونے کی آوازیں۔۔۔ ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گاڑی تیز بھاگ کھڑی ہوئی۔۔۔ تھوڑے تھوڑے فاصلوں پراونگھتی پولس جیپیں۔ لیکن منٹو اپنے خیالوں میں گم تھا۔۔۔ وہ جیسے شہر اور شہر کی اس ویرانی کو اپنی آنکھوں میں بھر لینا چاہتا تھا۔۔۔ دو ایک جگہ پولس نے کچھ روک کر کچھ سوال کئے۔ منٹو نے ہنس کر کیا جواب دیئے میں نہیں جانتی۔ میں نے صرف اتنا دیکھا کہ اندھیرے میں، اس نے اپنی پیشانی پر چندن کا ٹیکہ ڈال رکھا تھا۔ میرے اندر کے خوف کو دیکھ کر وہ ہنس پڑا۔۔۔
"میں نے کہا تھا نا" کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ بس کچھ اور دور ۔۔۔"
ہم چار پانچ کلو میٹر سے زیادہ دور چل چکے تھے۔ اس بار منٹو نے گاڑی جس سڑک کی طرف موڑی کہ اچانک میں چلّا پڑی۔۔۔ " کہاں جارہے ہو تم۔۔۔"
" شی۔۔۔" اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھی۔۔۔ تاریخ اتنی جلد نہیں مرتی۔ کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں۔ بس چلتی چلو۔" میں کہنا چاہتی تھی کہ "تاریخ تو کبھی نہیں مرتی" مگر جانے کیا سوچ کر میں خاموش رہی۔
اب چار بج چکے تھے۔ ہم اقلیتوں کی ایک غریب بستی میں تھے۔ جہاں گھوڑے والے اور روزانہ مزدوری کرنے والے مزدوروں کے چھوٹے چھوٹے کچّے پکّے مٹّی کے گھر بنے ہوئے تھے۔ کتّے اب بھی بھونک رہے تھے۔ ان گھروں میں کچھ کی صبح ہوچکی تھی۔ کچھ گھروں میں چولہے سلگ گئے تھے۔ ایک دو گھروں کے آگے کچھ بچے بھی نظر آئے۔۔۔ عورتیں جھونپڑوں کے اندر باہر کرتی نظر آئیں۔۔۔ اور اچانک وہ حادثہ ہوگیا تھا۔۔۔ ایک بھیانک حادثہ۔۔۔ گاڑی کے آگے اچانک آگئے تھے۔۔۔ ایک چھوٹا سا، اقلیت کا بچہ اور ایک گائے کا چھوٹا سا بچھڑا۔۔۔ بے فکری میں گاڑی چلاتے منٹو کے لیے ایک سکینڈ میں فیصلہ لینے کا وقت تھا۔ "نہیں" آپ چاہیں تو کہانی یہاں چھوڑ سکتے ہیں۔ میں آگے اسے پڑھنے کے لیے نہیں کہوں گی۔۔۔ کیونکہ آگے جو کچھ آپ پڑھیں گے" وہ غیر اخلاقی " انسانیت سوز" اذیت ناک اور بے حد تکلیف دہ ہے۔۔۔ انسانی حقوق کے خلاف بھی ہے۔۔۔ آخری کچھ سکنڈ میں میں نے زوروں سے اپنی آنکھیں بھینچتے ہوئے گائے کو اچھل کر بھاگتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔ منٹو نے گاڑی اس اقلیت بچے کی طرف۔۔۔ نہیں۔ میں پھر کہتی ہوں، مہربانی کر کے اس لمحہ بولے گئے بے رحم اور سفاک مکالمے کو آپ اس کہانی سے خارج کرسکتے ہیں۔
ہم واپس گھر پہنچ چکے تھے۔ منٹو کھڑکی کی سلاخوں کے پاس تھا۔ اس کے چشمے پر دھول جم گئی تھی۔ وہ جلدی جلدی سگریٹ کے کش لے رہا تھا۔
"تم اس بچے کو بچا سکتے تھے۔۔۔" میں زور سے چیخی۔
"گائے اور بچے میں سے ایک"۔۔۔ شاید مجھ سے کہیں زیادہ شدت سے منٹو چیخا تھا۔۔۔
" ایک اقلیت بچے کا حادثہ دو گھنٹے میں بھلا دیا جائے گا۔ اس بستی میں گائے کے بچھڑے کا مرنا جانتی ہو۔۔۔؟؟"
منٹو پلٹا۔ میز پر بکھرے کاغذوں کے چیتھڑے کر کے اس ڈسٹ بن میں ڈال دیئے۔
منٹو غائب تھا۔۔۔ لیکن وہ کرسی جس پر ابھی کچھ لمحہ قبل وہ بیٹھا تھا، وہ ابھی بھی ہل رہی تھی۔
***
Zauqui2005[@]gmail.com
موبائل : 09310532452 , 09958583881
Zauqui2005[@]gmail.com
موبائل : 09310532452 , 09958583881
مشرف عالم ذوقی |
Faisla. Short Story: Musharraf Alam Zauqi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں