مسلمانوں کو امتیازی سیاسی شناخت بنانے کی ضرورت - اسد الدین اویسی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-15

مسلمانوں کو امتیازی سیاسی شناخت بنانے کی ضرورت - اسد الدین اویسی

"ہماری ایک سیاسی جدوجہد ہے، جی ہاں۔ ہم نے پسماندہ طبقات کے کاز کی تائید کی ہے اور ہمیں اس پر فخر ہے، میں یہ نہیں مسجھتا کہ یہ سیاسی لڑائی ہے، لیکن یہ پارلیمانی جمہوریت کو مستحکم کرنے کی لڑائی ہے"۔
بیرسٹر اسد الدین اویسی رکن پارلیمنٹ حیدرآباد و صدر مجلس اتحاد المسلمین نے جدہ میں ہفتہ کی شام سعودی گزٹ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔
بیرسٹر اسد الدین اویسی نے جن پر احتیاطی اقدام کے طورپر مہاراشٹرا میں جلسوں سے خطاب پر پابندی عائد کردی گئی ہے مزید کہا "جمہوریت میں ہر کسی کو اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم مختلف طبقات کے درمیان اچھے تعلقات کو فروغ دینے کی حتی المقدوس کوشش کررہے ہیں"۔ مہاراشٹرا میں داخلہ پر پابندی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا"کوئی بات نہیں، وہ جتنا زیادہ مجھے روکتے ہیں اتنا زیادہ وہ میری مدد کرتے ہیں، جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اس میں ضرور کچھ سچائی ہوتی ہے۔ سچائی انہیں مجروم کرتی ہے اسی لئے وہ مجھے روکنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن کب تک وہ مجھے روک سکتے ہیں۔ اورنگ آباد میں یہی بات واقع ہوئی اور میں وہاں گیا اور ہزاروں عوام جمع ہوئے۔ اب ہم مستحکم ہورہے ہیں"۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی جو اپنا نکتہ نظر پیش کرتے ہیں صاف صاف اظہار خیال کرتے ہیں، ہندوستانی مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ ایک امتیازی سیاسی شناخت کے حامل بنیں"۔ مسلمانوں کو یہ محسوس کرنا چاہئے کہ انہیں امتیازی سیاسی شناخت رکھنا ہے۔ انہیں اس تصور و خیال سے باہر نکلنا ہوگا کہ اگر وہ امتیازی سیاسی شناخت رکھتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں فرقہ پرست قوتوں کے استحکام کی راہ ہموار ہوگی۔ اس طرح کا تصور صورتحال کو سمجھنے میں مکمل غلط ہے اس کے برخلاف اس سے ہماری پارلیمانی جمہوریت مستحکم ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ قومی اور سیکولر پارٹیاں مکمل طورپر ناکام ہوچکی ہیں۔ "ہم نے کوشش کی اور سیکولر پارٹیوں کو آزمایا لیکن وہ ہمارے بچاؤ کیلئے نہیں آئیں"۔ "مہاراشٹرا میں کانگریس کے اقتدار میں رہنے کے باوجود ہر دو تین مہینوں میں مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کے تحت پکڑا جارہا ہے۔ اس طرح کا عمل اسی وقت رک سکتا ہے جب آپ خود ایک سیاسی قوت بنتے ہیں۔ کوئی بھی ہماری مدد کیلئے آنے والا نہیں ہے۔ ہمیں کسی بھی صورتحال کا حوصلہ مندی سے سامنا کرنا ہوگا۔ ہمیں ایک سیاسی پارٹی کے تحت اپنے خود کو قائدین پیدا کرنا ہوگا"۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے جو 2008ء سے کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کی قیادت کررہے ہیں یہ بات کہی۔ انہوں نے کرناٹک کی مثال دیتے ہوئے اپنے اس نکتہ کی وضاحت کی جہاں پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، حکومت کو حالیہ اسمبلی انتخابات میں بے دخل کیاگیا۔ انہوں نے کہا "کرناٹک میں بی جے پی کو بے دخل کیاگیا۔ مسلمانوں نے کانگریس کی تائید کی۔ کرناٹک میں مسلم آبادی 13فیصد ہے لہذا اسمبلی میں تقریباً 20 ایم ایل ایز کو منتخب ہونا چاہئے" لیکن صرف 11 ہی منتخب ہوئے۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے جو مسلمانوں کے کاز کیلئے کھل کر کام کرتے ہیں 4 اہم مسائل بتلائے جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور کہاکہ مسلم طبقہ کو چاہئے کہ ان مسائل کو اپنے انتخابی ایجنڈے میں شامل کرے"۔ مجموعی طورپر، قومی سطح پر، تحفظات کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ریاستی حکومتوں کی اقلیتی امور کی وزارتوں کے سالانہ بجٹ میں اضافہ ایک اور ایک اہم مسئلہ ہے جس کے بعد سرکاری بینکوں کے لئے قرض میں اضافہ کی اہمیت ہے۔ آخری لیکن سب سے زیادہ اہم دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کی ایذا رسانی بند ہونی چاہئے۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے جو Lincoins Inn سے بیرسٹر۔ ایٹ۔ لاء ہیں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کا خیرمقدم کیا جس میں قانون عوامی نمائندگان کی ایک دفعہ کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جس کے تحت ایک ایسے قانون ساز کو جسے مرتکب جرم قرار دیا گیا ہے ان کے خلاف کیسس کے زیر تصفیہ ہونے تک عہدہ پر برقرا ررہنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن انہیں ایک متعلقہ فیصلہ کے بارے میں تحفظات ہیں جس میں سپریم کورٹ نے کسی کو بھی جیل سے انتخاب لڑنے یا ووٹ ڈالنے پر پابندی عائد کردی ہے"۔ اس کا بیجا استعمال اور ناجائز استعمال ممکن ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ حکومت ہند اس فیصلہ کو رد کردئیے جانے کو یقینی بنائے گی"۔ مبینہ نفرت پھیلانے والی تقریر کے بارے میں جس کیلئے ان کے بھائی قائد مجلس لیجسلیچر پارٹی اکبر الدین اویسی پر مقدمہ چل رہا ہے اور ان پر بغاوت اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا الزام ہے، بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہاکہ قانون کا اطلاق سب پر یکساں ہونا چاہئے۔" آپ صرف اکبر الدین اویسی کو قانون کا نشانہ نہیں بناسکتے"۔ جہاں تک دائیں بازو کے لیڈرنریندر مودی کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثر کاتعلق ہے۔ انہوں نے کہاکہ "ہندوستانیوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ فاشزم کی طرف یا سیکولر جمہوریت کی طرف جانا چاہتے ہیں"۔

(بشکریہ سعودی گزٹ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں