روزے کے تقاضے اور اتباع سنت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-15

روزے کے تقاضے اور اتباع سنت

آپ روزے تو ماشا اللہ بڑے ذوق و شوق سے رکھ رہے ہیں، لیکن روزے کے کیا معنی ہیں؟
روزے کے معنی یہ ہیں کہ کھانے سے اجتناب کرنا، پینے سے اجتناب اور نفسانی خواہشات کی تکمیل سے اجتناب کرنا، روزے میں ان تینوں چیزوں سے اجتناب ضروری ہے۔ اب یہ دیکھیں کہ یہ تینوں چیزیں ایسی ہیں جو فی نفسہ حلال ہیں، کھانا حلال، پینا حلال اور جائز طریقے سے زوجین کا نفسانی خواہشات کی تکمیل کرنا حلال، اب روزے کے دوران آپ ان حلال چیزوں تو سے پرہیز کر رہے ہیں۔ نہ کھا رہے ہیں اور نہ پی رہے ہیں۔ لیکن جو چیزیں پہلے سے حرام تھیں، مثلاً جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، بدنگاہی کرنا، جو ہرحال میں حرام تھیں، روزے میں یہ سب چیزیں ہو رہی ہیں۔
اب روزہ رکھا ہوا ہے اور جھوٹ بول رہے ہیں۔ روزہ رکھا ہوا ہے اور غیبت کر رہے ہیں۔ روزہ رکھا ہوا ہے بدنگاہی کر رہے ہیں۔ روزہ رکھا ہوا ہے لیکن وقت پاس کرنے کیلئے گندی فلمیں دیکھ رہے ہیں۔۔۔
یہ کیا روزہ ہوا؟
کہ حلال چیز تو چھوڑ دی اور حرام چیز نہیں چھوڑی۔ اسی لئے حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا نہ چھوڑے تو مجھے اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔ اس لئے جب جھوٹ بولنا نہیں چھوڑا جو پہلے سے حرام تھا تو کھانا چھوڑ کر اس نے کونسا بڑا عمل کیا؟

اگرچہ فقہی اعتبار سے روزہ درست ہوگیا۔ اگر کسی مفتی سے پوچھو گے کہ میں نے روزہ بھی رکھا تھا اور جھوٹ بھی بولا تھا تو وہ مفتی یہی جواب دے گا کہ روزہ درست ہو گیا اس کی قضا واجب نہیں لیکن اس کی قضا نہ ہونے کے باوجود اس روزے کا ثواب اور برکات ملیا میٹ ہوگئیں، اس واسطے کے آپ نے اس روزہ کی روح حاصل نہیں کی۔

یہ جو آیت ہے۔
يا أيها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے پچھلی امتوں پر فرض کئے گئے۔
(البقرہ : 183)
کیوں روزے فرض کئے گئے؟ تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو یعنی روزہ اصل میں اس لئے تمہارے ذمہ فرض کیا گیا تاکہ اس کے ذریعہ تمہارے دل میں تقویٰ کی شمع روشن ہو۔ روزے سے تقویٰ کس طرح پیدا ہوتا ہے؟
بعض علماء کرام نے فرمایا کہ روزے سے تقویٰ اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ روزہ انسان کی قوت حیوانیہ اور قوت بہیمیہ کو توڑتا ہے، جب آدمی بھوکا رہے گا تو اس کی وجہ سے اس کی حیوانی خواہشات اور حیوانی تقاضے کچلے جائیں گے۔ جس کے نتیجے میں گناہوں پر اقدام کرنے کا داعیہ اور جذبہ سست پڑ جائے گا۔

حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس اللہ سرہ نے فرمایا کہ صرف قوت بہیمیہ توڑنے کی بات نہیں ہے۔ بلکہ بات دراصل یہ ہے کہ جب آدمی صحیح طریقے سے روزہ رکھے گا تو یہ روزہ خود تقویٰ کی ایک عظیم الشان سیڑھی ہے۔
اس لئے کہ تقویٰ کے کیا معنی ہیں؟ تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ جل جلالہ کی عظمت کے استحضار سے اس کے گناہوں سے بچنا، یعنی یہ سوچ کر کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوکر مجھے جواب دینا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ اس تصور کے بعد جب انسان گناہوں کو چھوڑتا ہے تو اسی کا نام تقویٰ ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وأما من خاف مقام ربه ونهى النفس عن الهوى
(سورۃ النازعات:40)
یعنی جو شخص اس بات سے ڈرتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہونا ہے اور کھڑا ہونا ہے، اور اس کے نتیجے میں وہ اپنے آپ کو ہوائے نفس اور خواہشات سے روکتا ہے یہی تقویٰ ہے۔

لہذا روزہ حصول تقویٰ کیلئے بہترین ٹریننگ اور بہترین تربیت ہے، جب روزہ رکھ لیا تو آدمی پھر کیسا ہی گنہگار، خطا کار اور فاسق و فاجر جسیا بھی ہو لیکن روزہ رکھنے کے بعد اس کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ سخت گرمی کا دن ہے اور سخت پیاس لگی ہوئی ہے اور کمرہ میں اکیلا ہے، کوئی دوسرا پاس موجود نہیں اور دروازے پر کنڈی لگی ہوئی ہے اور کمرہ میں فرج موجود ہے اور اس فرج میں ٹھنڈا پانی موجود ہے۔ اس وقت انسان کا نفس یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس شدید گرمی کے عالم میں ٹھنڈا پانی پی لوں لیکن کیا وہ شخص فرج سے ٹھنڈا پانی نکال کر پی لے گا؟
ہرگز نہیں پئے گا۔
حالانکہ اگر وہ پانی پی لے تو کسی بھی انسان کو کانوں کان خبر نہ ہوگی۔ کوئی لعنت و ملامت کرنے والا نہیں ہوگا۔ اور دنیا والوں کے سامنے وہ روزہ دار ہی رہے گا اور شام کو باہر نکل کر آرام سے لوگوں کے ساتھ افطاری کھا لے تو کسی شخص کو بھی پتہ نہیں چلے گا کہ اس نے روزہ توڑ دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ پانی نہیں پیتا ہے، کیوں نہیں پیتا؟ پانی نہ پینے کی اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں ہے کہ وہ یہ سوچتا ہے کہ اگرچہ کوئی مجھے نہیں دیکھ رہا ہے لیکن میرا مالک جس کیلئے میں نے روزہ رکھا ہے وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔

اسی لئے اللہ جل شانہ فرماتے ہیں کہ
الصوم لي وأنا أجزي به
جامع الترمذي » كتاب الصوم » باب ما جاء في فضل الصوم
یعنی روزہ میرے لئے ہے لہذا میں ہی اس کی جزا دوں گا۔

اور اعمال کے بارے میں تویہ فرمایا کہ کسی عمل کا دس گنا اجر، کسی عمل کا ستر گنا اجر، اور کسی عمل کا سو گنا اجر ہے حتی کہ صدقہ کا اجر سات سو گنا ہے، لیکن روزہ کے بارے میں فرمایا کہ روزے کا اجر میں دوں گا۔ کیوکہ روزہ اس نے صرف میرے لئے رکھا تھا۔
اس لئے کہ شدید گرمی کی وجہ سے جب حلق میں کانٹے لگ رہے ہیں، اور زبان پیاس سے خشک ہے اور فرج میں ٹھنڈا پانی موجود ہے اور تنہائی ہے کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود میرا بندہ صرف اس لئے پانی نہیں پی رہا ہے کہ اس کے دل میں میرے سامنے کھڑا ہونے اور جواب دہی کا ڈر اور احساس ہے۔ اس احساس کا نام تقویٰ ہے۔ اگر یہ احساس پیدا ہوگیا تو تقویٰ بھی پیدا ہوگیا۔ لہذا تقویٰ روزے کی ایک شکل بھی ہے۔ اور اس کے حصول کی ایک سیڑھی بھی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے روزے اس لئے فرض کئے تاکہ تقویٰ کی عملی تربیت دیں۔

اور جب آپ روزہ کے ذریعہ یہ عملی تربیت حاصل کر رہے ہیں تو پھر اس کو اور ترقی دیں اور آگے بڑھائیں۔ لہذا جس طرح روزے کی حالت میں شدت پیاس کے باوجود پانی پینے سے رک گئے تھے اور اللہ تعالیٰ کے خوف سے کھانا کھانے سے رک گئے تھے، اسی طرح جب کاروبار زندگی میں نکلو، اور وہاں پر اللہ کی معصیت اور نافرمانی کا تقاضہ اور داعیہ پیدا ہوتو یہاں بھی اللہ کے خوف سے اس کی معصیت سے رک جاؤ، لہذا ایک مہینے کے لئے ہم تمہیں ایک تربیتی کورس سے گزار رہے ہیں۔
اور یہ تربیتی کورس اس وقت مکمل ہوگا جب کاروبار زندگی میں ہر موقع پر اس پر عمل کرو، ورنہ اس طرح یہ تربیتی کورس مکمل نہیں ہوگا کہ اللہ کے خوف سے پانی پینے سے تو رک گئے، اور جب کاروبار زندگی میں نکلے تو پھر آنکھ غلط جگہ پر پڑ رہی ہے۔ کان بھی غلط باتیں سن رہے ہیں۔ زبان سے بھی غلط باتیں نکل رہی ہیں۔ اس طرح تو یہ کورس مکمل نہیں ہوگا۔

جس طرح علاج ضروری ہے اس طرح پرہیز بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روزہ اس لئے رکھوایا، تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو، لیکن تقویٰ اس وقت پیدا ہوگا، جب اللہ کی نافرمانیوں اور معصیتوں سے پرہیز کرو گے، مثلاً کمرہ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے آپ نے اس میں ایئر کنڈیشنر لگایا، اور ایئر کنڈیشنر کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ پورے کمرے کو ٹھنڈا کر دے، اب آپ نے اس کو آن کر دیا لیکن ساتھ ہی اس کمرہ کی کھڑکیاں اور دروازے کھول دئیے۔ ادھر سے ٹھنڈک آ رہی ہے اور ادھر سے نکل رہی ہے۔ لہذا کمرہ ٹھنڈا نہیں ہوگا۔
بالکل اس طرح یہ سوچئے کہ روزہ کا ایئر کنڈیشنر تو آپ نے لگا دیا لیکن ساتھ ہی دوسری طرف اللہ کی نافرمانی اور معصیتوں کے دروازے اور کھڑکیاں کھول دیں۔ اب بتائیے ایسے روزے سے کوئی فائدہ حاصل ہوگا؟

اس طرح روزے کے اندر یہ حکمت کہ اس کا مقصد قوت بہیمیہ توڑنا ہے، یہ بعد کی حکمت ہے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ ان کے حکم کی اتباع ہو اور سارے دین کا مدار اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم کی اتباع ہے۔
وہ جب کہیں کہ کھاؤ، اس وقت کھانا دین ہے۔ اور جب وہ کہیں کہ مت کھاؤ اس وقت نہ کھانا دین ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت اور اپنی اتباع کا عجیب نظام بنایا ہے کہ سارا دن تو روزے رکھنے کا حکم دیا، اور اس پر بڑا اجر و ثواب رکھا۔ لیکن ادھر آفتاب غروب ہوا ادھر یہ حکم آ گیا کہ اب جلدی افطار کرو، افطار میں جلدی کرنے کو مستحب قرار دیا۔ اور بلاوجہ افطار میں تاخیرکرنا مکروہ اور ناپسندیدہ ہے۔ کیوں ناپسندیدہ ہے؟ اس لئے کہ جب آفتاب غروب ہوگیا تو اب ہمارا یہ حکم آ گیا کہ کھاؤ! اور اب بھی اگر نہیں کھاؤ گے اور بھوکے رہو گے تو یہ بھوک کی حالت ہمیں پسند نہیں۔ اس لئے کہ اصل کام ہماری اتباع کرنا ہے۔ اپنا شوق پورا نہیں کرنا ہے!!

Requirements of the fasting. Article: Mufti Justice Taqi Usmani

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں