تاریخی ہگلی مدرسہ - قدیم شناخت کو واپس لانے کا فیصلہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-02

تاریخی ہگلی مدرسہ - قدیم شناخت کو واپس لانے کا فیصلہ

محسن قوم و فخر ملت مرحوم حاجی محمد محسن کی وقف کردہ تاریخی ہگلی مدرسہ گذشتہ ایک دہائی سے لا ایجنل مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس ملی اثاثہ کے تعلق سے "روزنامہ راشٹریہ سہارا" ابتدا سے ہی رپورٹ شائع کرتا رہا ہے۔ اسی کا اثر ہا کہ ایوان بالا میں ہلچل بھی مچی اور محاذی حکومت کی سازش ناکام ہوئی۔ ممتا حکومت کے دور میں بھی گاہے بگاہے اس تاریخی مدرسہ کو بچانے سے متعلق رپورٹ شائع کئے جانے کا سلسہ ہنوز جاری ہے۔ اسی رپورٹ کا اثر ہے کہ ممتا حکومت کی گلیاروں میں حرکت پیدا ہوئی اور اس کے مختلف سرکاری دفاتر میں ہگلی مدرسہ کے لا ایجنل مسئلہ کو حل کرنے کے نظرئیے میں بدلاؤ آیا۔ خبر کے مطابق حکومت مغربی بنگال کے سکریٹری مسٹر اے رائے نے گذشتہ 6مئی 2013ء کو مائناریٹی افیسرس اینڈ مدرسہ کے سکریٹری کو خط لکھ کر یہ ہدایت کی کہ وہ ہگلی گورنمنٹ مدرسہ کے تعلق سے جلد سے جلد کارگر اور مثبت اقدام کرے۔ ساتھ ہی اس کے کاپی ڈائریکٹر آف مدرسہ ایجوکیشن، کمشنر آف اسکول ایجوکیشن، ایم آئی سی اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ و دیگر دفاتر کو بھی ارسال کی گئی ہے جس میں یہ تحریر ہے کہ ہگلی مدرسہ کے تعلق سے ضروری اقدام کئے جائیں۔ یہ عمل تب شروع ہوا جب اپریل 2013ء میں روزنامہ راشٹریہ سہارا میں ایک رپورٹ بعنوان "ہگلی مدرسہ کا وجود خطرے کی زد میں "شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ میں اس خبر کا انکشاف کیا گیا تھا کہ تاریخی ہگلی مدرسہ کا وجود کسی بھی وقت ختم ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ممتا حکومت کے ایجوکیشن دفتر اس مدرسہ کے تعلق سے غور و فکر کیا جارہا ہے کہ اس کے تمام اسٹاف کو متبادلہ کئے جانے کیلئے سرکاری کارروائی امروز فراد میں شروع ہونے والی ہے۔ کیونکہ ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے محکمہ تعلیم کے جوائنٹ سکریٹری کو ایک مکتوب 11اپریل 2013ء کو ارسال کیا گیا تھا جس میں تمام اسٹاف کو ٹرانسفر کئے جانے کی سفارش کی گئی تھی۔ اس سلسلے میں روزنامہ راشٹریہ سہارا میں خبر شائع کی گئی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ممتا حکومت کے ایوانوں میں حرکت پیدا ہوگئی اور اب اس تاریخی اور ملی اثاثہ کو روایتی شناخت واپس لانے کی سرکاری کوشش شروع ہوگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مائناریٹی افیسرس اینڈ مدرسہ کے سکریٹری ڈائریکٹر آف مدرسہ ایجوکیشن اور ڈپٹی ڈائریکٹر آف مدرسہ ڈپارٹمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ ہگلی مدرسہ میں فی الحال جتنے بھی تدریسی اور غیر تدریسی اسٹاف ہیں ان کا تبادلہ اس وقت تک نہ کیا جائے گا جب تک وہاں کوئی متبادل انتظام نہیں ہوسکتا ہے۔ انہوں نے ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن کو آگاہ کیا ہے کہ ان کے ماتحت میں جو بھی اساتذہ اور غیر تدریسی اسٹاف ہیں ان کا تبادلہ فی الحال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہگلی مدرسہ کی نامی بلڈنگ اور ہاسٹل کو لے کر کیا کریں گے جب وہاں پرھانے والا کوئی نہیں ہوگا تو پھر کیا فائدہ۔ اس لئے جب تک کوئی متبادل انتظام نہیں ہوتا تب تک کسی بھی اسٹاف کا تبادلہ نہیں کیا جائے گا۔ سرکاری دفتر کے ذرائع کے مطابق مدرسہ ایجوکیشن بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ ہگلی مدرسہ میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ تدریسی اور غیر تدریسی اسٹاف کی تقرری کے قواعد امروز فردا میں شروع ہونے والے ہیں اور جب ان کی تقرری ہوجائے گی تو یہاں کے تمام اسٹاف کو ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ ریاست کے مختلف اضلاع میں شمالی 24 پرگنہ، جنوبی 24پرگنہ، مالدہ، مرشد آباد، کوچ بہار، ندیا وغیرہ میں مزید سرکاری مدرسہ (اسکول) قائم کیا جائے گا جہاں پبلک سرویس کمیشن کے ذریعہ تمام تدریسی اور غیر تدریسی اسٹاف کی تقرری کی جائے گی۔ اس کیلئے سرکاری کارروائی شروع ہوگئی ہے۔ مائناریٹی اینڈ مدرسہ ایجوکیشن کے دفترنے تاریخی ہلگی مدرسہ کے تعلق سے جو فیصلہ لیا ہے واقعی وہ قوم و ملت کیلئے نہایت ہی خوش کن خبر ہے۔ واضح رہے کہ محاذی حکومت کے ریاستی وزیر اقلیتی امور و مدرسہ ڈاکٹر عبدالستار کو یہ پسند نہیں آیا کہ ہگلی مدرسہ ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن کے زیر انتظام ہے جبکہ یہاں تعلیم مدرسہ بورڈ کے تحت دی جاتی ہے۔ پھر کیا تھا ڈاکٹر ستار کی تجویز پر مارکسی حکومت کے دور میں ایک کابینہ میٹنگ میں اس مدرسہ کو انتظامی امور کیلئے ڈپارٹمنٹ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا یعنی ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن کی ماتحتی سے نکال کر ڈائریکٹر آف مدرسہ ایجوکیشن کے ماتحت میں منتقل کردیا جائے۔ اس محکمہ جاتی تبدیلی کا بہانہ بناکر اس تاریخی ہگلی مدرسہ کے تمام تدریسی اور غیر تدریسی اسٹاف کا تبادلہ کرنے کا سرکاری ہدایت نامہ مارچ 2009ء میں جاری کیا گیا۔ اس ہدایت کے مطابق 16اساتذہ کا دوسرے اسکولوں میں تبادلہ کردیاگیا۔ اس سلسلے میں روزنامہ راشٹریہ سہارا میں رپورٹ شائع ہوئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مائناریٹی تنظیموں کی جانب سے ہنگلی مدرسہ کے سامنے اپریل میں لگاتار ایک ہفتہ دھرنا دیاگیا اور احتجاج کیاگیا۔ یہ مطالبہ کیا گیا کہ ٹیچروں کو متبادل انتظام کئے بغیر کسی کا تبادلہ نہیں کیا جائے اور نہ ہی اس اسکو ل کی قدیم سرکاری حیثیت میں کوئی تبدیلی لائی جائے۔ اس تحریک میں مقامی ترنمول کانگریس کے لیڈروں کے علاوہ جمعیت العلماء ہند کے ریاستی صدر صدیق اﷲ چودھری بھی اس تاریحی مدرسہ کے بچاؤ میں آئے تھے۔ ہگلی مدرسہ کے تعلق سے درپردہ سازش کے خلاف روزنامہ راشٹریہ سہارا نے بارہا رپورٹیں پیش کی اور عام لوگوں کو بیدار کرنے کا حق ادا کیا۔ ممتا حکومت کے دور میں واقع اگر ہگلی مدرسہ کی قدیم شناخت واپس آجاتی ہے تو واقعہ اس حکومت کا اقلیتوں کیلئے ایک اہم تحفہ ہوگا۔

Two-hundred-year-old Hooghly Madrasa

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں