حیدرآبادی تہذیب کی ترجمان - ڈاکٹر شیلا راج - شخصیت اور مضمون نگاری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-15

حیدرآبادی تہذیب کی ترجمان - ڈاکٹر شیلا راج - شخصیت اور مضمون نگاری

ڈاکٹر شیلا راج ایک تعارف :
ڈاکٹر شیلا راج حیدرآباد کی مشترکہ تہذیب کے علمبردار کائیستھ گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ 9جنوری1940ء کو حیدرآباد کے محلہ حسینی علم میں پیداہوئیں۔ انکے والد کا نام راج پرتھوی راج تھا وہ محکمہ زراعت آندھراپردیش کے ناظم تھے۔ڈاکٹر شیلا راج کی ابتدائی تعلیم حیدرگوڑہ ہائی اسکول میں ہوئی اور انہوں نے 1957ء میں میٹرک کا امتحان کامیاب کیا۔میٹرک کے بعد انہوں نے ویمنس ڈگری کالج کوٹھی حیدرآباد کے پی یو سی کورس میں داخلہ لیااور 1958ء میں کامیابی کے ساتھ تکمیل کیا ۔ویمنس ڈگری کالج کوٹھی حیدرآباد سے ہی 1961ء میں گریجویشن کی تکمیل کی ۔1964 ء میں پوسٹ گریجویشن ان اردو میں کامیاب کیا۔1965ء میں انہوں نے بیچلر آف ایجوکیشن بھی کامیاب کرلیا۔1970ء میں عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے ہی ایم اے تاریخ کی تکمیل کی ۔تاریخ کے مضمون میں ہی انہوں نے 1982ء دامودھر ٹھاکرسی ویمنس یونیورسٹی ممبئی سے Ph.D کی تکمیل کی جہاں انکے مقالہ کا عنوان "ہسٹری آف دی سوشیل اکنامکس اینڈ کلچرل ڈیولپمنٹ ان حیدرآباد 1869-1911"تھا۔ 1964ء میں انہوں نے ایم اے اردو کی تکمیل کے بعد بحیثیت اردو لکچرار محبوبیہ جونئیر کالج عابڈس حیدرآباد پر تدریسی خدمات انجام دیں ۔1972 ء میں انکی شادی ڈاکٹر نارئن راج(راجہ نرسنگ راج عالیؔ کے پوتے) سے انجام پائی۔ شادی کے بعد انہیں ممبئی منتقل ہونا پڑا۔ جسکی وجہہ سے انہوں نے ملازمت سے استعفی دے دیا۔
ڈاکٹر شیلا راج کو آصف جاہی عہد اور آصف جاہی حکمرانوں سے جذباتی لگاوء تھا انہوں نے اپنی زندگی آصف جاہی عہد کے کارناموں کو اجاگر کرنے میں وقف کردی ۔ 1982ء میں ڈاکٹر شیلا راج نے پی۔ایچ۔ڈی مکمل کی۔ان کے مقالہ کو "ڈاکٹر شریمتی پرمیلا ٹھاکرسی ایورڈ سے نوازاگیا۔ یو جی سی کی جانب سے ڈاکٹر شیلا راج کو تاریخ کے مضمون میں جونئیر اور سنئیر فیلو شپ عطاکی گئی۔ اردو اکیڈمی آندھراپردیش کی جانب سے ان کی کتاب "شاہان آصفیہ کی رواداری اور ہندو مسلم روایت" پر انعام اول سے نوازا گیا۔

ڈاکٹر شیلا راج کی ادبی زندگی کا آغاز دوران تعلیم ہی ہوچکا تھا انکا پہلا مضمون بعنوان "مرزا غالب"17جولائی 1966ء کو روزنامہ سیاست حیدرآباد سے شائع ہوا۔انہوں اپنے ادبی سرمایہ میں 20سے زائد اردو مضامین 5 انگریزی مضامین اور 22تحقیقی مقالات چھوڑے ہیں۔
ڈاکٹر شیلا راج کا اردو ادب سے گہرا تعلق تھا وہ اکثر ادارہ ادبیات حیدرآباد اور ابولکلام اورینٹل ریسر چ انسٹی ٹیوٹ حیدرآباد کے پروگراموں میں شرکت کرتیں اور بڑھ چڑھکران میں حصہ لیتی تھیں ۔انہیں مختلف سوسائٹیوں کی رکنیت حاصل تھی جن میں قابل ذکر انڈین ہسٹری کانگریس، ابوالکلام آزاد اورینٹل ریرچ انسٹی ٹیوٹ حیدرآباد،انڈین ہسٹری اینڈکلچرل سوسائٹی نئی دہلی،دی ایشیاء ٹک سوسائٹی آف ممبئی شامل ہیں۔
ڈاکٹرشیلاراج کے ادبی زندگی کے سرمایہ میں تین ترجمہ کردہ تصانیف توشہء عاقبت(سفرنامہ)،شاہی شادی (رپورتاژ) مملکت آصفیہ (اردو)، دو مرتبہ شعری مجموعے، دیوان عالی(راجہ نرسنگ راج عالی)،ؔ دیوان محبوب(راجہ محبوب راج محبوبؔ )، ایک اردو تصنیف شاہان آصفیہ کی رواداری اورہندومسلم روایات اوردو انگریزی تصانیف (عہد وسطی سے عہد حاضر تک حیدرآباد کی سماجی ،معاشی اور تہذیبی تاریخ 1869ء تا1911 ،ایک عہد کامرقع ۔حیدرآباد نظاموں کے دور میں)شامل ہیں۔

ڈاکٹرشیلاراج کا انتقال 17جولائی2008ء کو حیدرآباد میں ہوا ۔انکے انتقال کے بعدہرسال /17جولائی کو ایچ ای ایچ دی نظامس ٹرسٹ حیدرآباد کی جانب سے ڈاکٹرشیلاراج میموریل لیکچرکا انعقاد عمل میں لایا جارہا ہے جسکا عنوان صرف آصف جاہی حکمرانوں سے متعلق ہی رکھا جاتا ہے۔ ہر سال یونیورسٹی آف حیدرآباد کی جانب سے ایم۔ اے۔ تاریخ کے مضمون میں اعلیٰ نشانات حاصل کرنے والے طالب علم کو ڈاکٹرشیلاراج گولڈمیڈل دیا جارہا ہے، ساتھ ہی دی ایشیاء ٹک سوسائٹی ممبئی کی جانب سے ڈاکٹرشیلاراج فیلوشپ تاریخ کے مضمون میںPh.D کرنے والے طالب علم کو منتخب کرکے دی جارہی ہے۔
ڈاکٹرشیلاراج ایک منجھی ہوئی قلمکار تھیں انہوں نے نہ صرف ترجمہ نگاری انجام دی بلکہ ایک ممتاز مورخ ،ماہر محقق،قابل مصنفہ اور ایک بہترین مضمون نگار ہونے کا ثبوت دیا ۔وہ نہ صرف علوم وفنون کی ماہر تھیں بلکہ ان کے قلم میں ایساتاثر تھا کہ انکی تحریریں معتبر اور مستند تسلیم کی جاتی تھیں اور قارئین انہیں بہت پسند کرتے تھے۔
ڈاکٹرشیلاراج کو نہ صرف اردو بلکہ انگریزی،فارسی،تلگواور ہندی زبانوں پر مکمل عبورحاصل تھا وہ ایک بہترین مقررہ تھیں کئی سمیناروں میں انہوں نے بہ نفس نفیس شرکت کی اور مقالہ پڑھا انکو مضمون نگاری سے دلچسپی زمانہ طالبعلمی سے رہی ہے انہوں نے بیت بازی اور ادبی سرگرمیوں میں خوب حصہ لیا۔ انکی مضمون نگاری کا آغاز "مرزاغالب" مضمون سے ہوتاہے۔ جو کہ 17 جولائی کو روزنامہ سیاست حیدرآبادمیں شائع ہواتھا۔ انہوں نے اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی مضامین بھی لکھے ہیں وہ ایک باصلاحیت اورادبی شخصیت کی مالک تھیں ۔انکے مضامین کا محور دورآصفی ، آصف جاہی حکمران،حیدرآبادی تہذیب ،حیدرآبادکی معزز شخصیات، حیدرآبادی کی تاریخی عمارتیں رہا ہے وہ آصف جاہی عہد پر اتھاریٹی سمجھی جاتی تھیں۔ وہ ایک روشن خیال مصنفہ اور قومی یکجہتی کی علمبردار خاتون تھیں انکا عظیم کارنامہ "شاہان آصفیہ کی رواداری اور ہندو مسلم روایات" جیسی شاہکار تصنیف ہے۔ انہوں نے بحثیت مورخ ریاست حیدرآباد کی مذہبی روایات کو عالمی سطح پر متعارف کروایا ہے۔

ڈاکٹرشیلاراج کے مضامین کی فہرست اسطرح ہے:
مرزا غالبؔ ،جگرمرادآبادیؔ ،نواب سروقارالامراء بہادر، حیدرآباد کی تہذیب، دودھ میں سیاست،ڈاکٹر کورین کی ناقابلِ فراموش خدمات،دہلی میں ملکہ معظمہ کا دربار،حیدرآباد میں گزشتہ تین سو سال میں بارش کیلئے دعائیں ،نواب عمادالملک،راجہ شیوراج دھرم ونت،زیور،قصرِفلک نما،پرانی حویلی،کنگ کوٹھی،سابق حیدرآباد ہندومسلم روایات کا امین قسط اول،سابق حیدرآباد ہندومسلم روایات کا امین قسط دو م ، سابق حیدرآباد ہندومسلم روایات کا امین قسط سوم،مذہبی رواداری دور آصفجاہ سادس،بہادر یار جنگ،تاریخ خاندان پائیگا قسط اول،تاریخ خاندان پائیگاہ آسماں جاہی قسط دوم۔

ڈاکٹر حبیب نثار شعبہ اردو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی ڈ اکٹر شیلاراج کے متعلق رقمطراز ہیں:"ڈاکٹر شیلاراج کا تعلق ایک قدیم کائستھ گھرانے سے ہے ۔ ڈاکٹر شیلاراج نے اردو اور تاریخ میں ایم اے کیا ہے اور تاریخ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ اردو شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتی ہیں اسی وسیلہ سے اردو دنیا سے وابستہ تھیں۔ آپ کے اکثر و بیشتر مضامین دکن کی تاریخ کے گمشدہ واقعات یا پھر حیدرآباد کی مشترکہ تہذیب اور یہاں کی روایات سے متعلق روزنامہ سیاست اور ماہنامہ سب رس میں شائع ہوئے ہیں۔ (تبصرہ دیوان عالیؔ ، روزنامہ سیاست حیدرآباد16-مئی2010)

ڈاکٹر شیلاراج کے مضامین کا مختصرجائزہ :
مضمون "مرزا غالب ،‘ؔ اپنے موضوع کے اعتبار سے ڈاکٹرشیلاراج کا ایک اہم اور سب سے پہلا مضمون ہے اس مضمون میں انہوں نے بعض احباب کی جانب سے مرزا غالب ؔ کو زوال آمدہ تمدن کی یاد گار قراردینے پر اعتراض کیااور لکھا ہے کہ"مرزا غالب زوال آمادہ تمدن کی یاد گارنہیں تھے بلکہ مغلیہ تہذیب زوال آمادہ تمدن کی یادگار تھی۔"انہوں نے مرزا غالبؔ کا اردو شاعری میں مقام متعین کرتے ہوے لکھا ہے "غالب ؔ کا مقام اردو شاعری میں بہت بلند ہے ان کے معاصرین اور مابعد شعراء نے بھی ان کی بلند پایہ شاعری کا اعتراف کیا ہے۔ غالب ؔ نے اردو شاعری کو نئے مزاج سے روشناس کروایا" ۔ ڈاکٹرشیلاراج نے اپنے اس مضمون میں مرزاغالبؔ سے متعلق رشید احمد صدیقی اور نیاز فتحپوری کے اقتباس کو شامل کیا ہے جس سے ان کے مضمونکی اہمیت بڑھ جاتی ہیں۔
ڈاکٹرشیلاراج کا ایک اور مضمون "حیدرآبادکی تہذیب"کے عنوان سے روزنامہ سیاست حیدرآباد میں شائع ہوا جس میں انہوں نے ریاست حیدرآباد اور آصف جاہی حکمرانوں کے قومی یکجہتی کے فروغ سے متعلق لکھا ۔"آصف جاہی فرمارواوں کی حکمت عملی نے بھی حیدرآبادی تہذیب کو پھلنے پھولنے میں بڑی مدد دی ان کی مذہبی رداداری نے صلح و آشتی کے جذبہ کو تقویت دی اور مسلم غیر مسلم رعایا کے فرق کومٹادیا بھائی چارگی کے رشتہ کو اور مضبوط بنانے کے لیے مختلف مذاہب کے مذہبی اداروں کو مالی امداد دی گئی وزیر اعظم کے عہدے پر ہندو اور مسلمان دونوں ہی فائز رہے مختلف مذاہب کے تہوار اور تقاریب میں بھی قدیم حیدرآباد ایک سنگم بنا ہو اتھا۔"اور کئی مثالو ں سے انہوں نے حیدرآبادی تہذیب کو ملک کی اعلی تہذیب قرادیاہے۔
ڈاکٹر شیلاراج نے اسی موضوع پر ریاست حیدرآباد میں اردو کو سرکاری زبان بنائے جانے سے متعلق لکھا ہے"ابتداء ہندو مسلمان دونوں فارسی میں طبع آزمائی کی لیکن 1884 ء کے بعد زبان اردو کو پرورش دینے کی پرزور کوششیں ہوئیں اور سرکاری زبان فارسی کی جگہ اردو کوبہ حیثیت سرکاری زبان رائج کرنے کی زوردار تحریک پیش کی گئی۔نواب میر محبوب علی خاں بہادر اور نواب میر عثمان علی خاں بہادر دونوں نے علم و ادب کی سرپرستی کی بڑے بڑے شعراء اور ادیب اس دربار سے وابستہ رہے دونوں کو شاعری سے بہت لگاوتھا۔اسطرح حیدرآباد میں اردو کے فروغ میں ہندو اورمسلمان دونوں کا برابر کا ہاتھ رہا اور آصف جاہی حکمرانوں نے جو اس زبان کی خدمات کی وہ ضرب المثل بن گئی۔"
ڈاکٹر شیلاراج نے اپنے مضمون میں حیدرآبادکی اتحاد ویکجہتی پرمشتمل تہذیب کو منفرد انداز میں بیان کیا ہے اور یہاں کی تہذیب وثقافت کی انفرادیت کو پیش کیا ہے جسکی مثال پورے ہندوستان میں نہیں مل سکتی۔
اپنے مضمون قصرفلک نما جوکہ 28 اگسٹ ٗ1994کو روزنامہ سیاست حیدرآباد میں شائع ہوا تھا ڈاکٹر شیلاراج نے قصرفلک نما کی تعمیر آرئش و زیبائش سے متعلق لکھا ہے کہ" قصر فلک نما فن تعمیر اور آراستگی کا بہترین اور لاجواب نمونہ ہے جو وقارالامراء بہادر کی خوش سلیقگی کا اور ان کے ذوق کا آئنہ دار ہے اس تاریخی عمارت کی تعمیر آرائش وزیبائش پر لاکھوں روپیہ صرف ہوا۔ اس کا طرز تعمیر اٹالین ہے اسکی آرئش یوروپین ڈھنگ سے ہوئی ہے۔اس کی آرئش و زیبائش میں استعمال ہونے والی ہر چیز وقارالامراء کی انتخاب کردہ ہے۔اس عمارت کی خاص خوبی یہ ہے کہ ہر کمرے کی celiling اس کے فرنیچر دیواروں اور فرش سے میل کھائی ہوئی ہے اس کے فرنیچر کے ہر ٹکڑے پر voوقارالامراء کے نام کا motifہے"

ڈاکٹر شیلا راج نے اپنے اس مضمون میں خاندان پائیگاہ کے خاندان کا تذکرہ کیا ہے اور قصر فلک نما سے متعلق اہم معلومات فراہم کی ہے ساتھ ہی وقار الامراء کی تعمیرات کی خوبیوں کو بیان کیا ہے ۔
بہ حیشیت مجموعی ڈاکٹر شیلا راج نے اپنے مضمون نگاری کے ذریعے حیدرآباد ریاست کے تاریخی عمارتوں اور حیدرآبادی تہذیب ،دور آصفی سے متعلق کافی اہم معلومات مہیا کی ہیں جس انکی محققانہ صالاحیتوں اور انکی قابلیت کا علم ہوتاہے۔ ڈاکٹر شیلا راج کے مضامین حیدرآبادی تہذیب کے عکاس ہیں۔ اور قومی یکجہتی کے فروغ میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

***
محمد عبدالعزیز سہیل۔ Ph.D ریسرچ اسکالر(عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد)
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزللطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeezsohel[@]gmail.com
موبائل : 9299655396
ایم اے عزیز سہیل

Hyderabad's culture spokeswoman - Dr. Sheila Raj. Article: M.A.A.Sohail

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں