خوش آمدید! تو جب بھی آتا ہے دفتری اوقات میں تخفیف لاتا ہے۔ ہم اس سے بہت فیض اٹھاتے رہے ہیں اور اس سال بھی اٹھائیں گے۔ 4:30 بجنے سے پہلے ہی اپنی فائلیں سمیٹنے لگتے تھے۔ پچھلے برس ایک دن بارس نے رک کر کچھ ارجنٹ فائیلیں اٹنڈ کرنے کیلئے کہا تو ہم نے وہ فائلیں باس کے ٹیبل پر پھینک کر کہہ دیا تھا کہ ہم روزے سے ہیں۔ اور روزہ داروں کیلئے 4:30 بجے دفتر چھوڑنے کی حکومت نے اجازت دے دی ہے۔ اگر آپ ہمیں روکیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ اقلیتوں کو پریشان کررہے ہیں۔ ہم سی ایم صاحب کو فون کرکے بتادیں گے کہ آپ مائنارٹیز کو ہراساں کررہے ہیں۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ باس 4 بج کر 25 منٹ ہی پر ہمیں مطلع کردیتے ہیں کہ مرزا خیراتی بیگ! آپ کے اکفار کا وقت ہورہا ہے آپ جائیے۔ اب تو آرہا ہے تو ہم جیسے کام چوروں کو کام سے بچنے کا پھر بہانہ مل جائے گا۔ کاش! تو سال کے بارہ مہینوں پر محیط ہوجاتا اور ہم سال بھر تیرے فیوض و برکات اپنے دامن میں سمیٹتے رہتے۔
اے افطار پارٹیوں کے مہینے !
خوش آمدید! دوستوں کی افطار پارٹیاں، رشتے داروں کی افطار پارٹیاں، ملازمین سرکار کی افطار پارٹیاں اور سیاسی پارٹیوں کو افطار پارٹیاں، واہ مزہ آگیا تھا پچھلے برس۔ ایک افطار پارٹی جس کا ادگھاٹن ایک منسٹر جی کرنے والے تھے انہیں اُسی وقت ایک ہوٹل کا اُدگھاٹن بھی کرنا تھا تو انہوں نے نماز عصر کے بعد ہی افطار پارٹی کا ادگھاٹن کردینا مناسب سمجھا تو اُس میں کھجوروں پر لوگ ایسے ٹوٹ پڑے تھے کہ توبہ بھلی ہمیں ایک کھجور بھی نہیں مل سکا تھا۔ معلوم ہوا کہ افطار کے کھجوروں پر ٹوٹ پڑنے والے بے روزہ صاحب ایماں مسلمان نوجوان تھے۔ اے شہر رمضان خوش آمدید تو آرہا ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ اس سال کتنی افطار پارٹیاں پری پون ہوجاتی ہیں اور کتنے روزہ داری افطاری سے محروم ہوجاتے ہیں۔
اے ٹوپیوں کے مہینے !
خوش آمدید! تیرے آتے ہی مسلم بچوں، نوجوانوں اور بوڑھوں کے سروں پر ٹوپیاں آجاتی ہیں۔ قسم قسم کی، بھانت بھانت کی، رنگ برنگی ٹوپیاں۔ جو دور ہی سے اطلاع دے دیا کرتتی ہیں کہ .....کہ دیکھو رمضان کا روزہ دار آرہا ہے۔ گلی کے داد سے لے کر صدرجمہوریہ کے سر پر کوئی نہ کوئی ٹوپی دیکھنے میں آجائے گی۔ چندرابابو نائیڈو، کرن کمار ریڈی، کے سی آر جی بھی سفید ٹوپن پہن کر بن سحری کے روزہ دار نظر آئیں گے۔ مگر تیرے جاتے ہی لوگوں کے سروں سے ٹوپیاں ایسے ہی غائیب ہوجائیں گی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
اے ٹھیلوں کے مہینے !
خوش آمدید! تیری آمد کے ساتھ ہی شہر میں چار پہیوں کے ٹھیلوں کی ریل پیل ہوجائے گی۔ قسم قسم کے ٹھیلے، پینڈ کھجوروں کے ٹھیلے، انناس کے ٹھیلے، تربوز، خربوزوں، پپئی کے ٹھیلے، موز، انگور اور سیب کے ٹھیلے، مرچی گارل اور بھجیوں کے ٹھیلے، دہی بڑوں کے ٹھیلے۔ یہاں تک کہ حلیم اورہریس کے ٹھیلے۔ جن پر روزہ داروں اور روزہ دارنیوں کا ہجوم اتنا بڑھ جائے گا کہ ٹرافک جام ہوجائے گی۔
اے خریداری کے مہینے !
خوش آمدید! تیرے آتے ہی سارے مسلمان خریداریوں میں جٹ جایا کریں گے۔ کپڑوں کی خریداری، گھر کیلئے رنگ برنگے پینٹوں کی خریداری۔ زکوۃ کے سستے کپڑوں کی خریداری۔ دروازوں کے قیمتی پردوں، چادروں کی خریداری۔ سجاوٹ کے سامانوں کی خریداری، بھانت بھانت کی سیویوں کی خریداری۔ مغزیات کی خریداری اور مغزیات کی خریداری۔ افطار یوں کی خریداری۔ عطریات کی ، چوڑیوں اور زیورات کی خریداری۔ اور خصو صاً ہماری خواتین کی شاپنگ، تول مول بحث تکرار تو دیکھنے سے تعلق رہے گی۔ میڈیم یہ سوچ سوچ کر خوش ہیں کہ اپنی چرب زبانی سے انہوں نے پانچ ہزار کا چوڑی کا جوڑا چکا چکا کر ایک ہزار میں لے آئیں اور دکاندار مسرور کے گھاٹ میڈیم دوسوکا مال ہزار میں لے گئیں۔ اس مہینے میں خصوصاً خواتین کی بن آئے گی۔ ظہر سے پہلے دکانوں میں گھسیں گی تو تراویح کے بعد ہی باہر نکلیں گی۔ افطار کا انتظام دوکاندار کی جانب سے ہوجائے گا۔
اے نمازوں کے مہینے !
خوش آمدید! تیرے آتے ہی مسجدیں آباد ہوجائیں گی۔ پہلی تراویح میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملے گی اور رفتہ رفتہ نمازیوں کی تعداد گھٹنے لگے گی۔ 26 ویں تراویح میں تو بس امام صاحب کے پیچھے موذن اور بوڑھے کھوسٹ مصلی رہ جائیں گے۔ پھر 27 ویں شب میں پابند لوگوں کے بعد لیٹ لطیفوں کیلئے ایک الگ جماعت کا اہتمام کرنا پڑجائے گا اورپھر چاندرات میں موذن صاحب اکیلے ہی نماز پڑھ کر مسجد مقفل کرکے چلے جائیں گے۔ اے ماہ رمضان خوش آمدید کہ تیری رحمت تو دکانداروں ہی کے ساتھ رہے گی کہ ان کے گھر بھر جائیں گے اور اور خریدار مزے سے لٹتے رہیں گے۔ تو کچھ کیلئے رحمت اور بیشتر کیلئے زحمت ثابت ہوگا وہ تیرے فلسفے ہی کو بھول گئے ہیں۔
welcome dear ramadhan. Article: Iqbal Shedai
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں