روزے کا تربیتی پہلو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-16

روزے کا تربیتی پہلو

Training aspect fasting
رمضان کا مبارک مہینہ جس میں خدا کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتاہے، اس کی سب سے اہم عبادت "صوم" یعنی روزہ رکھنا ہے۔ روزہ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک خود کوکھانے، پینے اور جماع (شہوانی خواہشات) کی تکمیل سے رکنے کو کہتے ہیں۔
اللہ نے اپنے کلام میں روزے کو صوم سے تعبیر کیا ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ نزول قرآن سے قبل عرب میں"صائم" اس گھوڑے کو کہا جاتا تھا جسے بھوک اور پیاس کی شدت برادشت کرنے کیلئے خاص قسم کی تربیت دی جاتی تھی تاکہ و ہ مشکل اوقات میں زیادہ سے زیادہ سختی برداشت کرسکے۔ رمضان میں بھی خدا اپنے بندوں کو بھوک اور پیاس کی شدت برداشت کرنے کا حکم دے کر یہ تربیت دینا چاہتا ہے کہ وہ شرائع و احکام کے متحمل ہوسکیں۔
اس لحاظ سے رمضان المبارک کو ماہ تربیت کہا جاتا ہے کیونکہ خدا اپنے بندوں کو روزے کے ذریعے ایک خاص چیز کی تربیت دینا ہے جسے "تقویٰ" کہتے ہیں، چنانچہ قرآن مجید نے روزے کی فرضیت کا مقصد واضح کرتے ہوئے کہا :
"لعلکم تتقون"
تاکہ تم متقی ہوجاؤ"۔
روزہ تربیت نفس کی قدیم ترین عبادت ہے جو انسان کو صبر و ضبط کا عادی بناتا ہے کیونکہ نفس اور خواہشات پر قابو پانے کی بہتر تربیت روزوں کے ذریعہ ہوتی ہے۔ تربیت زندگی کے تمام شعبوں میں کامیابی اور حصول مقاصد کیلئے نہایت ضروری ہے، اس کے بغیر کسی بھی مقصد یا مشن میں کامیابی حاصل کرنا مشکل ہے۔ ہر چیز کو نشوونما اور اس کے ارتقاء کیلئے تربیت کی خاص ضرورت ہے۔ خواہ انسان کا عملی، علمی، فکری لحاظ سے ذاتی نشوونما ہو یا پھر خاندانی، سماجی، سیاسی اور افراد سازی کے اعتبار سے معاشرتی ارتقاء ہو ہر جگہ تربیت کی ضرورت ہے۔
روزہ کی فرضیت:
2/ ہجری میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے۔ روزہ ہر مقیم، عاقل، بالغ مسلمان مرد عورت پر فرض ہے۔ اللہ کا فرمان ہے :
"اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں(امتوں) پر فرض کئے گئے تھے"۔
(البقرۃ: ۱۸۳)
اس لئے بلا عذر اس گناہ عظیم ہے جس کی قضا پوری عمرادا کرنے سے بھی پوری نہیں ہوتی۔

شہرالقرآن:
خدا نے اس مقدس کتاب کو مبارک ماہ میں نازل فرماکر ہمیشہ کیلئے انسانوں کی ہدایت، تربیت اور رہنمائی کیلئے ایک گائیڈ بک بنادیا۔ قرآن اس بات کی اچھی تربیت دیتا ہے کہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں اس سے رہنمائی حاصل کی جائے اور جہاں جس کام کا حکم ہے اسے کیا جائے اور جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے، اس سے باز رہا جائے۔ اس طرح خدا اس ماہ میں اپنے بندوں کو عبادت واطاعت، زبان و شرم گاہ کی حفاظت، غریبوں اور حاجتمندوں کی ضرورت پوری کرنے کی صراحت وقت کی نزاکت اور ہر طرح کے فرائض و حقوق کی ادائیگی کیلئے پوری زندگی لگن اور ریاضت کی تربیت دیتا ہے کہ بندہ اس ماہ کی عملی مشق سے آئندہ دنوں میں رضائے الہیٰ کے مطابق زندگی بسر کرنے اور خود کو جہنم کی آگ سے بچاکر خدا کے انعام (جنت) کا مستحق بنائے۔ اس طرح وہ معنوی اعتبار سے پوری زندگی "صائم" ہوتا ہے جس کا بدلہ خدا اسے دیتا رہے گا۔

شھر اللہ:۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اس ماہ کو "شہر اللہ" اور "شہرالمواساۃ" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس ماہ میں ان تمام چیزوں کی تربیت دی جاتی ہے جس سے انسان اپنے خدا کا فرمانبردار بن کر آئندہ یک سالہ منصوبہ حیات کی تکمیل، اپنے خالق و مالک کی ہدایت کے مطابق کرسکے۔ جس طرح ایک فوجی جنرل اپنی فوج کو کسی مہم پر بھیجنے یا کسی جگہ چوکسی کیلئے متعین کرتاہے، تو اس سے قبل وہ اپنے فوجیوں کو خاص مدت تک ٹریننگ دیتا ہے اور ان سے سخت ریاضت بھی کرواتا ہے تاکہ اس کے فوجی اپنے ذمے سونپے گئے کام کو بحسن و خوبی انجام دے سکیں۔ چنانچہ جو اس میں جتنی دلچسپی لیتا ہے وہ اسی قدر پختہ، تجربہ کار ہوجاتا ہے اور وہ فوجی، جنرل کی نگاہ میں محبوب بن جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح خدا نے اس مہینے میں روزے کا حکم نازل فرماکر اپنے بندوں کو نیک کام کرنے کی ترغیب دی کہ اس میں ادا کئے گئے فرض کا ثواب ستر نگاہ زیادہ اور نوافل، فرائض کے برابر ہوگا تاکہ بندہ زیادہ سے زیادہ عبادت کا عادی بنے اوراس کے دل میں یہ اثر پیداہوکہ جس طرح وہ خدا کے منع کرنے پر اس ماہ (روزے کی حالت) میں دسترخوان پر موجود حلال چیز کے باوجود، اسے حلق سے نیچے نہیں اتارتا، ٹھیک اسی طرح دیگر ماہ میں یہ وہ یہ عزم کرے کہ خدا کی حرام کردہ چیز کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھے گا۔ یہ خدا کا مہینہ ہے، لہذا جو اپنی کڑی ریاضت کے ذریعے اپنی تربیت کرے گا، وہ آئندہ دنوں میں شیطان کے مکر و فریب کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکے گا۔ یہی اس حدیث کا مطلب ہے جس میں اگلے پچھلے گناہ کی معافی کا اعلان ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جس نے رمضان کا روزہ ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھا تو اس کے (اگلے) پچھلے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں"۔
(بخاری ومسلم)
اس کے ساتھ ساتھ وہ خدا کا محبوب بھی ہوگا۔ ارشاد نبویؐ ہے:
"ابن آدم کا ہر عمل اس کیلئے ہوتا ہے سوائے روزے کے۔ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ بندہ اپنی خواہشات اور خوراک صرف میرے ہی لئے چھوڑ دیتا ہے"۔
(مسلم)

شہر المواساۃ:۔
اس ماہ کو شہر المواساۃ (غم خواری کا مہینہ) بھی کہا گیا ہے۔ ایک مالدار صاحب ثروت شخص جس کے پاس ہر طرح کی نعمت و آسائش موجود ہے اس کے باوجود طلوع فجر سے غروب آفتاب تک اس کا ان نعمتوں کو ہاتھ نہ لگانا اوربھوک و پیاس سے بے چین رہنا اس بات کی تربیت دیتا ہے کہ ایک غریب بے بس مسکین ولاچار جس کے پاس کھانے پینے کا کوئی سامان موجود نہیں اس کی ضرورت پوری کی جائے۔ اس طرح خدا اپنے بندوں کے اندر غم خواری کی تربیت دیتا ہے تاکہ لوگ اپنے مال و اسباب میں ان کا حق سمجھ کر زکوۃ و صدقات اور خیرات کے ذریعہ ان کی مدد کرے۔

جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں:
اس ماہ مبارک جس میں انسانی زندگی کی مکمل تربیت کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کیلئے جنت کے سارے دروازے کھول دیتا ہے اور جہنم کے دروازے بند کردیتا ہے تاکہ اس کی پر بہار فضا میں نیک کام کرنے میں کوئی پریشانی نہ ہو اور اپنی جس نیکی سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے، خواہ عبادات کے ذریعہ یا اچھے اور نیک معاملات کے ذریعہ چنانچہ اس کا ایسا اثر ہوتاہے کہ ہر شخص روزے سے ہوتا ہے اور نیکی کی طرف دوڑتا ہوا نظر آتا ہے جس پر خدا اپنے فرشتوں میں فخر کرتاہے۔ شیاطین باندھ دئیے جاتے ہیں تاکہ وہ اس مبارک ماحول کو خراب نہ کرسکے۔ اگر انسان اپنی تربیت نہ کرے تو وہ درندہ صفت حیوان بن جاتا ہے اور معاشرہ ایک خوفناک جنگل کی مانند ہوجاتا ہے جبکہ انسان انس و محبت کا پیکر اور باہمی تعلقات کا خوگر ہوتا ہے۔ اس لئے اس ماہ مبارک میں اسے اپنی ہر طرح تربیت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ اس کا دل بغض، بخل، خود غرضی، حرص و حسد، کینہ، خود پسندی، شہرت پسندی، تنگ دلی اور تکبر جیسی ناپاک چیزوں سے نفرت کرنے لگے اور بہترین انسان بن کر خدا کے محبوب بن جائے جس سے قوم و ملت کو فائدہ ہو۔ ورنہ تو اس جہاں میں انسان اور بھی ہیں۔

Training aspect of fasting. Article: Mohibullah Qasmi

1 تبصرہ: