چین ہندوستان کو کمزور سمجھنے کی غلطی نہ کرے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-22

چین ہندوستان کو کمزور سمجھنے کی غلطی نہ کرے

China India conflict
ہندوستان دنیامیں آبادی کے اعتبارسے دوسرے مقام پرہے اورچین پہلے مقام پر،لیکن جمہوریت کے اعتبارسے دنیا میں اول مقام حاصل ہے،امریکہ اورکناڈاکانمبربھی ہندوستان کے بعدآتا ہے،اورحالیہ زمانے میں اقتصادی اورفوجی اعتبارسے بھی دنیاکے ترقی پذیرملکوں کی فہرست میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے ۔ ہندوستان اورچین تہذیب وثقافت کے اعتبارسے بھی دنیاکی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ہیں،دونوں ملکوں کی تہذیب وثقافت کی تاریخ ماقبل تاریخ سے چلی آ رہی ہے،ہندوستان اورچین دونوں ہی ملک آبادی کے اعتبارسے بھی دنیاکے دیگرملکوں کے مقابلے تیزی کے ساتھ بڑھنے والاملک ہے اوراقتصادی اعتبارسے بھی،یہ الگ بات ہے کہ چین کی اقتصادی وفوجی حالت ہندوستان سے کہیں بہترہے ۔
ہندوستان اورچین کے مابین گذرنے والی مشہورشاہراہ”شاہراہ ریشم”کا اہمیت صرف اس لیے نہیں ہے کہ وہ دونوں ملکوں کی تجارت کا اہم ذریعہ ہے بلکہ مذہبی اعتبارسے بھی اس شاہراہ کوایک خصوصی حیثیت حاصل ہے،ہندوستان سے مشرقی ایشیاء میں بدھ مذہب کوفروغ دینے میں اس شاہراہ کا اہم کردا رہے جسے فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندوستان اورچین نے ہی جاپانی شہنشاہیت کے اثرات کوبڑھنے سے روکا تھا۔
آزادی کے بعدچین کی نظربدکوبھانپتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم جواہرلال نہرونے ایک بڑاہی جامع معاہدہ تیارکیا تھاجسے تاریخ میں “پنچ شیل معاہدہ”کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ 29!اپریل 1954ء کوپیکنگ میں اس معاہدہ پردونوں ملکوں کے سربرا ہوں نے دستخط کیے ۔ معاہدہ کے وہ پانچ نکات یہ ہیں :1۔ دونوں ملک ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت اورخودمختاری کا احترام کرے گا۔ 2۔ دونوں ملک باہمی عدم جارحیت کی پالیسی پرعمل پیرا رہے گا۔ 3۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔ 4۔ دونوں ملک مساوات اورباہمی فائدے کے اصول پرکام کرے گا۔ 5۔ پرامن اوربقائے باہمی کے اصول پرعمل کرتے ہوئے دونوں ملک اپنے حدمیں رہیں گے ۔
یہ معاہدہ جسے نہرونے پنچ شیل کانام دیا تھابہت ہی جامع اوردونوں ملک کے حق میں یکساں طورپرمفیدتھا،لیکن چین نے 8!سال کی قلیل مدت میں ہی معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہندوستانی علاقہ میں دراندازی شروع کر دی جس کانتیجہ 1962ء کی جنگ کی شکل میں نکلا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ 1962ء میں ہندوستان کے حالات جنگ کوبرداشت کرنے والے نہیں تھے،لیکن اب حالات مختلف ہیں ۔ 1980ء سے دونوں ملکوں نے ڈپلومیسی اورتجارتی سطح پرکامیابی کے ساتھ اپنے روابط کوبڑھائے ہیں ۔ 2008ء میں چین نے ہندوستان کواپناسب سے بڑاتجارتی شریک کارمانا اوراسٹراٹیجی اورفوجی سطح پربھی باہمی تعلقات کومضبوط کیا،لیکن افسوس کے ساتھ کہناپڑتا ہے کہ ان سب کے باوجودچین اپنی منافقانہ پالیسی کوچھوڑنے پرآمادہ نہیں ہے اورتقریباً4!ہزارمیل کے سرحدی علاقوں میں سے 3!ہزارمیل کے تنازعہ کواب تک حل کرنے پرآمادہ نظرنہیں آتا ہے ۔ چین کی منافقانہ پالیسی کا ایک واضح ثبوت یہ بھی ہے کہ چین ہندوستانی پالیسی کونظراندازکرتے ہوئے جیساکہ پنچ شیل معاہدہ کے پہلے بندمیں کہا گیا ہے وہ برابرلداخ کے علاقہ میں دراندازی کرتارہتا ہے اسی طرح اپنے نقشہ پراروناچل پردیش کوچین کاحصہ بتانے میں بھی شرم نہیں محسوس کرتا۔ اسی طرح کشمیرکے عوام کوسادے کاغذپہ ویزا اسٹامپ کرنا ہے جس پرہندوستان اپنا احتجاج درج کرا چکا ہے ۔ اسی طرح چین اپنی منافقانہ پالیسیوں سے ہندوستان کوزک پہونچاتارہتا ہے،جیساکہ جنیوامیں اقوام متحدہ کے اجلاس میں اس نے بالکل ہندوستان کے مخالفت میں سری لنکاکے خلاف و وٹ دیا۔ ہندوستان کے لیے ایک پریشانی اورہے وہ ہے کہ چین سیکورٹی کونسل کامستقل رکن ہے اورہندوستان غیرمستقل رکن،اس وجہ سے بھی چین ہمیشہ ہندوستان کونیچادکھانے کی کوشش کرتارہتا ہے ۔
ان سب کے باوجودجون 2012ء میں چینی وزیراعظم اورہندوستان کے وزیراعظم منموہن سنگھ نے ایک معاہدہ پردستخط کر کے باہمی تجارت کو2015ء تک 100!بلین ڈالرتک بڑھانے کا ہدف مقررکیا ہے ۔ جہاں ایک طرف دونوں ملک سرحدی اختلاف کے باوجوداپنی تجارتی ترقی کوبڑھانے پرزوردے رہے ہیں اوریہ کوشش کی جا رہی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتمادکی جوفضا ہے اسے ختم کیاجائے اوراس سلسلہ میں ہندوستان کارویہ بڑاہی صاف ہے،وہیں دونوں ملکوں کی عوام ایک دوسرے ملک کے بارے میں کیانظریہ رکھتے ہیں یہ جاننے کے لیے 2013ء میں بی بی سی نے ایک سروے کرایاجس میں 36!فیصدہندوستانیوں نے چین کوبھروسہ مندپڑوسی بتایاتو وہیں 27!فیصدنے اپناعدم اعتمادظاہرکیا اس کے برعکس چین کے صرف 23!فیصدلوگوں نے ہندوستان پراپنابھروسہ جتایاجبکہ 45!فیصدلوگوں نے اپنی رائے نفی میں دی۔
چین آبادی کے اعتبارسے دنیاکاسب سے بڑاملک ہے اس میں کوئی شک نہیں اس کی فوجی طاقت بھی ہندوستان سے زیادہ ہے،یہ بھی ایک حقیقت ہے،ترقی پذیرممالک کی صف میں بھی چین ہندوستان سے کافی آگے ہے اوراس وقت پوری دنیامیں اپنی مصنوعات کوپہونچانے میں کامیاب ہے،لیکن اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہندوستان کوکمزورسمجھ کرچین ہندوستان پرحملہ کر دے اوران علاقوں کوجس پروہ ہمیشہ دعویٰ کرتاآیا ہے اپنے قبضہ میں لے لے گا،بھلے ہی ہندوستانی فوج عددی اعتبارسے چین سے کم ہے ،لیکن ہمت وحوصلہ میں چین سے کہیں بڑھ کرہے،اوراس حقیقت سے بھی انکارممکن نہیں ہے کہ موجودہ حالات میں ہند۔ چین جنگ دونوں ملکوں کے لیے ہی نقصاندہ ثابت ہو سکتی ہے کیوں کہ جہاں ایک طرف ہندوستان چین کی مصنوعات کی کھپت کا ایک بڑاملک ہے وہیں عالمی سطح پرہندوستان کوچین سے کہیں زیادہ مقبولیت حاصل ہے،اوراگرایسا ہوتا ہے توبہت ممکن ہے کہ چین عالمی برادری میں الگ تھلگ پڑجائے،کیوں کہ چین کی بڑھتی ترقی امریکہ کے لیے بھی پریشانی کاباعث ہے،وہیں دوسری طرف چین ہندوستان کے مقابلہ پاکستان پرزیادہ اعتمادکرتا ہے اورپاکستان کی عالمی برادری میں کیاحیثیت ہے وہ اہل فکرسے پوشیدہ نہیں ہے ۔ لیکن ان سب کے ساتھ ہندوستانی قیادت کوبھی چین کی منافقانہ پالیسیوں پرگہری نظر رکھنی ہو گی،اوربار بارکی بداعتمادی اورآئے دن ہندوستانی علاقوں میں دراندازی کے معاملہ پراس سے سختی کے ساتھ گفت وشنیدکرنی ہو گی۔ کیوں کہ اب تک کی تاریخ کے حوالہ سے چین ہمیشہ بداعتمادہی ثابت ہوا ہے،اسی لیے بجائے اس کے کہ ہم اس کی باتوں پراعتمادکریں،ہمیں عالمی سطح پراس مسئلہ کوحل کرانے کی سنجیدہ کوشش کرنی ہو گی۔ رپورٹوں کے مطابق ہندوستان کے بہت سارے حصوں پرچین ابھی بھی قابض ہے لیکن ہندوستان نے ابھی تک سختی کے ساتھ اس کانوٹس نہیں لیا ہے،آخرکیوں ؟اگریہی معاملہ پاکستان کی طرف سے ہوتا ہے تواینٹ کاجواب پتھرسے دینے کی بات کہی جاتی ہے اورفوراًہی اس کے ردعمل میں کھیل جیسے ثقافتی امورپربھی پابندی لگادی جاتی ہے،لیکن چین کی بار باردراندازی پرہمارالب ولہجہ اتناہلکاکیوں رہتا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ چین ہندوستان کوکمزورسمجھنے کی غلطی کر کے وہ اپنے لیے قبرکھودے گالیکن اس کے لیے ہندوستان کوپہلے سے تیار رہنا ہو گاکیوں کہ چین مستقل طورپراپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرتاجا رہا ہے اورہندوستانی قیادت یہ کہہ کرعوام کوخاموش کر دیتا ہے کہ سرحدپرسب ٹھیک ٹھاک ہے جوکہ مستقبل کے لیے بالکل بھی ٹھیک ٹھاک کی ضمانت نہیں ہے ۔ اسی لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان وقت رہتے اس مسئلہ کوحل کرے اورچین کوخبردارکر دے کہ ہندوستان کے حالات 1962ء سے بہت مختلف ہیں ۔

***
gsqasmi99[@]gmail.com
موبائل : 00966532883253
چیف ایڈیٹر : بصیرت آن لائن ڈاٹ کام ، ریاض ، سعودی عرب
غفران ساجد

China should understand the power of India. Article: Ghufran Sajid

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں