روزہ اور اس کی حکمتیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-13

روزہ اور اس کی حکمتیں

اﷲ تعالیٰ خود حکیم ہے، اس نے اپنی مخلوق اور شریعت کی بنیاد زبردست حکمت پر رکھی ہے۔ اپنی مخلوق کیلئے ایسی شریعت دی ہے جس سے ایمان میں اضافہ اور عبادت میں کمال حاصل ہو سکے۔ اس زبردست حکمت تک بعض کی رسائی ہوئی اور بعض کی نہیں ہو سکی جو ہمارے عجز و کوتاہ علمی کی واضح دلیل ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا ہے
وما أوتيتم من العلم إلا قليلا
تمہیں علم بہت کم دیا گیا ہے۔
الإسراء - 17:85

اﷲ تعالیٰ نے عبادتوں کی مشروعیت اور معاملات کو منظم محض اپنے خالص بندوں اور نفس پرستوں کے مابین تمیز و آزمائش کیلئے کیا ہے۔ نیز مختلف طرح کی عبادتیں اسی حکمت پر مشتمل ہیں۔ فرمایا :
وليمحص الله الذين آمنوا
اور تاکہ اﷲ تعالیٰ مومنوں کو علیحدہ کر سکے
آل عمران - 3:141

روزوں کی ان متعدد حکمتوں میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔

1:
روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں بندہ اپنی دنیوی لذتوں کو مخصوص وقت میں چھوڑ کر قربت الہیٰ حاصل کرتا ہے جو بندے کی ایمانی صداقت، کمال عبودیت اور گہری محبت کی علامت ہے کیونکہ انسان محبوب چیز کو کسی اہم ترین چیز کے ملنے ہی پر چھوڑتا ہے۔

2:
روزہ سے انسان کے دل میں اﷲ کا خوف پیدا ہوتا ہے، فرمایا گیا :
يا أيها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون
اے مومنو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا توقع ہے کہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔
البقرة - 2:183
یہی وجہ ہے کہ روزہ دار جب کسی گناہ کا ارادہ کرتا ہے تو اپنے روزہ کو یاد کرتے ہی اس کے ارتکاب سے باز آ جاتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک روزہ دار کو تعلیم بھی دی کہ :
کوئی گالی گلوج کرنے پر آمادہ ہو تو اس سے کہہ دو کہ میں روزہ سے ہوں۔

3:
روزہ سے قلب و دماغ پورے طور پر ذکر و فکر کیلئے فارغ ہو جاتا ہے جب کہ لذتوں کا استعمال موجب غفلت ہے بلکہ دل کی سختی اور حق سے اندھا پن تک پہنچا دیتا ہے اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کم خوری کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ :
معدہ سے بدتر کوئی برتن ابن آدم نے بھرا ہی نہیں۔ زندگی کی بقاء کیلئے انسان کو چند لقمے کافی ہیں اگر بہت ضروری ہو تو ایک تہائی کھانے کیلئے ایک تہائی پانی کیلئے اور ایک تہائی سانس کیلئے رکھنا چاہئے۔
(احمد، نسائی، ابن ماجہ)
ابو سلیمان الدارانی فرماتے ہیں کہ انسان جب بھوکا اور پیاسا ہوتا ہے تو دل صاف شفاف اور نرم رہتا ہے اور آسودگی ہونے پر دل اندھا ہو جاتا ہے۔

4:
روزہ سے ایک مالدار شخص کے دل میں ان لذتوں کی قدر پیدا ہوتی ہے جس یس یہ متمتع اور دوسرے بہت سے لوگ محروم ہیں پھر اﷲ تعالیٰ کی شکر گذاری میں اپنے بھوکے، پیاسے بھائی پر صدقات و خیرات کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) یوں تو لوگوں میں زیادہ سخی تھے ہی، مگر آپ کی سخاوت اس وقت اور بڑھ جاتی جس وقت جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آتے اور قرآن کا مذاکرہ کرتے۔

5:
روزہ سے انسان کو ضبط نفس اور کنٹرول کرنے کی ٹریننگ ملتی ہے جس سے آدمی کو خیر و فلاح کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے کیونکہ مطلق العنانی آدمی کو ہلاکت کے گڈھے میں ڈھکیل دیتی ہے۔

6:
روزہ آدمی کے نفسانی کبر و غرور کو ختم کر کے اس کو حق کا تابع اور مخلوق کیلئے نرم کر دیتا ہے۔ کیونکہ دنیاوی لذتوں سے متمتع ہونے والا شخص کبر و غرور، بغاوت و سرکشی پر اتر آتا ہے جو آدمی کی ہلاکت کا سبب ہوتی ہے۔

7:
روزہ کی حالت میں بھوک و پیاس کی وجہ سے خون کا دوران کم ہو جاتا ہے جس سے انسانی بدن میں شیطان کی دوڑ بھی کم ہو جاتی ہے۔ جب کہ شیطان انسانی جسم میں خون کے مانند دوڑ لگاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا :
اے جوانو! تم میں جو شخص قوت مردانگی رکھتا ہو وہ شادی کر لے کیونکہ نکاح آمدی کی نگاہ پست کر دیتا ہے اور شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے اور جو شخص طاقت نہ رکھتا وہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ شہوت کی حدت کم کردیتا ہے۔
(بخاری و مسلم)
کم خوری اور ایک مخصوص وقفہ میں آلات ہاضمہ کو راحت پہنچانے پر جو جسمانی صحت ممکن ہو سکتی ہے وہ ہمیں بآسانی حاصل ہوتی ہے اور یوں جسم کیلئے نقصان دہ رطوبات کا خاتمہ ہوتا ہے۔

The wisdom of fasting, Article: Sheikh Mohammed Salih Al Uthaymeen

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں