Jamshed ji Tata - the great architect of modern India
جمشید جی ٹاٹا نہ صرف شہر جمشید پور اور شرہ آفاق کمپنی ٹاٹا اسٹیل کے بانی تھے بلکہ وہ پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے اقتصادیات کی دنیا میں ہندوستان کو عالمی نقشے میں باوقار مقام دلایا۔ پہلے وزیراعظم ہند پنڈت جواہر لال نہرو نے ان کی عظیم خدمات کا اعتراف کتے ہوئے برملا کہا تھا کہ انہیں نہایت عقیدت و احترام سے یاد کرنا چاہئے کیونکہ وہ بجا طورپر جدید ہندوستان کے بے حد عظیم معمار تھے۔ جب پہلی بار ہندوستانی سول سروس خدمات کے دروازے ہندوستانیوں کیلئے کھولے گئے جمشید جی کیلئے یہ خبر بے حد مسرت والی تھی۔ انہوں نے باصلاحیت ہندوستانی نوجوانوں کی شناخت کرکے انہیں اعلیٰ تعلیم و تربیت کیلئے سمندر پار بیرونی ممالک بھیجنے کیلئے پہلے ہی ایک خصوص فنڈ قائم کیا تھا۔ اس فنڈ نے پہلی بار کسی ہندوستانی کو انجینئر، فزیشن، سرجن، بیرسٹر اور ماہر تعلیم بننے میں مدد دی۔ اب اسی فنڈ کی مدد سے ہندوستان کے شہری بھی آئی ایس کیلئے کوالیفائی کریں۔ اس میں کچھ وقت تو لگا لیکن بالآخر اس عظیم ہستی کو خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ 1924ء تک ایک اندازہ کے مطابق بھی ہندوستانی سول سروس میں شامل 5 ہندوستانیوں میں ایک ٹاٹا اسکالر تھا۔ حالانکہ جمشید جی با صلاحیت افراد کی مدد کرتے تھے۔ وہ خیرات دینے پر یقین نہیں رکھتے تھے اس کی جگہ پر وہ طالب علموں کو قرض فراہم کرتے تھے (بلاسودی) جسے وہ "قابل" ہونے کے بعد اپنی سہولت کے مطابق بے حد آسان قسطوں میں چکاسکتے تھے۔ اس طرح جمشید جی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ آنے والے پیڑھیاں باشعور اور ترقی یافتہ ہوں۔ ان کی زندگی کئی کتاب کے ورق الٹیں تو کئی دلچسپ واقعات سامنے آتے ہیں۔ 1901ء میں جشمید جی نے اپنے لئے ایک موٹر کار خریدی اور تب ممبئی میں پہلی بار لوگوں نے موٹر کار دیھکی تھی۔ جمشید جی بڑے شوق سے اپنے دوستوں کو کارکی سواری کرنے کیلئے مدعو کرتے تھے اور انہیں اپنی کار میں شہر کی سیر کراتے تھے ایسے میں لوگ سڑکوں کے کنارے کھڑے ہوکر جادوائی سوار کا بڑی حیرت سے نظارہ کرتے تھے۔ جشمید پور میں ان کی کار کا حیرت ناک اور مسرت آگیں نظارہ کیلئے بہار، بنگال اور اڑیسہ تک سے لوگ بڑے ذوق و شوق سے سفر کی صعوبتیں جھیل کر آتے تھے اور واپسی پر اپنے لوگوں کے کار کی کہانی سنسنی خیز پہلو میں سناتے تھے۔ جشمید ٹاٹا نے اپنے کسی بھی اقدام اور انسانی خدمات میں مذہب کو کبھی آڑے آنے نہیں دیا۔ ٹائمز آف انڈیا نے ان کی رحلت پر خصوصی ضمیمہ میں لکھا تھا۔ "وہ ایسے انسان نہیں تھے جسے لوگوں کے صلہ و ستائش کی تمنا ہو۔ وہ عوامی تقریبات سے پرہیز کرتے تھے۔ وہ لمبی چوڑی تقریر پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ان کی بے حد سادہ لیکن پروقار شخصیت، کسی کو بھی چاہے وہ کتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو ان کی چاپلوسی کی اجازت نہیں دینا تھا کیونکہ وہ خود ہی اتنے بڑے اور اتنے عظیم تھے، لوگوں نے انہیں جتنا جانا ہے اس سے بھی کہیں بڑے اور عظیم تھے۔ انہیں کسی طرح کے اعزاز اور شہرت کی بھوک نہیں تھی۔ وہ کسی سہولت کے طلبگار نہیں تھے لیکن ہندوستان اور ہندوستان کے کروڑوں لوگوں کی ترقی اور ان کیلئے ایک باعزت مقام کی خواہش رکھتے تھے"۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں