رمضان - عبادات کی یکسوئی کا مہینہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-18

رمضان - عبادات کی یکسوئی کا مہینہ

اہل اسلام پر رب ذوالجلال کی جانب سے ہونے والی بے شمار نعمتوں میں ایک اہم نعمت ماہ رمضان کی عطا ہے، سال میں ایک دفعہ ایسا موقع بھی عنایت فرما دیتے ہیں جس میں بندہ اپنے سیاہ اعمال کو سفیدی سے بدل سکتا ہے، اپنے گناہوں کے انبار کو نیکیوں کے ڈھیر سے تبدیل کرسکتا ہے، سال بھر ہونے والی عملی کوتاہیوں کا ازالہ ایک ماہ بھر عبادت و انابت سے کر سکتا ہے، جب یہ اتنی بڑی نعمت ہے اور رب کریم نے ہمیں اس سے سرفراز بھی فرمایا ہے، اور زرین موقع بھی عنایت فرما دیاتو اس کا ضیاع بھی جرم عظیم ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں سخت وعید وارد ہوئی کہ جو ماہ رمضان پائے اور اپنی مغفرت نہ کروائے اس کیلئے ہلاکت کی بد دعا کی گئی ہے۔ لہذا جو بھی موقع ملے اسے غنیمت جانتے ہوئے اس کی قدر کر لینی چاہئے، اور اپنے آپ کو اعمال میں لگانے سے نہ اکتانا چاہئے۔ یہ رمضان کا مہینہ عبادت میں جی جان لگانے کیلے ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی جو نقل کیا گیا ہے وہ حیرت انگیز ہے ، جب رمضان کا مہینہ داخل ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہبند سختی سے باندھ لیتے۔
علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ عبادت میں بہت ہی زیادہ کوشش کرتے۔
(فیض القدیر 5/168)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب رمضان کا مہینہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے مبارک کا رنگ بدل جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازوں میں اضافہ ہوتا اور دعاؤں میں بہت ہی زیادہ گریہ و زاری فرماتے۔
(الدرالمنثور)

رنگ بدل جانے کی توجیہ کرتے ہوئے محدثین نے لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کا خوف کرتے تھے کہ بندگی کا جو حق ہے وہ حق ادا نہ ہوسکے گا اس خوف سے رنگ میں تبدیلی ہو جاتی۔ اور اس میں امت کیلئے تعلیم بھی ہے کہ وہ بھی اس مہینہ کی عظمت و قدر کو پہچانے۔ جب کسی کی قدر کو پہچانا جائے گا تو اس کا خوف بھی بڑھ جائے گا۔
(منتہی السؤل علی وسائل الوصول الی الشمائل 3/180)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ رمضان کی آمد کے ساتھ کہتے :
"مرحبا بمطھرنا " (اے ہم کو پاک کرنے والے تیرا آنا مبارک ہو)
رمضان مکمل خیر ہی ہے، دن کا روزہ رات کا قیام اس مہینہ میں خرچ کرنا تو گویا اﷲ کے راستے میں خرچ کرنا ہے۔
(تنبیہ الغافلین 1/321)

حضرت حنینی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ میں منقول ہے کہ جب رمضان آتا تو وہ حدیث کے سننے کو چھوڑ دیتے، ان سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا تم نے سماع حدیث کو کیوں چھوڑ دیا؟ اگر اس میں کوئی ناپسندیدہ بات ہوتی تو وہ رمضان کے علاوہ میں بھی ہوتی۔ حضرت حنینی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا:
میں چاہتا ہوں کہ اس مہینہ کو عبادت کیلئے فارغ کرلوں۔
(مؤطا مالک 1/192)

ابو العباس احمد بن سالم بن عمر بن عبداﷲ بن جہران بڑے عبادت گذار بندے تھے، بہت زیادہ تلاوت کا اہتمام کرتے، خلوت نشین رہتے، جب رمضان کا مہینہ آتا تو لوگوں سے بالکلیہ علیحدہ ہوجاتے، کسی بھی دنیاوی چیز کے سلسلہ میں گفتگو نہ فرماتے، ان کے زمانے میں ان جیسا کوئی نہ تھا۔
(العقود اللولویۃ فی تاریخ الدولۃ الرسولیۃ 2/64)

رمضان المبارک میں عبادات کے اجر میں اضافہ کیا جاتا ہے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عمرۃ فی رمضان تعدل حجۃ
یعنی کہ رمضان میں کئے جانے والے عمرہ کا ثواب حج کے برابر مل جاتا ہے۔
اسی ثواب کو مدنظر رکھتے ہوئے ابو نصر البذنیمی جوکہ نابینا تھے اس کے باوجود رمضان المبارک میں عمرے کرتے تھے، کوئی ان کا ہاتھ پکڑ کر لے جاتا تھا۔
(طبقات الشافعیہ 4/109)
ان کی عبادت انتہائی قابل رشک ہے ، نابینا ہیں، معذور ہیں، اس کے باوجود بہانہ بناکر گھر میں بیٹھے رہنا پسند نہیں کر رہے ہیں بلکہ عبادت کیلئے یکسوئی کو ترجیح دے رہے ہیں، وہ بھی ایسی عبادت کو ترجیح دے رہے ہیں جس میں تعب ہے، مشقت ہے، تکلیف ہے، جس کا نابینا فرد کیلئے تنہا ادا کرنا بھی آسان نہیں، ان کے اس عمل سے ہم صحتمندوں کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ تھوڑی سی عبادت کیلئے بھی ہماری طبیعتیں آمادہ نہیں۔

سید علوی بن محمد کے سلسلہ میں لکھا آتا ہے کہ وہ بہت ہی بڑے عابد تھے، جب رمضان کا چاند دکھائی دیتا تو وہ عبادت کیلئے یکسو ہو جاتے، جمعہ کی نماز تراویح اور دیگر جماعت کی نمازہی کیلئے گھر سے نکلا کرتے۔
(خلاصۃ الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر 2/191)

الغرض رمضان کی آمد ہم سے اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ ہم دیگر مصروفیات کو کم کریں، رمضان کو عبادت کیلئے خاص کرلیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل اور بزرگان دین کا عمل اس بات کا شدت سے ہم سے مطالبہ کر رہا ہے کہ ہم خارجی مصروفیات سے بالکلیہ احتراز کریں، زیادہ سے زیادہ وقت مسجد میں، عبادت میں، تلاوت میں، ذکر میں اور دینی امور میں لگائیں، بلکہ بعضے اکابر تو کئی ایک دینی امور ترک کر کے صرف اور صرف عبادت اور تلاوت ہی کیلئے رمضان المبارک کو خاص کر لیتے تھے۔
کئی اکابر کا سابق میں تذکرہ کیا گیا کہ وہ رمضان میں بیکار باتیں یا لغویات میں مصروف رہنا تو کجا بلکہ وہ ضروری بات کرنے کو تک ناپسند کرتے تھے، اور کوئی سخت ضرورت ہوتی تو لکھ کر بات کرتے۔
اس طرح کے واقعات کا اگرچہ اس زمانہ میں اتباع دشوار ہے پھر بھی یہ واقعات ہمیں عمل پر ابھارنے کا ذریعہ بنتے ہیں ان واقعات کو پڑھ کر بندوں کو عبادت کی ترغیب ہوتی ہے، اسی لئے ان واقعات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اکابر اسلاف کے اس طرز عمل کو پڑھ کر ہمارے اندرون میں عمل کی چنگاری بھڑکنی چاہئے، عمل کی حرص و ہوس پیدا ہونی چاہئے تاکہ رمضان المبارک کے جو فضائل احادیث میں ذکر کئے گئے ہیں ان کے کچھ تو مستحق ہم بھی ٹھہریں۔

اﷲ تعالیٰ اس رمضان کو ہمارے لئے عبادتوں والا، اطاعتوں والا رمضان بنادے، آمین!

Ramadan - a month of acquiring concentration on Ibadah. Article: Mufti Mohammad Mujeebur Rahman

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں