خدا سے ڈرنا کیا ہے؟ خدا سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی خدا کی عظمت کے مقابلے میں اپنے عجز کا اعتراف کرے ۔ حقیقت یہ ہے کہ عجز کا اعتراف ہی ایمان کا آغاز ہے۔ جب کسی آدمی کو خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو اُس کے اندر سب سے زیادہ جو احساس پیدا ہوتا ہے وہ یہی عجز ہے۔ خدا پر ایمان دراصل خدا کی بے پناہ عظمت کو دریافت کرنا ہے۔ اور جو آدمی خدا کی بے پناہ عظمت کو دریافت کرے، اس کا حال یہ ہوگا کہ وہ عجز کے احساس میں ڈوب جائے گا۔ اُس کے اندر جو سب سے بڑی صفت پیدا ہوگی وہ یہی عجز کی صفت ہے۔
روزہ اس بات کا سبق ہے کہ تم چند دنوں کیلئے کھانا چھوڑدو، تاکہ تم بقیہ دنوں میں زیادہ اچھے کھانے والے بنو۔ تم چند دنوں کیلئے اپنی سرگرمیوں کو داخلی تعمیر کے محاذ پر لگادو، تاکہ اس کے بعد تم زیادہ بہتر طورپر خارجی سرگرمی کے قابل بن جاؤ۔ چند دنوں کیلئے تم اپنے بولنے پر پابندی لگالو، تاکہ اس کے بعد تم زیادہ بہتر بولنے والے بن سکو۔ چند دنوں کیلئے تم اپنے مقام پر ٹھہر جاؤ، تاکہ اس کے بعد تم کامیاب پیش قدمی کے قابل بن سکو۔
زندگی میں صرف اقدام کی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ رُکنا بھی زندگی میں ایک بے حد اہم پالیسی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقدام اگر خارجی توسیع کی علامت ہے تو رکنا داخلی استحکام کی علامت اور زندگی کی حقیقی تعمیر کیلئے بلاشبہ دونوں ہی یکساں طورپر ضروری ہیں۔
روزہ بیک وقت دو چیزوں کی تربیت ہے۔ ایک ، شکر اور دوسرے تقوی۔ کھانا اور پانی اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں، مگر عام حالات میں آدمی کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔ روزے میں جب آدمی دن بھر ان چیزوں سے رکا رہتا ہے اور سورج ڈوبنے کے بعد شدید بھوک، پیاس کی حالت میں وہ کھانا کھاتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اُس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کھانا اور پانی، اللہ کی کتنی بڑی نعمتیں ہیں۔ اس تجربے سے آدمی کے اندر اپنے رب کے شکر کا بے پناہ جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
دوسری طرف، روزہ آدمی کیلئے تقویٰ کی تربیت ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی دنیا کی زندگی میں خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچے، وہ اُن چیزوں سے رکا ہے جن سے خدا نے اُس کو روکا ہے اور وہ وہی کرے جس کے کرنے کی خدا نے اس کو اجازت دی ہے۔ روزے میں صرف رات کو کھانا اور دن کو کھانا، پینا چھوڑدینا، گویا اللہ کو اپنے اوپر نگراں بنانے کی مشق ہے۔ مومن کی پوری زندگی ایک قسم کی روزہ دارانہ زندگی ہے۔ رمضان کے مہینے میں وقتی طورپر چند چیزوں کو چھوڑ کر آدمی کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ وہ ساری عمر کیلئے اُن چیزوں کو چھوڑ دے جس اُس کے رب کو ناپسند ہیں۔ قرآن بندے کے اوپر اللہ کا انعام ہے اور روزہ بندے کی طرف سے اس انعام کا عملی اعتراف۔ روزے کے ذریعہ بندہ اپنے آپ کو اللہ کی شکر گزاری کے قابل بناتا ہے اور اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ قرآن کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق، دنیا میں متقیانہ زندگی گزار سکے۔
روزہ رکھنے سے دل کے اندر نرمی اور شکستگی آتی ہے۔ اس طرح، روزہ آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ اُن کیفیتوں کو محسوس کرسکے جو اللہ کو اپنے بندوں سے مطلوب ہیں۔ روزے کی پرمشقت تربیت، آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ اللہ کی شکر گزاری میں اس کا دل تڑپے، اور اللہ کے خوف سے اس کے اندر کپکپی پیدا ہو۔ جب آدمی اس نفسیاتی حالت کو پہنچتا ہے ، اُسی وقت وہ اس قابل بنتا ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر ایسا شکر ادا کرے جس میں اُس کے دل کی دھڑکنیں شامل ہوں، وہ ایسے تقویٰ کا تجربہ کرے جو اُس کے بدن کے رونگٹے کھڑے کردے، وہ اللہ کو ایک ایسے بڑے کی حیثیت سے پائے جس میں اس کا اپنا وجود بالکل چھوٹا ہوگیا ہو۔
حضرت سلمان فارسیؓ سے ایک طویل روایت آئی ہے۔ اس روایت میں رمضان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ آئے ہیں: ترجمہ: یعنی رمضان کا مہینہ انسانی ہمدردی کا مہینہ ہے۔
مذکورہ حدیث رسول میں رمضان کو مواسلات (Philanthorpy) کا مہینہ کہا گیا ہے۔ مواسات کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے ساتھ مالی، یا غیر مالی مدد کا معاملہ کیا جائے۔ اس کے لئے قرآن میں "مرحمۃ "(البلد:17) کا لفظ آیا ہے۔ مرحمہ کے معنی بھی تقریباً وہی ہیں جو مواسات کے معنی ہیں، یعنی انسان کے ساتھ ہمدردی اور مہربانی کا معاملہ کرنا( الرحمۃ علی الخلق)۔ مواسات ایک اخلاقی فریضہ ہے جو ہمیشہ اور ہرحال میں اہل ایمان سے مطلوب ہوتا ہے، لیکن رمضان کے مہینے میں اس اخلاقی ذمے داری کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ لوگوں کے اندر انسانی ہمدردی کے احساس کو جگاتا ہے۔ روزہ گویا کہ اُس محتاجی کی حالت کو اختیاری طورپر اپنے اوپر طاری کرنا ہے جو دوسروں کے ساتھ مجوری کے طورپر پیش آتی ہے۔ اس طرح روزہ یہ کرتا ہے کہ وہ ایک اخلاقی ذمہ داری کو روزے دار کیلئے اُس کا ایک ذاتی تجربہ بنادیتا ہے۔ اس ذاتی تجربے کی بناپر وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ انسانی ہمدردی کے معاملے کو سمجھتاہے اور اُس پر عمل کرنے کیلئے کھڑا ہوجاتا ہے۔ روزہ ایک طرف ، انسان کے اندر اللہ سے تعلق کو بڑھاتاہے اور دوسری طرف وہ روزہ داروں کے اندر انسانی خدمت کا جذبہ مزید اضافے کے ساتھ پیدا کرین کا سبب بنتا ہے۔ رمضان کے مہینے کے بعد انسان زیادہ بہتر طورپر خدا کا عبادت گذار بن جاتا ہے اور اسی کے ساتھ وہ زیادہ بہتر طورپر انسان کا خدمت گذار بھی۔ روزہ ایک اعتبار سے عبادت خداوندی کا تجربہ ہے اور دوسرے اعتبار سے خدمت انسانی کی تربیت کا ذریعہ۔
Spiritual and human aspects of fasting. Article: Maulana Waheeduddin Khan
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں