گوکہ15جون2004کو رونما ہونے والا عشرت جہاں کافرضی انکاؤنٹرروز اول سے ہی جعلی تصادم کا واقعہ قرار پا رہا تھالیکن مودی کی پولس ایک معصوم بچی کا قتل کرکے اور اس کے سینہ پر ہتھیار رکھ کر چیخ چیخ کر یہ کہہ رہی تھی کہ یہ لڑکی دہشت گرد تھی اور تین ساتھیوں کے ہمراہ وہ وزیر اعلیٰ گجرات کو نشانہ بنانے آئی تھی۔گجرات پولس کے مفروضہ کو اول اول خود گجرات کی مٹروپولیٹن کورٹ نے جھوٹ قرار دیا اور عشرت کے انکاؤنٹر کو فرضی بتایا۔عشرت دہشت گرد نہیں تھی،بلکہ اس کوقتل کرکے تصادم کی جھوٹی کہانی بیان کی گئی،اس حقیقت پر پہلی باضابطہ مہر گجرات کی عدالت نے لگائی اور جب مزید تفتیش کیلئے اس معاملہ میں خصوصی سراغ رساں ٹیم یعنی ایس آئی ٹی کی تشکیل ہوئی تو پرت در پرت حقائق کھلتے چلے گئے اور یوں ایس آئی ٹی نے بھی اس فرضی تصادم پر اپنی مہر لگا دی۔تفتیشی ٹیم نے ہی یہ سفارش کی تھی کہ اس جعلی پولیس مقابلہ میں ملوث تمام پولیس افسروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔ گجرات ہائی کورٹ کے ذریعہ تشکیل دی گئی خصوصی تفتیشی ٹیم نے عدالت عالیہ کو پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اس نے جو شواہد جمع کیے ہیں ان سے یہ واضح ہے کہ عشرت جہاں اور تین دیگر افراد کو فرضی پولیس تصادم میں ہلاک کیا گیا ۔ ایس آئی ٹی نے اس تصادم کو فرضی قرار دیتے ہوئے مزید تفتیش کی ضرورت پر زورڈالاتھااور جب سی بی آئی نے تفتیش کی تو فطری طور پرگڑے مردے اکھاڑے جانے لگے اور یوں بعض حقائق ایسے بھی سامنے آگئے جن سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ اس فرضی انکاؤنٹر کے ڈرامہ کااسٹیج تیار کئے جانے سے قبل اعلیٰ پولس حکام نے ریاست کے وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کو اعتماد میں لیاتھا یا ان سے ہدایات حاصل کی تھی۔ویسیجب عدالت عالیہ نے اس پورے معاملہ کی انکوائری سی بی آئی کے سپرد کی تھی تواسی وقت ایسے اشارے مل رہے تھے کہ اقتصادی ترقی کاڈھول پیٹ کرگناہوں کی پردہ پوشی کی کوشش کرنے والی حکومت گجرات کی قلعی کھلے گی اور کچھ لوگوں کاخیال یہ بھی تھا کہ مودی کی گردن بری طرح جکڑنے جارہی ہے۔عام خیال یہ بھی ہے کہ ایک جھوٹ کو سچ قرار دینے کیلئے 100جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے، اس کے باوجود سچ کو ہی فتح حاصل ہوا کرتی ہے اور جھوٹ کو رسوا ہونا پڑتا ہے۔ عشرت جہاں کے مقدمہ میں چونکہ سچائی نے اپنی اہمیت کو ایک بارنہیں بلکہ کئی بارپوری جامعیت کے ساتھ اجاگر کیاہے،اس لئے نا امیدی کو کفر قرار دینا شاید زیادہ مناسب ہوگا۔ 10سال قبل ممبئی کے مضافات سے تعلق رکھنے والی اس جواں سال دوشیزہ کو قتل سے پہلے تک کوئی نہیں جانتاتھا۔ باپ کا سایہ سر سے اٹھ چکاتھا، ضعیفہ ماں اور بھائی کے ساتھ گزر بسر کرنے والا یہ کنبہ ممبئی کی مفلوک الحال مسلم آبادی میں بودوباش اختیار کرنے والے ہزاروں کنبوں میں سے ایک تھا، مگر جب قتل عمد کے تحت عشرت کوموت کے گھاٹ اتار دیاگیا تو نہ صرف یہ کہ دنیا بھر میں اسے ایک شناخت حاصل ہوگئی بلکہ اب تو عشرت مظلومین کے درمیان ایک آئیڈیل کی حیثیت سے بھی اپنی پہچان چھوڑگئی ہے۔ مودی کی ریاست میں اقلیتوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کی حکمت عملیاں مختلف سطح پر انجام پذیر ہوتی رہی ہیں، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے، عشرت جہاں اسی سلسلے کی ایک مضبوط کڑی تھی۔ ریاست کی پولیس نے کالج کی معصوم طالبہ کو خونخوار دہشت گرد کا روپ دے دیاتھا۔ نہایت ہوشیاری بلکہ فریب کاری کے ساتھ انکاؤنٹر کی ایک ایسی ڈرامائی کارروائی کامفروضہ تیار کیاگیا جو بادئ النظر میں دل کو دہلادینے والا معلوم پڑرہا تھا۔ گجرات پولیس نے جو کہانی گڑھی تھی، اس کے مطابق عشرت جہاں لشکر طیبہ کی خونخوار جنگجو تھی اور وہ وزیراعلیٰ نریندر مودی کے قتل کے ارادے سے گجرات پہنچی تھی، مگر ایک پولیس تصادم میں اسے ڈھیر کردیاگیا۔ ذرائع ابلاغ نے شور مچایا کہ انکاؤنٹر میں لشکر کے جنگجوؤں کو ڈھیر کردیاگیا اور وزیراعلیٰ نریندر مودی کے قتل کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔ پولیس کی فرضی کہانی قومی ذرائع ابلاغ میں نمایاں اہمیت کے ساتھ شائع ونشر کی گئی، جس سے نہ صرف یہ کہ عشرت کے اہل خانہ کو دوہری اذیتوں سے گزرنا پڑا بلکہ ان کے مقربین بھی پہلو بچاکر ان سے دور بھاگنے لگ گئے۔کنبہ کیلئے یہ موقع نہایت پریشان کن تھا،ایک طرف جوان سال عشرت کو کھو دینے کاغم اور دوسری جانب دہشت گردی کابہتان عظیم۔ عشرت کی والدہ شمیمہ ٹھہریں مضبوط قوت ارادی کی حامل خاتون۔چنانچہ انہوں نے حالات کاایسا مردانہ وار مقابلہ کیا جو دوسرے مظلومین ومتاثرین کیلئے آج مشعل راہ سے کم نہیں۔انہوں نے حصول انصاف کی لڑائی لڑنے کا عہدکیا،اورپورے عزم واستقلال کے ساتھ اس سفر پر گامزن ہونے کیلئے رخت سفر باندھا، نصرت خداوندی شامل حال رہی اور نتیجتاً" لوگ ساتھ آتے گئے کارواں بنتاگیا" کے مصداق انصاف پسندوں کا ایک بڑا طبقہ بلااختصاص مذہب وملت شمیمہ کی پشت پر کھڑا ہوگیا۔ ایک طرف ایساکنبہ ہے جس کیلئے دو وقتوں کی روٹی کانظم بھی کسی مصیبت سے کم نہیں جبکہ دوسری جانب مدمقابل ایسا شاطر سرکاری عملہ موجود ہے جسے مودی کے آہنی پنجوں کے ذریعہ سرپرستی اور رہنمائی حاصل ہے۔ اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ عدل وانصاف کی اس لڑائی میں متاثرین کو قدم قدم پر کیسے کیسے مصائب ومشکلات کاسامنا کرنا پڑا ہوگا؟ وہ بھی ایسی ریاست میں جہاں کے کلاس ون آفیسربھی مودی کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں سرگرداں ،مسلمانوں کی نسل کشی کے درپے اور ان پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کا کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہ کررہے ہوں۔یہی وجہ تھی کہ عشرت کو انصاف دلانابہتوں کی نگاہ میں ناممکن قرارپارہاتھا جبکہ بعض اسے مشکل ترین سفر سے تعبیرتو کررہے تھے مگرامیدکا دامن انہوں نے نہایت مضبوطی کے ساتھ تھام رکھاتھا۔ قصہ مختصریہ کہ لمبی قانونی معرکہ آرائی کے درمیان ابتداء میں یہ تأثر بھی ابھر ا کہ حق کی سربلندی کاسفر نہایت طویل ہے۔ جرأت رندانہ اسی کانام ہے کہ اگر راہ میں مشکلیں بھی درپیش ہوں توقدم کو متزلزل نہ کیاجائے۔ عشرت کے اہل خانہ نے استقلال کے ساتھ پیش قدمی جاری رکھی۔ نتیجتاً فرضی انکاؤنٹر کی تفتیش ایس آئی ٹی کے سپر د کی گئی جس نے طویل تفتیش کے بعد عدالت میں ایک رپورٹ داخل کی جس میں نتیجہ اخذ کرتے ہوئے عدالت کو یہ بتایاگیا کہ گجرات پولیس نے انکاؤنٹر کی کہانی فرضی طور پر تیار کی تھی۔ گجرات ہائی کورٹ نے خصوصی تفتیشی ٹیم کی رپورٹ کو نہ صرف یہ کہ سنجیدگی سے لیا بلکہ باضابطہ طور پر اس نے انکاؤنٹر کے جعلی ہونے کی حقیقت پر مہرتوثیق بھی ثبت کرڈالی۔ بعدازاں اس واقعہ کے جملہ پہلوؤں کا جائزہ لینے اور ملوث تمام افراد کے خلاف شکنجہ کسنے کی غرض سے عشرت کا کیس سی بی آئی کے سپرد کردیاگیا۔ انصاف کی راہ میں گوکہ یہ آخری منزل نہیں تھا مگر دوقابل پیش رفت مرحلوں کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ پہلا مرحلہ تب آیا جب ایس آئی ٹی نے انکاؤنٹر کو فرضی قرار دیا اور عدالت نے اس پر اپنی مہرلگائی۔ اور دوسرے معرکہ میں عشرت کے اہل خانہ کو ایک بڑی کامیابی تب ملی جب ریاستی پولیس اور سرکاری ایجنسیاں خود عدلیہ کی نگاہ میں بے وقار وبے اعتبار ٹھہریں۔ اب اگر ایسی صورت میں کوئی یہ کہے کہ گجرات کی پولیس خونخوار، متعصب اور فرض ناشناس ہے تو مودی کے مداحوں کو بھڑکنے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ گجرات پولیس فرض شناسی کے حمام میں ننگی قرار پاچکی ہے اور خود ریاست کی عدالت نے ہی اس پر بھروسہ کرنے سے صاف لفظوں میں انکارکرتے ہوئے معاملے کی مزید تفتیش سی بی آئی کے سپرد کردی تھی ۔
یہ خیال ظاہر کرتے ہوئے ہمیں مبالغہ کا کوئی بھی پہلو دکھائی نہیں دیتا کہ جعلی تصادم کا یہ واقعہ غالباًآزاد ہندوستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا بے نظیر واقعہ ہے جس میں ایک معصوم بچی کو قتل کرکے اُسے دہشت گرد قرار دینے کی سازش میں ریاست کے وزیر اعلیٰ اور وزیرداخلہ کا رول سوالات کے گھیرے میںآگیاہے۔ نہ صرف یہ کہ مودی اور شاہ کے دامن پر عشرت کے خون کے دھبے تلاش کئے جارہے ہیں بلکہ سی بی آئی کے اس انکشاف کے بعد کہ اس سازش میںآئی بی اور گجرات پولس کی ملی بھگت ہے،انٹلی جنس بیور کی معتبریت بھی مشکوک قرار پا چکی ہے۔اس کے باوجود حقیقت تو یہ بھی ہے کہ ہمارے وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نہ حیران ہیں نہ پریشان اور نہ ہی پشیمان۔سوال یہ بھی ہے کہ آخر کیوں ان کی پیشانی پر شرمندگی کی لکیریں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔آئی بی کا کردار جب کسی فرضی پولس تصادم میں قابل مواخذہ بن گیا ہو تو کیا ایسی صورت میں یہ ضروری نہیں کہ وزارت داخلہ اس معاملہ میں اپنی پوزیشن واضح کرے؟ہمیں نہیں معلوم کہ کانگریس لیڈر دگ وجے سنگھ نے وزیر داخلہ سے ملاقات کے ذریعہ عشرت کیس میں سیاسی روٹی سینکنے کی کوشش کی ہے یا واقعی وہ وزارت داخلہ پر آنے والے حرف سے کبیدہ خاطر تھے اور اسی بناء پر وہ بھاگے بھاگے عشرت کیس میں سشیل شندے کے در پر دستک دینے پہنچ گئے ۔دگ وجے سنگھ کے دل میں کیا ہے،یہ تو وہی جانیں لیکن یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ انکاؤنٹر کی سیاست میں شور و غوغہ بلند کرنے کے حوالے سے جناب دگ وجے سنگھ ید طولیٰ ضرور رکھتے ہیں۔قارئین کو یہ اچھی طرح یاد ہو گا کہ انہوں نے بھی دیگر سیاسی قائدین کی طرح ہی نئی دہلی کے بٹلہ ہاؤس میں رونما ہونے والے اُس انکاؤنٹر کو فرضی قراردیا تھا،جو 19ستمبر2008کورونما ہوا تھا اور جسے انصاف پسند طبقہ آج بھی ایک "فرضی انکاؤنٹر"قرار دینا نہیں بھولتا۔ دگ وجے سنگھ نے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر سیاسست کی لمبی اننگ کھیلی اور جامعہ نگر سے اعظم گڑھ تک انہوں نے جس طرح متاثرین کے تئیں اظہار یکجہتی کا ظاہری مظاہرہ کیا،وہ تاریخ کا ناقابل فراموش حصہ ہی نہیں بلکہ خود ان کی غیرت پر سوالیہ نشان لگانے کیلئے بھی کافی ہے ۔یوپی کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس مسلمانوں کی نگاہ میں معتوب قرار نہ پائے ،اس کیلئے دگ وجے سنگھ نے جس نہج پر بٹلہ ہاؤس کی سیاست کی ،اُسے فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم تو ہے لیکن آج عشرت کے اہل خانہ کے درد کو اپنا درد سمجھنے والے دگ وجے سنگھ سے کون یہ دریافت کرے کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی آزادانہ تفتیش کے ان کے مطالبہ کاکیا ہوا ؟عشرت جہاں کے فرضی انکاؤنٹر کی تفتیش کے حوالہ سے سی بی آئی کی چارج شیٹ پر سیاست نہیں ہو رہی ،یہ نہیں کہاجاسکتا۔حالانکہ عشرت کے اہل خانہ کو انصاف دلانے کیلئے کوئی ایک سیاسی جماعت سامنے نہیں آئی ، یہ ایک ناقابل تردید سچائی ہے لیکن اس سے بھی بڑی سچائی یہ ہے کہ عشرت کی لاش کو اب سیاست کی چوکھٹ پر رکھ کر سیاسی فائدے لوٹنے کی کماحقہ کوشش شروع ہو گئی ہے اور شاید اس میں کانگریسی قائدین پیچھے نہیں رہنا چاہتے۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو کانگریس کے سیاست داں عشرت کے مقدمہ کی سیاسی طورپر نہ تو سماعت کرتے اور نہ ہی زور وشور کے ساتھ مودی کو خونخوار قرار دینے کی زبانی کو شش میں مصروف پائے جاتے۔حالانکہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ گجرات کے مسلم کش فسادات سے لے کر فرضی تصادم آرائیوں کے مقدمات تک میں کبھی بھی اور کسی مرحلے میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ کانگریس نے متاثرین کو انصاف دلانے کیلئے کسی بھی طرح کی عملی پیش رفت کامظاہرہ کیا ہو۔حد تو یہ بھی ہے کہ دوران فساد شہید ہونے والے کانگریسی قائد احسان جعفری کے لواحقین کے تئیں بھی کانگریس کواظہار یکجہتی کرتے یا ان کی بیوہ ذکیہ جعفری کو قانونی مدد فراہم کراتے نہیں دیکھا گیاجو شاید اس بات کا اظہاریہ ہی ہے کہ کانگریسی قائدین گجرات کے فسادات اور فرضی تصادم کے حوالے سے مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو سیاسی اعتبار سے گھیرنا تو چاہتے ہیں لیکن خود کانگریسی قائدین متاثرہ افراد کے تئیں کسی بھی طرح کی عملی ہمدردی یاانصاف کی فراہمی کیلئے ذہنی طور پر آمادہ نہیں۔اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم مختلف مواقع پر مظالم کے شکار لوگوں سے ساتھ کانگریسیوں کو بھی اُسی طرح کاندھے سے کاندھا ملا کر چلتے یقینادیکھتے ،جس نہج پر حصول انصاف کی جنگ میں درجنوں نہیں بلکہ سیکڑو ں رضاکار تنظیموں کے انصاف پسند غیر مسلم احباب مسلم متاثرین کو عملی مدد دے کر انسانیت کااعلیٰ نمونہ پیش کررہے ہیں۔سوال یہ بھی ہے کہ کیاحزب مخالف کی حیثیت سے گجرات میں کانگریس نے اپنا کوئی موثر قائدانہ کردار نبھایا ؟سوالات در سوالات کے درمیان ہمیں کسی ایک سوال کا جواب نہیں مل پارہاہے جو اس بات کو ثابت کرنے کیلئے شاید کافی کہلاسکتا ہے کہ کانگریس کی نیت اور اس کا منشا گجرات کی مسلم دشمن حکومت کے عتاب سے مظلوم مسلمانوں کو بچانا ہرگز نہیں۔ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کے لہو پر سیاسی عمارت کی تعمیر کانگریسیوں کا مقصود ہو جس کی وجہ سے ہی آج عشرت کا درد کانگریس کا ظاہری طورپر اپنا درد بن گیا ہو۔ویسے ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کوانصاف کی فراہمی کے معاملہ میں کانگریس کی مرکزی قیادت کا رویہ ہر لحاظ سے قابل مواخذہ کہلاسکتا ہے۔
ویسے ایک بڑا اور بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ گجرات کی پولیس تو بے نقاب ہوگئی،آئی بی کا بھی حقیقی چہرہ سامنے آگیا مگر ملک کی دیگر ریاستوں کی پولیس مشنریاں کب بے نقاب ہوں گی اور ان کے چہروں پر پڑے نقاب کو کب الٹاجائے گا جو فرضی تصادم آرائیوں میں ملوث رہی ہیں اورجن کے خون آلود چہروں کو ملمع کاری کے ذریعہ صاف وشفاف دکھانے کی حکمت عملی اختیار کی جاتی رہی ہے۔ فرضی تصادم کے واقعات پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑانے سے پتہ یہ چلتا ہے کہ پولیس انکاؤنٹر کے ہر ایک کے بعددوسرے واقعہ کی معتبریت پر سوالیہ نشان کسی نہ کسی گوشے سے لگایاجاتارہاہے۔ حقوق انسانی کی تنظیمیں اس سلسلے میں اپنی تشویش کا اظہار کرتی رہی ہیں مگر یہ امر موجب استفسار اور باعث تشویش ہے کہ فرضی انکاؤنٹر کے واقعات میں کوئی گراوٹ کیوں درج نہیں ہورہی ہے۔ ایک اور سوال جواب طلب ہے وہ یہ کہ انکاؤنٹر کی معتبریت پر سوالیہ نشان لگائے جانے کے بعد آخر کن بنیادوں پر کسی بھی معاملے کی آزاد انکوائری کی جانی چاہئے؟ اس سلسلے میں غالباً کوئی بندھاٹکا ضابطہ متعین نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کم ازکم جامعہ نگر میں رونما ہونے والے اس انکاؤنٹر کی آزاد انکوائری سے گریز وپرہیز کی روش ہرگز اختیار نہیں کی جاتی جسے آج بھی فرضی انکاؤنٹر قرار دینے والوں کی کمی نہیں ہے۔ چونکہ بٹلہ ہاؤس واقعہ کی آزادانہ طریقے سے تفتیش وتحقیق نہیں کی گئی ہے لہٰذایہ کہاجاتاہے کہ دہلی پولیس کا چہرہ بے نقاب نہیں ہوا ہے۔ کیاہی اچھا ہوتا کہ انصاف کے اعلیٰ معیاروں کا خیال رکھتے ہوئے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر سمیت تمام ایسے تمام واقعات کی جانچ کرائی جاتی جن کی اصلیت اور معتبریت سوالات کے گھیرے میں ہے۔ اگرکسی واقعہ کی بابت یہ کہاجاتا ہے کہ انکوائری کے ذریعہ دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی الگ کیاجائے تو ارباب اقتدار کے ہاتھ پاؤں آخر کیوں پھولنے لگتے ہیں؟یہ سمجھ سے پرے ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ "ہندوستان ایکسپریس" کے نیوز ایڈیٹر ہیں )
موبائل : 08802004854 , 09871719262
موبائل : 08802004854 , 09871719262
شاہد الاسلام |
Politics on bodies of Victims. Article: Shahidul Islam
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں