سیکولرازم کے بغیر ملک کا کوئی مستقبل نہیں - چدمبرم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-02

سیکولرازم کے بغیر ملک کا کوئی مستقبل نہیں - چدمبرم

چیف منسٹر گجرات نریندر مودی کو تخریبی ذہنیت کا حامل قرار دیتے ہوئے وزیر فینانس پی چدمبرم نے کہاکہ بی جے پی نے اپنا رویہ ترک نہیں کیا ہے، اس کے رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، لہذا آئندہ لوک سبھا انتخابات میں پھر ایک مرتبہ اس پارٹی کو خاک چاٹنی پڑے گی، کیونکہ یہ وہ جماعت ہے جو مشمولیت اور سیکولرازم پر یقین نہیں رکھتی۔ بی جے پی آج بھی یکساں سول کوڈ، ایودھیا اور دفعہ 370 جیسے متنازعہ مسائل کو ترجیح دے رہی ہے۔ ہندوستانی عوام رائے دہی کے وقت ان باتوں کو ملحوظ ضرور رکھیں گے اور تخریب کار وں کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ وزارت عظمی کے لئے بی جے پی کے امیدوار نریندر مودی اس عہدہ کیلئے موزوں ہیں یا نہیں اس بحث میں الجھے بغیر پی چدمبرم نے کہاکہ کانگریس کسی فرد واحد پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے انتخابات کا مقابلہ نہیں کرے گیل بلکہ بی جے پی کے اس نظریہ کو چیلنج کیا جائے گا جس کی بنیاد پر اس پارٹی کو 2004 اور 2009ء میں شکست اٹھانی پڑی تھی۔ مودی کو بی جے پی انتخابی کمیٹی کا سربراہ بنائے جانے پر چدمبرم نے مذاق اڑاتے ہوئے کہاکہ یہ ایک ایسا تخریبی لیڈر ہے جس کے خلاف خود اس کی ہی پارٹی میں اعلیٰ سطح پر پرچم بغاوت بلند ہوگیا ہے۔ ان کا اشارہ اڈوانی کی طرف تھا۔ چدمبرم نے کہاکہ بی جے پی میں کئی لیڈر مودی کے خلاف بغاوت کررہے ہیں۔ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں اس طرح کا نظارہ پہلی مرتبہ دیکھا جارہا ہے کہ ایک لیڈر کے خلاف اعلیٰ سطح پر بغاوت ہورہی ہے۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اگر نریندر مودی وزارت عظمی کے امیدوار بنائے جاتے ہیں تو ہندوستانی عوام کو بڑا طبقہ تشویش میں مبتلا ہوگا اور اس پارٹی کو ہرگز منتخب نہیں کرے گا۔ بہرحال یہ پارٹی کی اپنی پسند ہے۔ جب بی جے پی نے فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اس کا خمیازہ بھی انہیں بھگتنا پڑے گا۔ جب بی جے پی کا فیصلہ ہوسکتا ہے تو عوام بھی اپنا فیصلہ سنائیں گے۔ مرکزی وزیر فینانس نے اس شخصی بحث میں الجھنے سے گریز کرتے ہوئے کہاکہ کانگریس مشمولیت اور وسیع النظری پر مبنی سیکولرازم کے اصولوں پر انتخابات کا مقابلہ کرے گی۔ کانگریس ایک ایسے ہدنوستان کا تصور پیش کرتی ہے جس میں کسی بھی طبقہ کو محروم نہیں کیا گیا ہو، بالخصوص سب سے پسماندہ طبقہ (مسلمان) بھی ترقی کے ثمرات سے استفادہ کرے۔ بی جے پی کا ہندوستان کانگریس کے ہندوستان سے بالکل مختلف ہے۔ بی جے پی کے نظریہ کو دو مرتبہ شکست اٹھانی پڑی۔ حیرت کی انتہا تو یہ ہے کہ اعتدال پسند اور سیکولر لیڈر سمجھے جانے والے واجپائی کو بھی 2004ء کے انتخابات میں خاک چاٹنی پڑی۔ ہندوستانی عوام بے انتہا باشعور ہیں۔ انہوں نے اس وقت فیصلہ کیا تھا کہ بی جے پی اب اقتدار کی مستحق نہیں ہوسکتی۔ اڈوانی پر تنقیدوں کی تیر چلاتے ہوئے چدمبرم نے کہاکہ 2009ء میں ہندوستانی عوام نے اس لیڈر کو مسترد کردیا جو مہاپرش مردآہن سمجھا جاتا تھا۔ ایسے مہا پرش کو ایک کمزور لیڈر (منموہن سنگھ) نے انتخابی اکھاڑے میں بڑی آسانی کے ساتھ شکست دے دی۔ اس مرتبہ بھی عوام نے بی جے پی نے ابھی تک ہندوستانی عوام کے ذہن کو نہیں سمجھا اور نہ ہی وہ سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ بس اپنا پرانا راگ الاپ رہے ہیں، جس کی وجہہ سے انہیں بار بار شکست فاش سے دوچار ہونا پڑرہاہے، لہذا یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہی راگ پھر دہرایا گیا تو نتیجہ پھر وہی ہوگا، یعنی اس تخریبی جماعت کو شرمناک شکست اٹھانی پڑے گی۔ اس سوال پر کہ آیا کانگریس مودی جیسے سیاسی سورما سے خائف ہوگئی ہے، چدمبرم نے جواب دیا کہ کون کمزور ہے، کون مرد آہن ہے، کون نحیف ہے، یہ دو مرتبہ یعنی 2004ء اور 2009ء میں ثابت ہوگیا اور پھر ثابت ہوگا۔ کانگریس کی نشستوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کسی لیڈر کا کمزور اور طاقتور ہونا محض ایک واہمہ ہے، پروپگنڈہ ہے۔ میڈیا اس واہمہ میں گرفتار ہوگیا ہے۔ جو لوگ دو مرتبہ شکست اٹھاچکے ہیں اور وہ کانگریس کو کیا چیلنج کرسکتے ہیں۔ سیکولرازم کو ایک وبائی مرض قرار دینے والی بی جے پی اپنی ذہنیت ثابت کررہی ہے۔ سیکولرازم پر ہر گز اس کا ایقان نہیں ہے۔ کشمیر کی دفعہ کے 370 اور یکساں سول کوڈ پر اڈوانی کے حالیہ بیان کا تذکرہ کرتے ہوئے پی چدمبرم نے جو ماہر معاشیات ہیں اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ہیں کہاکہ اس طرح سے بی جے پی کے بعض لیڈر یہ منطق پھیش کریں گے کہ شہادت بابری مسجد بالکل درست ہے اور اس مقام پر مندر تعمیر کی جانی چاہئے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ بی جے پی اپنے قدیم خول میں ہی بند ہے، اس کے نظریہ میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہندوستانی عوام اتنے سادہ لوح ہیں۔ کیا وہ ان باتوبں پر اپنا ردعمل ظاہر نہیں کریں گے۔ ہندوستانی جمہوریت اب اتنی باشعور ہوگئی ہے کہ وہ اپنے خیر خواہوں کو بخوبی پہچانتی ہے۔ غیر سیکولر اور غیر جمہوری عناصر کو اس ملک میں کبھی بھی ابھرنے کا موقع حاصل نہیں ہوگا۔ جمہوریت میں بدنظمی ہوسکتی ہے لیکن سیکولرازم پر سمجھوتہ ہرگز نہیں کیا جاسکتا۔

'Narendra Modi a very divisive leader, Our idea of India is an India that is secular that believes in inclusive growth.' -Chidambaram

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں